Maseehai Kaise Ho (2)
مسیحائی کیسے ہو (2)
میں ایک دلچسپ کتاب لکھ رہی ہوں۔ نہیں دلچسپ تو نہیں کہہ سکتی۔ کہنا چاہیئے ایک انوکھی کتاب لکھ رہی ہوں۔ اس میں کینسر کے مریضوں کے تجربات ہیں۔
ہاں ہاں میں سمجھ رہا ہوں۔ اس نے کہا
ذرہ تفصیل سے بتائیں۔ آپ کو پتہ ہے، اللہ تعالٰی کی مہربانی سے میں اب تک ایک ہزار سے زائد مریضوں کے آپریشن کر چکی ہوں۔
واقعی، اس نے حیران ہو کر کہا۔
کتنا عرصہ ہوا ہے، اس ہسپتال میں کام کرتے ہوئے۔
کام تو میں نے یہاں آتے ہی شروع کر دیا تھا۔ مختلف انسٹیٹیوٹ میں مزید پڑھتی بھی رہی اور کام بھی کرتی رہی۔ لیکن اس ہسپتال میں بطور سرجن کام کرتے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں۔
اور پانچ سال میں آپ ایک ہزار آپریشن کر چکی ہیں؟
تنہا؟
نہیں کبھی کبھار دو تین ڈاکٹروں کی ٹیم بھی بن جاتی ہے۔ مگر اکثر اوقات مسلمان ملکوں کی عورتیں مجھ ہی سے آپریشن کروانا پسند کرتی ہیں۔ اچھا آپ ان تفصیلوں کو چھوڑیں۔ میری کتاب اور طرح کی ہے۔ میں آپریشن سے پہلے مریض سے باقاعدہ گفتگو کرتی رہتی ہوں۔ آپریشن کے وقت اس کے تاثرات ریکارڈ کرتی ہوں۔ اور جب اسے پہلی مرتبہ ہوش آئے تو اس کا پہلا فقرہ نوٹ کر لیتی ہوں۔ پھر جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر جانے لگتا ہے تو اس سے بہت طویل انٹرویو کرتی ہوں۔
بہت دلچسپ، اس نے دلچسپی لی۔
اب ان تمام تجربات و مشاہدات اور گفتگوؤں پر مشتمل ایک کتاب لکھ رہی ہوں۔ یہ کتاب ظاہر ہے انگریزی میں ہو گی۔ اور دنیا بھر کے مریضوں کے لئے انتہائی دلچسپ اور مفید ہو گی۔
ایسا ہی ہو گا، وہ بولا۔
بھائی جان اس میں وہ خط بھی شامل ہیں، جو مریض جا کر مجھے لکھتے ہیں۔
اتنے خوبصورت خط، کہ جب وہ چھپیں گے، تو ایک ایسے ادب کی قسم سامنے آئے گی جو اہل قلم یا تخلیق کاروں نے جنم نہیں دیا ہوگا۔ بلکہ زندگی سے پیار کرنے والوں نے تخلیق کیا ہو گا۔ اور ان خطوں کو پڑھ کر سب ادیب اور شاعر رشک کریں گے۔ پھر انہیں معلوم ہو گا زندگی ادب کو جنم دیتی ہے۔ ادب زندگی کو نہیں۔
تمہارا کتنا خوبصورت روپ میرے سامنے آیا ہے۔ میں حیرت زدہ ہوں۔ تم کتنا خوبصورت سوچ سکتی ہو۔ اللہ نے تمہیں کس فراغت سے بنایا اور تراشا ہے۔ تمہارے والدین نے تمہاری کتنی اچھی تربیت کی ہے۔ تمہارا دماغ کتنا خوبصورت ہے۔ اس میں کتنی سرُوپ سوچیں ہیں۔ بولتی جاؤ۔ آج میں تمہیں مکمل طور پر سننا چاہتا ہوں۔ تمہاری سوچ کے پورے خزانے سے واقف ہونا چاہتا ہوں۔
بھائی جان، اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میری زیست کا سرمایا کیا ہے؟ تو میں وہ سامنے والی الماری کھول دوں گی۔ اس میں میرے مریضوں کے دنیا بھر سے آئے خطوط، کارڈ، نظمیں، پھول، آنسو اور مسکراہٹیں بند ہیں۔ بعض مریض مجھے باقاعدہ کرسمس یا عید پر تحائف بھجواتے ہیں۔
میں نے ان سب چیزوں کو ترتیب دیا ہے۔ ایک کتاب بناؤں گی۔ دنیا والوں کے لئے اور انہیں بتاؤں گی کہ زندگی کیا ہے۔ اس سے کس طرح پیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ اور کتنی چھوٹی سی کاوش سے تم دوسروں کو زندگی دے سکتے ہو۔ جینے کا حوصلہ دے سکتے ہو۔ کس طرح قوتِ ارادی عمر کو لمبا کر دیتی ہے۔ بس میں چاہتی ہوں یہ کتاب جلد سے جلد منظر عام پر آ سکے۔ فکشن کی دنیا کو مَیں تحقیق کی طرف سے ایک تحفہ دوں گی۔
وہ سامنے بیٹھا اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اور شدتِ جذبات سے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میری بہن میں تیرے مقدس ہاتھوں کو بوسا دوں۔
اس نے نہیں کہہ کر ہاتھ چھڑا لیے۔
بھائی جان آپ کو معلوم ہے، ہم لوگ اپنے راستے سے کیوں بھٹک جاتے ہیں؟
وہ ٹشو پکڑے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا۔
ہم لوگ اس لیئے بھٹک جاتے ہیں کہ راستے میں ہمیں کہیں آپ جیسے عقیدت مند مل جاتے ہیں۔ مجھے ہی نہیں دنیا بھر میں فلاح کے کام کرنے والوں کو ہاتھ پاؤں چومنے والے مل جاتے ہیں۔ وہیں ہمارا ارتقا رک جاتا ہے۔ وہیں سیرت کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ شخصیت اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ پھر اچھے بھلے بندے کو شخصیت پرستی میں لطف آنے لگتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے چوراہے پر میرا بت نصب ہو۔ ہر دل میں میری تصویر ہو۔
ڈاکٹر ہو تو مریضوں سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ عالم ہو تو بےعملیاں شروع کر دیتا ہے۔ سیاست دان ہو تو تکبر کے گھوڑے پر سوار ہو جاتا ہے۔ ادیب ہو تو اس کی تحریر بے اثر ہو جاتی ہے۔ بس آگے آپ ہر آدمی کے بارے میں سوچ لیں۔ جس آدمی کو اپنی نیکیوں کے تذکرے پسند ہوں اور گناہوں سے استغفار نہ کرے، وہ متکبر ہے۔ اپنے بارے میں باتیں کرنا مکروہ ہے۔
اور اپنے بارے میں باتیں سننا اس سے بھی زیادہ مکروہ ہے۔ اللہ ہمیں تقدیس کے بھرم سے بچائے اور بندگی کا شرف بخشے۔ لطف تو تب ہے کہ نہ تو کسی کی تعریف سے کوئی فرق پڑے نہ تذلیل سے، یہ دونوں دیمک کی طرح آپ کی صلاحیتوں کو چاٹ جاتی ہیں۔ ان دونوں طرح کے لوگوں سے دور رہنا ہی بھلا ہے۔
میں اس لیے بڑی خاموشی اور گم نامی میں کام کرنا چاہتی ہوں۔ بہت زیادہ تحقیق کرنا چاہتی ہوں۔ اس ریسرچ کی بنیاد انسانی تجربات و احساسات ہوں گے۔ پتہ ہے میں یہ کتاب اپنے نام سے نہیں، ایک فرضی نام سے چھپواؤں گی۔
وہ اٹھ کر زمین پر دوزانو بیٹھ گیا۔
بھائی جان آپ کیا کر رہے ہیں؟
اس وقت میری حالت بہت عجیب ہے۔ مجھے ایک پیالی کافی بنا کر دو۔
وہ اٹھی اور کافی بنا کر لے آئی۔ ایک پیالی اسے دی اور ایک خود پکڑ لی اور اس کے پاس قالین پر بیٹھ گئی۔
اُس نے کافی پیتے ہوئے کہا، تمہاری شادی کے معاملے میں، مَیں تمہارا مجرم ہوں۔ بھائی جان آپ کیسی بات کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ میں نے ہی تمہیں تمہارے موجودہ خاوند اور اپنے دوست سے شادی کرنے کے لئے راضی کیا تھا۔ اس کو ایک مثالی شوہر کے طور پر پیش کیا تھا۔ میں اسے صحیح طور پر پہچان نہیں پایا تھا۔ یہ میرا جرم ہے۔ لیکن انسان بڑی پیچیدہ مشین ہے۔ اس کی مکمل پہچان ناممکن ہے۔ دکھنے میں کچھ، اصل میں کچھ۔
بھائی کسی بات میں کسی کی کوئی غلطی نہیں ہوتی یہ سب اللہ کی طرف سے لکھا ہوتا ہے۔ ممکن ہے مجھے بہت چاہنے والا اور بہت خیال رکھنے والا شوہر مل جاتا تو میں اپنے پیشے میں عروج نہ حاصل کر پاتی۔ کمال کا کنول تو ہمیشہ محرومیوں کی جھیل میں کھلتا ہے نا۔
یہ سب تمہارے نیک والدین کی تربیت کا اثر ہے۔ تمہیں اگر شادی کی صورت میں زندگی کی سب سے اچھی راحت نصیب ہو جاتی اور تمہارے گھر میں سکون اور پیار ہوتا، تو تم اس سے کہیں آگے بڑھ جاتیں۔
یہ صرف مفروضہ ہے، تجربہ نہیں۔ بس میں اپنی لگن میں مگن ہوں، میری تھکاوٹ اتارنے کے لئے اللہ نے مجھے ایک بیٹا دے رکھا ہے، جو میری آنے والی زندگی کی خوشیوں اور تجربوں کی ضمانت ہے۔
اب واجد نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا، اب دیکھو یہ بھی ایک ڈاکٹر ہے، پر کتنی سلیقہ شعار، کتنی خوش اسلوب، کتنی عالی طبع ہے۔ اس کے ہاتھ اور زبان سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس کی تہہ میں خوشی کی لہریں ہیں۔ وہ کتنی مطمئن اور خوش ہے۔ وہ کچن میں بھی کام کر رہی ہے۔ ایک انتہائی احمق اور کم ظرف خاوند کے ساتھ بڑے دل اور وسیع ظرف سے رہ رہی ہے۔
اپنے بیٹے کی انتہائی برے خانگی حالات میں اچھی تربیت بھی کر رہی ہے۔ کتنا گہرا ادبی شعور رکھتی ہے اور ایک شاندار اور انوکھی کتاب بھی لکھ رہی ہے۔ وہ بھی اپنے نام سے نہیں، ایک فرضی نام سے کہ تکبر سے بچ سکے۔ اس کا دعویٰ ہے یہ کتاب ادب کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔
بہن کے بیمار شوہر کی سگی بہن کی طرح خدمت اور علاج کروا رہی ہے۔ اپنی جیب سے ہزاروں ڈالر لگا کر اس کے دل کا آپریشن کروایا اور اپنے جیسے ایک بہترین ڈاکٹر سے کروایا۔ جس کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اس کا دستِ ہنر کیا نہیں کر رہا۔ کام بھی ہو رہا ہے، تعلقات اور رشتوں کا برزخ بھی چل رہا ہے، لیکن سر اللہ کے حضور خمیدہ ہے۔ کوئی ناز، کوئی بناوٹ، کوئی تکبر نہیں ہے۔
عاجزی کی دلنواز خوشبو اور صبر کی خوشگوار حدت ہے کہ فیض اس کے لیئے ہے۔ جس کے پاس احترام اور عاجزی ہے۔ اللہ تعالٰی جب کسی کو عاجز کرنا چاہے تو اس سے عاجزی چھین لیتا ہے۔
زمینِ دل یونہی تو آباد نہیں اے دوست
قریب میں کوئی دریا ضرور بہتا ہے
واجد نے کہا پہلی کہانی یہاں ختم ہوتی ہے۔ اب دوسری کی طرف آتے ہیں۔