Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Maseehai Kaise Ho (1)

Maseehai Kaise Ho (1)

مسیحائی کیسے ہو(1)

اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

میں ریلوے سٹیشن پر کھڑا لاہور جانے والی ٹرین کا منتظر تھا کہ کسی نے پیچھے سے آکر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ میرا پرانا اور پیارا دوست واجد تھا۔ واجد اور میں اکٹھے پڑھتے رہے۔ وہ ایک ہونہار طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے روزمرہ مسائل کا شعور رکھنے والا نوجوان تھا۔ مثبت اور حوصلہ افزا باتیں کرنے، خوش رہنے اور دوسروں کو تازہ دم رکھنے کا فن جانتا تھا۔ اداس اور خاموش رہنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ گفتگو چھیڑنا اور اسے آگے چلانے کا سلیقہ کوئی اس سے سیکھے۔ اس کی باتوں میں گہرائی ہوتی ہے۔ آج آتے ہی اس نے ینگ ڈاکٹروں کی بات چھیڑ دی۔ میں نے کہا کوئی اور بات کر لیتے ہیں۔ ان ذہین لیکن غیر ذمہ دار بچوں کی بات کرنے سے کیا حاصل۔ سب ان مسیحاؤں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہ ہسپتال بند کرتے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ مریض چارہ گر کا انتظار کرتے اللہ کے حضور پیش ہو جاتے ہیں۔

وہ کہنے لگا تمہارے پاس دل ہے نہ نظر، نہ تلاش کا شوق۔ ہمیشہ کمزور دلیل سے بات کرتے ہو، معاملے کو ہر زاویے سے دیکھے، اس کی تہہ تک پہنچے اور سمجھے بغیر فیصلے تک پہنچ جاتے ہو۔ اللہ نے ہر قسم کے انسان اس دنیا میں بھیج رکھے ہیں۔ صرف تلاش کرنے والا دل، شناخت کرنے والی آنکھ چاہئے۔ ڈاکٹر بھی انسان ہوتے ہیں اور سب کے سب ایک سے نہیں ہوتے۔ کئی قسم کے ہیں۔ اچھے بھی اور کچھ ایسے بھی، جو شاید اچھے نہ کہلا سکیں۔ انسان تو ایسا ہی ہے، اب ہم فرشتوں کو تو ڈاکٹر بنانے سے رہے۔ دیکھو چاند کتنا خوبصورت ہے، کتنا اونچا ہے، دنیا اس کو دیکھتی ہے۔ مگر کبھی کبھی اس کو بھی گرہن لگتا ہے کہ تکبر کی گرفت میں نہ آئے۔ ہم پلیٹ فارم پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ ٹرین خلافِ معمول بالکل وقت پر چلی آئی جیسے اس نے کسی سے شرط لگا رکھی تھی۔ نہ انجن کی چیخ، نہ کوئی چھک چھک کا کلاسیکی ترانہ، ایسے جیسے ندی بل کھاتی، لہراتی آ رہی ہو۔

ہم دونوں فوراً سوار ہو گئے۔ بات وہیں سے جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا آپ کی باتیں بہت گہری ہیں، مگر میں معذرت چاہتا ہوں، میرا ڈاکٹروں کے متعلق نقطہ نگاہ کوئی زیادہ روشن نہیں ہے۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں اور میں انہیں دلائل سے ثابت بھی کر سکتا ہوں۔ مثلاً میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس چیک اپ کے لئے گیا۔ میرے سینے پہ گرمی کی وجہ سے انفیکشن ہو گیا تھا۔ وہاں چھوٹے چھوٹے پھوڑے بن گئے۔ میں ہسپتال چلا گیا، پرچی لے کر انتظار کرنے لگا، ایک لمبے اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد باری آنے پر میں ڈاکٹر صاحب کے کمرے داخل ہوا۔ حسبِ معمول ان کی کرسی سے تھوڑا دور ایک چھوٹا سا سٹول رکھا تھا۔ میں اس پر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنی بیماری کا بتایا۔ خود ہی بتانا پڑا کہ ڈاکٹر صاحب نے نہ تو میری طرف دیکھنا گوارا کیا اور نہ ہی بیماری کے متعلق پوچھنا۔

میرے بتانے پر فرمایا کہ قمیص کے بٹن کھول کر دکھائیں۔ لیکن مجھے لگا کہ سٹول ذرہ دور ہے شاید ڈاکٹر صاحب کو دیکھنے میں دقّت ہو، میں نے سٹول کو کھسکا کر ڈاکٹر صاحب کی کرسی کے قریب ہونے کی کوشش کی لیکن حیرت انگیز طور پر سٹول میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے مہربانی فرما کر لب کشائی کی اور فرمایا کہ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، حقارت سے میرے سینے کے پھپھولوں کو دور سے ہی اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھا اور دوائی لکھ دی۔

اب مجھے تجسس ہوا کہ سٹول میری کوشش کے باوجود آگے کیوں نہ سرکا۔ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کر کے اٹھا تو دیکھا کہ سٹول پیچھے دیوار پر لگے ایک پائپ کے ساتھ رسی سے کس کے باندھا ہوا ہے۔ میں نے کہا اس مردم بیزار نے مسیحائی کیا کرنی ہے۔ یہ تو انسانیت سے متنفر مسیحا لگتا ہے۔ بقول مصحفی:

لب ہلاتے ہی مرے مجھ سے جو بیزار ہوا

بات کہہ کر تیرے آگے میں گنہگار ہوا

مجھے دھچکا تو لگا لیکن سنبھل گیا۔ چارہ گر کو اس کی کاری گری کی داد دی، دوائی لی اور واپس آگیا۔ کہ احتجاج کرنے کا، میرے پاس وقت تھا، نہ ہمت، نہ اختیار، نہ منبر و چبوترہ۔

ٹرین فراٹے بھرتی رہی، واجد استغراق کی ندی میں کاندھوں تک ڈوبا میری بپتا سنتا رہا۔ اس کے صبیح چہرے پر بیزاری کی گھٹائیں آتی جاتی رہیں۔ جب سن چکا تو اس کے چہرے پر ایک خوش رنگ قوسِ قزح تن گئی، کہا تمہیں سنانے کے لئے بھری دنیا میں اس سے بہتر کوئی کہانی نہ مل سکی۔ تمہیں یقیناً اچھے ڈاکٹروں سے بھی تو پالا پڑا ہوگا لیکن حسبِ معمول تمہاری نگاہِ انتخاب ایک مردم بیزار منفی کردار پر ہی ٹھہری۔

میں آج تمہیں دو ڈاکٹروں کی کہانیاں سناؤں گا۔ ان میں ایک خاتون اور دوسرا مرد ڈاکٹر ہے۔ تاکہ تم مردوزن کی بحث میں نہ الجھ جاؤ۔ دوسرا ان میں ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم ہے کہ تم مذہبی بحث میں نہ پڑو۔ مزید براں، ایک کا تعلق دنیا کے مشرق اور دوسرے کا مغرب سے ہے کہ تم مشرق و مغرب کی بحث سے بھی آزاد ہو جاؤ۔ پھر ان میں سے ایک نے تعلیم پاکستان میں حاصل کر کے کام امریکہ میں کیا اور کمال کر دیا۔ یہ اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ تم تعلیمی نظام پر نقطہ چینی سے باز رہو۔

باصلاحیت واجد نے گفتگو کا پرندہ رہا کرنے سے پہلے میرے تمام ممکنہ اعتراضات کے دروازے بند کر دیئے۔ پھر یہ کہہ کر پہلی کہانی شروع کی، کہ تمہیں دورانِ گفتگو سوال کرنے کی بہت عادت ہے، کہانی سنتے ہوئے خاموش رہنا ہے، پوری توجہ سے سننا ہے اور اس دوران کوئی سوال نہیں کرنا۔ میں نے اتفاق کیا اور اس نے پہلی کہانی شروع کی۔

"وہ دو جڑواں بہنیں تھیں۔ ان کا والد پاکستانی اور والدہ جرمن تھیں۔ والد نے پچھلی عمر میں جرمنی کی سیر کرتے ہوئے اپنی ایک نہایت ذہین، حسین، سنجیدہ اور قیافہ شناس گائیڈ سے شادی کر لی۔ ان کا والد اتنا وجیہ تھا کہ جب اس کی ہونے والی بیوی بطور گائیڈ اسے جرمنی کی سیر کراتے ہوئے اپنے گاؤں لے گئی تو اس کی بوڑھی جہاندیدہ پڑوسن نے حیرت زدہ ہو کر کہا یہ تو بڑا خوبصورت جوان ہے، اتنا خوبصورت مرد ایک عرصے کے بعد دیکھا ہے۔

پھر جب وہ شادی کرکے اپنی بیوی کو لے کر پاکستان آئے تو ان کی معمر خالہ نے کہا، دیر سے شادی کی تو آسمان سے چاند توڑ کر لائے ہو۔ انہوں نے لاہور میں رہنا شروع کر دیا جہاں وہ پنجاب کے محکمہ انصاف میں جسٹس تھے۔ اس حسین سلیقہ شعار جرمن نے جب پاکستانیوں کا حسنِ سلوک دیکھا تو کہا، آپ لوگ کتنی خوبصورت دنیا کے رہنے والے ہیں۔ یہاں کتنی عجیب محبتیں ہیں، نہ کوئی رشتہ ہے، نہ کوئی واسطہ ہے، پھر بھی لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ دردِ دل رکھنے والے ہیں۔ ایک دوسرے کو سہارا دینے کے لئے ان کے پاس محبت ہے، وقت ہے۔ یہ کتنی بنی سنوری خوبصورت زندگی ہے۔

والدہ کی طرف سے بڑی دعاؤں اور مَنتوں کے بعد وہ پیدا ہوئیں اور بڑے ناز و نعم میں پلیں، بڑھیں اور پڑھیں۔ گھر میں ہر چیز کی ریل پیل تھی۔ کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ جب ان کی عمریں کوئی بارہ سال ہوئیں تو ان کی والدہ ماجدہ جگر کے کینسر کا شکار ہو کر انتقال کر گئیں اور بھری دنیا میں وہ اکیلی رہ گئیں۔ لیکن دونوں بہنوں نے تہیہ کیا کہ وہ ڈاکٹر بن کر کینسر سپیشلسٹ بنیں گی اور کینسر کے مریضوں کی مسیحائی کر کے ان کو اللہ کی مدد سے بے وقت موت کے منہ میں جانے سے روکنے کی سڑ توڑ کوشش کریں گی۔ انہیں جینے کا حوصلہ دیں گی کہ ان کی طرح کوئی اور بچہ ماں کی مامتا سے محروم نہ ہو۔

دونوں نے کوشش کا عمل پوری نیت سے شروع کیا اور تعلیم کے میدان میں ایک سے ایک مارکہ سر کرنے لگیں۔ لیکن ہوا یہ کہ بڑی ڈاکٹر نہ بن سکی۔ لیکن وہ میڈیا کے شعبے میں آگئی اور اپنے خاوند سے مل کر اوجِ کمال تک پہنچی۔ اس کا خاوند میرا دوست اور کمال آدمی تھا۔

چھوٹی ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوئی، ابتدائی طبی تعلیم اور مشق پاکستان سے حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ منتقل ہو گئی اور پھر کمال کینسر سپیشلسٹ بنی کہ کمال کا کنول ہمیشہ محرومیوں کی جھیل میں کھلتا ہے۔ جذبے صادق ہوں تو ضرور بار آور ہوتے ہیں۔ اس نے زندگیاں بچائیں اور دعائیں سمیٹیں۔ اللہ نے اُس کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی اور اسے کوشش کرنے کا سلیقہ عطا کیا تھا۔ اس کا مشاہدہ بہت عمیق تھا، وہ ماحول میں دوستانہ رس گھول دیتی تھی۔ ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی وہ ضرورت بن گئی۔ ایک موہوم سی مسکراہٹ ہر وقت اس کی چہرے پر سایہ فگن رہتی۔ وہ ایسا چہرہ تھا جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ اس میں ایک خاص شان و شوکت تھی۔ زندگی کو مسرور رکھنے کے لئے دولت کی نہیں جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کینسر کے کسی مایوس مریض کا ایک بار پھر زندگی کی طرف پلٹ آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔

آج کل اس کی بڑی بہن کا خاوند جو کہ ہارٹ پیشینٹ ہے اس کے پاس امریکہ آیا ہوا ہے۔ دونوں جب بھی مل بیٹھتے ہیں خوب باتیں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو خوب ہنساتے ہیں۔ وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ اٹھا اور لاؤنج سے باہر نکل گیا۔ کچن میں جا کے اس نے پانی کا ایک گلاس پیا۔ پھر اندر آیا تو دیکھا کہ وہ لاؤنج میں بیٹھی بڑے انہماک سے کچھ لکھ رہی تھی۔ قدموں کی آہٹ پا کر اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور قلم رکھ دیا۔ اس نے پوچھا کیا لکھ رہی ہیں۔

جاری۔۔

Check Also

Deobandi Ulema Ki Siasat

By Muhammad Aamir Hussaini