Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Khano (2)

Khano (2)

خانو (2)

سب کو باصلاحیت خانو کی یوں بلا وجہ درگت بنتے دیکھ کر اس پر بہت ترس آتا۔ کچھ رقیب خوش بھی ہوتے ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ بیٹھا اس کا پیارا دوست جہان خان آگے بڑھ کر اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہتا کہ تم فکر نہ کرو، میں میٹرک پاس کر کے کالی پگ سر پر باندھ کر خان محمد صاحب کے راستے میں بیٹھا کروں گا اور ان کے دل پر ایسے ہی مونگ دلا کروں گا جیسے یہ آپ کے دل پر دلتے ہیں۔

تم مایوس نہ ہو، لگے رہو، مجھے یقین ہے کہ تم میٹرک بھی اتنے ہی اچھے نمبروں سے پاس کرو گے، جیسے آٹھویں جماعت کی ہے۔ یوں خانو ایک دفعہ پھر تازہ دم ہو کر شاہراہِ تگ و دو کا مسافر ہو جاتا۔ چلتے چلتے میٹرک آٹھویں سے کہیں بڑھ کر اچھے نمبروں سے پاس کر گیا۔ ایک وقت آیا کہ ارتقایئی منازل طے کرتا ہوا وہ "خانو" سے "ملک احمد خان صابرؔ" ہو گیا اور باقاعدہ شاعری کرنے لگا۔

ہمارے ایک بہت اچھا ادبی مزاج رکھنے والے استاد، ملک صداقت حیات صاحب نے ہفتے میں بروز ہفتہ آخری پیریڈ بزم ادب کا متعارف کرا دیا، اور یوں خانو کو اپنے فن کے مظاہرے کا پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ سب خانو کے تازہ کلام کا ہفتہ بھر انتظار کرتے، ماسٹر ملک صداقت حیات صاحب سمیت۔ بقول امجد اسلام امجد صاحب۔

شاعری جس کی اثاثہ تھی جواں جذبوں کا

جس کی توصیف سبھی اہلِ ہنر کرتے تھے

لیکن کبھی کبھی خانو یہ بھی محسوس کرتا کہ دور کہیں اندر ہی اندر استاد جی اس کی شاعری کا کچھ مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ جب وہ نچلا ہونٹ پوری قوت سے اپنے اوپر والے دانتوں کی گرفت میں لے کر معنی خیز "آہا" کہہ کے بے آواز قہقہے لگاتے۔ حزیں لدھیانوی نے اس منظر کی کچھ یوں تصویر کھینچی ہے۔

مجھ پر ہجومِ عام میں پھینکے ہنسی کے پھول

اتنا حسیں مذاق مری بے بسی کے ساتھ

کچھ ہم جماعت تو خانو کے اس فنی برتری سے باقاعدہ حسد کرنے لگے کہ خانو ایسے خواہ مخواہ ہم سے آگے نکل گیا، اور استاد جی کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ شاید وہ ماسٹر صاحب کے بے آواز قہقہے سننے سے قاصر رہے، جو خانو کے زرخیز شاعرانہ تخیل نے بہت پہلے بھانپ لیے تھے۔ کہ صداقت صاحب کی واہ واہ محض داد و تحسین تک محدود نہیں بلکہ اس میں کچھ مخول کا رنگ بھی شامل ہے۔ جو خانو نے باقاعدہ بھانپ لیا تھا۔ حمایت علی شاعر نے اس منظر کی رنگ سازی کچھ یوں کی ہے۔

نہ جانے بادِ صبا کہہ گئی مذاق میں کیا

کہ ہنستے ہنستے شگوفوں کی آنکھ بھر آئی

اور یوں کچھ عرصہ بعد ملک احمد خان صابرؔ نے شاعری ترک کر دی۔ اور پھر۔

دشتِ صد برگ میں، مَیں خود سے رہا محوِ کلام

اپنے رنگوں سے تری راہ کو گلزار کیا

صداقت صاحب خود ایک بہت اچھے شاعر تھے اور زندگی بھر رہے۔ لوگوں کی نوکیلی خاردار باتیں سہتے اور برداشت کرتے رہے، لیکن اپنے شاگرد خانو کی طرح میدان نہیں چھوڑا۔

تیرے سپنوں کے سوا کچھ بھی نہ رکھا اُس نے

کتنے خوابوں سے سرابوں سے اُلجھ کر گزرا

وہ بہت خوش رہتے، گفتگو کے گرویدہ، بات کرنے اور نبھانے کے ہنر میں یکتا۔ ان کو کبھی رنجور نہ دیکھا، نہ ہی ناشاد و ناآسودہ۔

بقول امجد اسلام امجد۔

قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں

اپنی باتوں سے سبھی درد بھُلا دیتا تھا

اُس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکے غم کے

پھر بھی ہر بزم کو گلزار بنا دیتا تھا

اُس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے

وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خوشبو بن کر

اُس کا سینا تھا مگر پیار کا دریا کوئی

ہر دُکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا

کوئی پھل دار شجر ہو سرِ راہے جیسے

کسی بدلے کسی نسبت کا طلب گار نہ تھا

خانو نے میٹرک کے بہت بعد مجھے بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت تک ایک انتہائی ظالم شخص تھا اور آس پاس کے ہم عصر نوجوان اس سے خائف رہتے تھے۔ اسے جب بھی موقع ملتا انہیں خوب پھینٹی لگاتا تھا۔ میں اس سے کہتا کہ میں یہ نہیں مانتا، تم تو ایک انتہائی رحم دل اور انسان دوست آدمی ہو۔ لوگوں کی مدد کرنے والے ہو۔ تمہارے اندر میں نے بڑا صبر، برداشت اور بردباری دیکھی ہے۔

شاعر بھی رہ چکے ہو۔ شاعر کا دل تو بڑا گداز ہوتا ہے۔ ظالم کبھی شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ کہتا کہ نہیں یہ سب کچھ بہت بعد کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔ بنیادی طور پر میں ایک انتہائی ظالم اور سنگدل آدمی ہوں، میں کہتا اللہ تمہیں معاف کرے اگر تم ایسے تھے۔ وہ کہتا کہ میں بالکل ایسا ہی تھا اور پھر اپنی ان ظالمانہ مہمات کو مثالوں سے واضح کرتا۔

مثلاً بتاتا ہے کہ ایک دفعہ مجھ سے کوئی پرانا بدلہ چکانے کے لئے چار لڑکوں نے میرا راستہ روک لیا۔ میں اکیلا تھا، وہ چار تھے۔ خوف زدہ ہو جانا ایک فطری عمل تھا۔ اب میرے اندر ایک ساتھ دو اندیشوں نے جنم لیا۔ ایک تو یہ کہ مار بہت پڑے گی، دوسرا اور پہلے سے بھی کہیں بڑا اندیشہ یہ کہ آج میری بہادری کی تاریخ، جو میں نے سالوں کی محنت سے رقم کی، پر پانی پھرنے والا ہے۔

میں اکیلا ہوں اور یہ چار ہیں۔ شروع میں ان کو دیکھ کر میں باقاعدہ خوف زدہ ہو گیا۔ لیکن جب میں نے اپنی بہادری کی شاندار تاریخ پر طائرانہ نظر دوڑائی تو کہا کہ میں اپنی اس شاندار تاریخ پر کسی قیمت پر حرف نہیں ہونے دوں گا۔ پھر میں پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھا اور ان میں سے ایک جو مجھے سب سے زیادہ طرار اور شوخ و چنچل لگا، اسے میرؔ کی طرح راہ راست پر لانا اپنا فرضِ منصبی سمجھا۔

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر

اس شوخ کو راہ پر لانا ضروری تھا

میرؔ کے اس شاعرانہ تخیل پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسے گلمے (گریبان) سے پکڑ کر ایک ایسا زناٹے دار تھپڑ رسید کیا کہ وہ لڑکھڑاتا ہوا سڑک کے کنارے ایسا گرا کہ اس کے ناک اور کانوں سے خون جاری ہو گیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر باقی ماندہ تینوں تو آناً فاناً منظر سے غائب ہو گئے اور میں ایک دفعہ پھر خوف کا شکار ہو گیا کہ بہادری کی شاندار تاریخ کی حرمت تو محفوظ رہی، لیکن اب یہ موت و حیات کی کشمکش میں ہے۔

اب نہ جانے کیا ہو گا۔ خیر وہ جلد ہی سنبھل گیا، اٹھا اور گھر چلا گیا، کہانی پہلے ہی گھر پہنچ چکی تھی۔ اس کے والد ہماری دہلیز تک آئے، والدِ گرامی سے گلا کیا اور چلے گئے۔ مجھے کچھ ڈانٹ پڑی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ تو میں نے کہا خانو تم تو واقعی ستمگر ہو، تو اسے میرے الفاظ کچھ اچھے نہیں لگے۔ کہنے لگا تم مجھے بہادر بھی کہہ سکتے ہو۔ میں نے کہا ظالم کو بہادر کیسے کہوں؟

اس نے دلیل پیش کی، کیا تاریخ نے سکندرِاعظم، تیمور، ہلاکو، ہٹلر، نپولین اور بُش کو صرف اور صرف ظالم، سفاک یا خودسر لکھا؟ انہوں نے بھی تو لوگوں پر ظلم کیا۔ انہیں جان سے مارا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ دانوں کی اکثریت نے انہیں بہادر و جری عسکری رہنما مانا ہے۔ اس لئے کہ اس دور کے لکھنے والے مثبت، وسیع القلب، تجزیاتی سوچ رکھنے والے اور پڑھے لکھے لوگ تھے، تم جیسے منفی سوچ رکھنے والے اور نیم خواندہ نہیں تھے۔ تم جیسے لوگ دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔

اب تم کہو گے کبڈر، باکسر اور ریسلر بھی ظالم ہے۔ وہ بھی اپنے مخالف پر ہاتھ اٹھاتا ہے، مارتا ہے، گراتا ہے، خون بہاتا اور ناک آؤٹ کرتا ہے۔ تمہارے اور ہم سب کے پسندیدہ کھیل کرکٹ میں بھی تیز باؤلر باؤنسر مار کر کئی دفعہ بلے باز کو زخمی کرتا ہے۔ اس کے خون سے پچ سیراب ہوتی ہے۔ کیا تم لوگوں نے اپنے گاؤں کے کھلواڑے پر درختوں کی کٹی شاخوں سے بنی ہاکیوں۔

اور پگھلے پولیتھین بیگوں سے بنی سخت گیند سے ننگے پاؤں ہاکی کھیلتے ایک دوسرے کی ٹانگوں، گٹوں اور پاؤں کو ضربیں نہیں لگائیں۔ اب تم ان کھیلوں کو بھی ظلم کہو گے۔ اگر میں نے شاہراہِ مدرسہ پر چلتے بہادری کے باب میں کچھ اچھا کیا ہوا ہے تو اسے لکھتے ہوئے تمہاری سوچ کے پٹھوں میں کڑُل اور تمہارے قلم کی نِب میں چِب کیوں پڑتا ہے؟ اس لئے کہ تم تہذیب سے کوسوں دور ایک نیم خواندہ دیہاتی ہو۔

یہ بات یاد رکھو میرے دور میں اس عظیم شاہراہِ مدرسہ کی تمام بہادرانہ سرگرمیوں کا مرکز و محور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کا یہ دوست رہا ہے۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھو صرف مرکز و محور کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے۔ آپ میرے تعارف میں یہ بھی لکھا کریں کہ سچ کے علمبردار، محبت سے سرشار، اور حریت کے قافلوں کے سردار آپ ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے آپ کے قلم کے دانت دُکھتے ہیں یا اس کی زبان پر کوئی پھنسی نکلی ہوئی ہے۔

خانو کے یہ پُربہار اور پُرمغز دلائل سن کر میں نے عرض کیا، اب میں تمہیں سچ کے بھالے سے کیا رنجور کروں۔ تم میرے دوست ہو۔ تم ظالم ہونے کے باوجود مدح سرائی کے طالب ہو۔ مجھے ظلم کی پرورش کا فن نہیں آتا۔ میں کیکر کو پانی دے دے کر بڑا نہیں کر سکتا۔ کہ راہ چلتے مسافر کو کانٹے چبھیں۔ تم مجھ سے تکبر کی دنیا آباد کرانا چاہتے ہو۔ میں ظالم کو بہادر نہیں کہہ سکتا۔

نہ میرا قلم خزاں کو بہار لکھ سکتا ہے۔ ظالم کبھی پھلتا پھولتا نہیں، ظالم سرسبز نہیں ہوتا، ناشاد و ناآسودہ رہتا ہے۔ ظالم کی عمر کوتاہ ہوتی ہے، تم دیکھ لو یہ سب نوجوان مرے، لمبی عمر نہیں پائی۔ ویسے بھی میرے کہنے سے کوئی سوکھا درخت شجرِ سایہ دار نہیں بن سکتا۔ بقول شہزاد احمد۔

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو

میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

خانو کی شادی کچھ ایسے حالات میں انجام پائی کہ نہ صرف وہ ہمیں دعوت نہیں دے سکا بلکہ سرے سے ذکر ہی نہیں کر سکا۔ نہ شادی سے پہلے نہ بعد میں، ہم چونکہ حالات کو سمجھتے تھے تو اس موضوع پر کبھی گفتگو ہی نہیں کی، وقت گزرتا رہا خانو کے چار بچے ہوئے۔ جن میں اب ایک انجینئر اور تین ڈاکٹر ہیں۔ میں کبھی کبھی خانو کو کہتا ہوں کہ کاش آج ماسٹر خان محمد صاحب زندہ ہوتے۔

اور آپ بچوں سمیت ان سے ملنے جاتے تو نہ جانے ان کا ردِعمل کتنا دلچسپ ہوتا۔ غالب امکان ہے کہ وہ انتہائی خوش ہوتے کہ برسوں قبل ہمارے ہاتھوں کا لگایا اور طنز کے نشتروں سے تراشہ ایک ننھا سا پودا بڑھ کر ایک تناور درخت بنا اور خوب برگ و بار لایا۔ اگر خان محمد صاحب اپنے شاگرد خانو کا سا شاعرانہ تخیل پاتے تو اپنے شجر تمنا کی بار آوری کو راسخ عرفانی کی طرح کچھ یوں خوبصورت الفاظ سے نوازتے۔

ثمر کسی کا ہو شیریں، کہ زہر سے کڑوا

مجھے ہیں جاں سے پیارے سبھی شجر اپنے

محسن احسان کے الفاظ میں کہنا پڑتا تو یوں کہتے

پرانی محنتیں آؤ کہ بانٹ لیں دونوں

کچھ اس طرح کہ شجر تیرے اور ثمر میرے

پروین شاکر کا تخیل ان کا مقدر ہوتا تو یوں فرماتے

ٹوٹنا یوں تو مقدر ہے، مگر کچھ لمحے

پھول کی طرح میسر ہو شجر میں رہنا

خان محمد صاحب کی زندگی کی ڈوری پھول کی پتی کی طرح کٹ گئی۔ وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور انہیں اپنے سینچے شجر میں پھول کی طرح رہنا نصیب نہ ہوا۔ ان کا شجر انہیں آج بھی دل و جان سے یاد کرتا ہے۔ اور ان کے حصے کا سایہ آج بھی اس کے پاس محفوظ ہے۔ اس کا دستِ دعا ان کے لئے ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ آج تو اس کے نیچے اگے پودے بھی گھنے تناور درخت بن چکے ہیں۔ اللہ ان کی مرقد کو نُور سے بھر دے۔

Check Also

Mulazmat Pesha Khawateen Aur Mardana Chauvinism

By Najeeb ur Rehman