Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Khano (1)

Khano (1)

خانو (1)

نام کو انسانی زندگی میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ آپ کا نام آپ کی شخصیت پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آپ جس نام سے جانے جاتے ہیں وہ دوسروں پر آپ کے بارے میں ایک خاص تاثر چھوڑتا ہے۔ مشہور امریکی ماہر نفسیات جین وینج کی تحقیق بتاتی ہے کہ جن لوگوں کو مناسب نام نہ مل سکے انہیں نفسیاتی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ نام یہ طے کرتا ہے کہ لوگ ہم سے کیسا برتاؤ کریں گے۔

یونیورسٹی آف اریزونا کے ماہر نفسیات، ڈیوڈ ژو، جو ناموں کی نفسیات پر تحقیق کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ کا نام آپ کی شناخت کا سب سے اہم عنصر ہے۔ اسی کی مدد سے لوگ آپ سے بات چیت کرتے ہیں اور دوسروں کے ذہنوں میں آپ کی شبیہ بھی اسی کی وجہ سے بنتی ہے۔

کہتے ہیں کسی کے کانوں کے لئے سب سے مدُھر موسیقی اس کے نام کی آواز ہے۔ اب ہمارا کلچر کچھ ایسا ہے کہ ہم عناد اور عنایت دونوں جذبوں سے مغلوب ہو کر ناموں کی اصلی حالت بدل دیتے ہیں۔ ان میں ماں باپ، بہن بھائی، دوست احباب، اساتذہ سب شامل ہیں۔ یہی کچھ ہماری کلاس میں بھی ہوا کہ ہمارے سب سے پیارے استاد صداقت حیات صاحب کی چشمِ عنایت نے ہمارے دو پیارے دوستوں کے نام، یقیناً عنایت کے جذبے سے، مختصر نویسی کے اصول پر ایک تہائی کر دئیے۔

ایک احمد خان سے "خانو" اور دوسرا محمد اقبال سے "بالو" ہو گیا۔ دونوں یہ نئے نام یا عرف یا تخلص پا کر بظاہر خوش نظر آتے تھے اور پوری کلاس بھی کہ جب بھی استاد جی اپنی ٹھوڑی کی داڑھی کے بال بھینچ کر انہیں مونچھوں کے ساتھ ایک کرتے ہوئے پوری قوت سے "خانو" اور "بالو" کہتے تو پوری کلاس بہت محظوظ ہوتی۔ اب یہ اندر سے کیسا محسوس کرتے تھے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہوا، نہ ہی کسی نے ان کے دل کا حال جاننے کی کوشش کی۔ بظاہر یہ دونوں خوش ہی نظر آتے تھے۔ کہ محترم استاد گرامی کی چشمِ عنایت سے کچھ بھی عنایت ہو، اعزاز کی بات سمجھی جاتی۔ بقول میرؔ:

دیکھیئے کس کو شہادت سے سرفراز کریں

راگ تو سب کو ہے اُس شوخ کی تلوار کے ساتھ

احمد خان عرف "خانو" عرفِ عام میں ہم اسے "امتھان" کہتے ہیں، یہ مقامی بولی میں احمد خان کا اختصار ہے۔ جیسے گورا "اے کپ آف ٹی" کو مختصر کرتے کرتے "کپا" تک لے گیا۔ خانو ہمارا ایک بہت ہی پیارا اور ہنس مکھ دوست ہے۔ ایسا ہنس مکھ کہ نرگسیت کے اس دور میں بھی اپنی ذات کو ہدف بنا کے ہمیں ہنساتا ہے۔ مثلاً چند سال پہلے اس کا کویت کے لیے ایک جاب انٹرویو ہوا تو انٹرویو لینے والے کویتی عرب شیخ نے شناختی دستاویزات دیکھنےاور سامنے موجود خانو کی بدن بولی کا مشاہدہ کرنے اور دل ہی دل میں اس کی عمر کا حساب کرنے کے بعد سوال داغ دیا کہ خان آپ کی اصل عمر کتنی ہے۔ یہ بات خانو نے ہمیں خود بتائی اور خوب ہنسایا۔ ہم نے کہا کہ شیخ جی کا کہا تو درست ہی ماننا پڑے گا کہ آپ نے ہمیں خود ہی بتا رکھا ہے کہ جب آپ پانچ سال عمر لکھوا کر سکول میں داخل ہوئے اور اپنے تعلیمی کیریر کا باقاعدہ آغاز کیا تو اس وقت آپ کا چھوٹا بھائی پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔

ماقبل، اپنے والدِ گرامی کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانا، کُتے اور پجارو کی سرپرستی کرنا، بھیڑ بکریاں اور گائے بیلوں کے چارے اور آرام کا خیال رکھنا خانو کی اہم ذمہ داریوں میں سے تھا۔ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پوری تندہی سے سر انجام دیتا اور اس سے لطف اندور بھی ہوتا یا پھر اس مشکل اور محنت طلب کام کو وقتی طور پر آسان بنانے کے لئے اس میں تفریح کے کچھ لوازمات بھی پیدا کر لیتا۔ یوں کام کا بوجھ اور بوجھل پن کم ہو جاتا۔ لیکن اپنے ہم عمر اور اپنے سے چھوٹے بچوں کو بستے بغل میں دبائے اور تختیاں ہاتھ میں پکڑے سکول جاتے کہیں دور سے نگاہِ حسرت سے دیکھتا بھی رہتا۔ کبھی کبھار اپنے چھوٹے بھائی کی تختی دھو کر اور اس کا قاعدہ پڑھ کر اپنی اس پوشیدہ حسرت کو سہارا دیتا اور ایسے ہی کسی بابرکت لمحے یہ فیصلہ بھی کیا کہ میں نے ان سارے کاموں کے ساتھ ساتھ سکول جا کے تعلیم بھی حاصل کرنی ہے۔ بقول میرؔ:

دُوری سے کروں نالہ و فریاد کہاں تک

اِک بار تو اُس شوخ سے یا رب ہو ملاقات

پھر وہ دن آ ہی گیا جب خانو بڑے غرور سے سر اونچا کئے اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ سکول پہنچ گیا۔ کچھ ابتدائی مشکلات کے بعد خانو کو سکول میں داخلہ مل گیا۔ سکول جانے سے پہلے اور واپس آنے کے بعد ماں باپ کی کھیتی باڑی اور دوسرے ضروری کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتا رہا۔ مثلاً سکول جانے سے پہلے صبح سویرے بیدار ہو جاتا۔ اپنے والد کو ہل جوتنے میں مدد کرتا۔ ماں کو پڑوس سے خوشبودار دھواں چھوڑتی گوہے کی تھاپی پر آگ کا دہکتا انگارا لا کے دیتا۔ تاکہ اماں آگ جلا کے سکول جانے سے پہلے ان کا ناشتہ تیار کر سکیں۔

واپس آتا تو تختی بستہ رکھتا، گڑ کی روڑی اور ایک روٹی لیتا اور شوارمے کی طرح راہ چلتے کھاتا سیدھا والد کے پیچھے کھیتوں میں پہنچ جاتا۔ جہاں وہ جانور چرانے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کچھ ضروری کام کر رہے ہوتے۔ جیسے کچھ غیر ضروری جڑی بوٹیوں کو جڑ سے اکھاڑنا، کھیتوں میں ہل چلانے کے بعد بننے والے ڈھیلوں کو توڑنا کہ کھیت فصل بیجنے سے پہلے نہ صرف بالکل ہموار ہو جائے بلکہ وتر بھی محفوظ رکھ سکے، آس پاس کے دوسرے زمینداروں کے ساتھ اونچی آواز میں تبادلہ خیال کرنا۔ فصلیں اجاڑتے آس پاس کے ریوڑ بانوں کو اونچی کُوک مار کر اجاڑے سے باز رکھنا۔ اب خانو یہ سارے کام سنبھال لیتا۔ جڑی بوٹیاں نکالتا، ڈھیلے توڑتا، لوگوں سے ڈائیلاگ کرتا، ضروری کُوکیں مارتا، جانوروں کو گھاس چراتا، لانگی (بیری کے درخت کی شاخیں) کاٹ کر بکریوں کو کھلاتا۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ وقت نکال کر آس پاس کام کرنے والے دوستوں سے کچھ کھیل بھی کھیل لیتا۔

وہ شام کو اس وقت گھر لوٹتا جب سورج دور افق میں تقریباً آدھا پیوست ہو چکا ہوتا۔ درختوں پر چڑیوں نے چیخم چیخ مچا رکھی ہوتی۔ خانو ایک لمبی مضبوط ڈانگ کندھے پر رکھے اور نیچے سے اسے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لئے، اڑتی دُھول سے بے نیاز جانوروں کو ہانکتا گھر لوٹ آتا۔ پجارو بھی کچھ چارے یا بالن کا بوجھ اٹھائے جانورں کے پیچھے اور خانو کے آگے سبک خرام ہوتی۔ اس کا بھدا بدرنگ کتا بھی ساتھ ہوتا۔ جو اپنے آس پاس کی ہر چیز کو سونگھنا اپنا فرض منصبی سمجھتا تھا۔ حتٰی کہ راہ چلتے مسافر کے کتراتے اور "ہٹ ونج" (دور ہو جا) کہنے کے باوجود اس کی شلوار کا پائنچہ بھی سونگھ لیتا۔

اب گھر پہنچ کر خانو پھرتی کے ساتھ جانوروں کو اپنی اپنی کھرلیوں پر زمین میں گڑے لکڑی کے مضبوط کلوں کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیتا اور پھر جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر ماں کے ہاتھ کا بنا تازہ اور گرما گرم کھانا کھاتا، اس سے پہلے کہ سورج اپنی سنہری اور سرخ عبا لپیٹ لے اور گھپ اندھیرا چھا جائے۔ دور مغرب کے سرمئی افق پر کاجل ایسے سائے چھا جائیں اور ماحول کا خول توڑ کر سبک رفتار سانپ اور بچھو صحن میں چہل قدمی کرنے لگیں۔

کھانے کے بعد شام یکا یک سیاہ ہو جاتی، بالکل ایسے جیسے سورج نے ایک جھٹکے کے ساتھ اجالے کو سمیٹ لیا ہو۔ اب ایک پوسٹ ڈنر محفل جمتی جس میں پڑوس میں رہتے گفتگو کے گرویدہ چچا، ماموں اور ان کے خاندان کے افراد شریک ہوتے۔ حالات حاضرہ پر کوئی گھنٹہ بھر بےلاگ تبصرے ہوتے۔ کچھ ہنسنے ہنسانے کا سامان ہوتا، قہقہے چابک کی طرح سڑاپ سڑاپ برستے۔ ہنسی اور مسکراہٹوں کا نزول ایسے ہوتا جیسے رنگ برنگ بنٹے پیتل کی پرات میں گر رہے ہوں اور یوں سونے سے پہلے دن بھر کی تھکاوٹ کا قلع قمع ہو جاتا۔ اب مکمل سکوت چھا جاتا۔ راستے سنسان ہو جاتے۔ کبھی کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی۔ یا سردی سے ٹھٹھرتا کوئی کتا یونہی رواداری میں دور کالے آسماں پر تنہا ٹہلتے چودھویں کے چاند کی طرف منہ اٹھا کر بھونک دیتا۔

یونہی چلتے چلتے خانو نویں جماعت میں پہنچ گیا جہاں اس سے میری پہلی ملاقات ہوئی کہ آس پاس کے تمام دیہاتوں کے لئے ایک ہی ہائی سکول تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے دیہات سے پانچویں یا آٹھویں جماعت تک پڑھ کر ہائی سکول پہنچتا تھا۔ خانو آٹھویں جماعت میں بورڈ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر کے سر اونچا کیے پورے غرور کے ساتھ نویں جماعت میں پہنچا تھا۔ لیکن ہمارے ایک بہت ہی پیارے استاد محترم خان محمد صاحب نہ جانے کیوں اب بھی خانو کی تعلیمی قابلیت کو مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے اور اکثر بھری جماعت میں سب کے سامنے خانو سے کہتے کہ میں دیکھوں گا تم میٹرک کیسے پاس کرتے ہو۔ تمہاری ڈھوک سے آج تک کسی نے میٹرک نہیں کیا۔ تم کیسے کر سکتے ہو۔ ہزار ضبط کیا پھر بھی آنکھ بھر آئی، کے مصداق خانو کا سارا خون کھنچ کر اس کے چہرے میں سمٹ آتا اور وہاں مایوسی کے گہرے بادل چھا جاتے۔ ماتھا پسینے کے قطروں سے اٹ جاتا اور آنکھوں میں تپتی دوپہر شبنم اتر آتی۔ لیکن خانو اس پر صبر کرتا اور دل ہی دل ہی تہیہ کرتا کہ استاد جی جیسے میں نے آٹھویں جماعت پاس کی، اس سے اچھی دسویں پاس کروں گا۔ آپ انتظار فرمایئے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

اس طعن و تشنیع کی ایک مبینہ وجہ نئی نئی اڑان بھرتی ٹیوشن انڈسٹری بھی ہو سکتی ہے جس کا خان محمد صاحب ایک اہم حصہ تھے اور خانو اس کا حصہ نہیں تھا کہ پڑھائی کے علاوہ بھی اس کے ناتواں کندھوں پر بہت ذمہ داریاں تھیں۔ دوسرا یہ خان محمد صاحب کا انتہائے خلوص بھی ہو سکتا ہے کہ خانو آٹھویں کی بڑی کامیابی کے نشے میں کسی خیالِ قدِ بالا کا شکار نہ ہو جائے۔ اگر اسے طنز کا تازیانہِ ہمت پڑتا رہے گا تو تندہی سے جدوجہد کرتا رہے گا۔ جانثار اختر نے خان محمد صاحب کے تازیانہ ہمت کو کیا خوش رنگ پوشاک عطا کی:

اور تو مجھ کو ملا کیا میری محنت کا صلہ

چند سکے ہیں میرے ہاتھ میں چھالوں کی طرح

اور اب کچھ "سیلف میڈ لوگوں کا المیہ" امجد اسلام امجد کے الفاظ میں:

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے

زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو

راہ سے ہٹانے میں

ایک ایک تنکے سے، آشیاں بنانے میں

خوشبوئیں پکڑنے میں، گُلستاں سجانے میں

عمر کاٹ دیتے ہیں

عمر کاٹ دیتے ہیں

اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں

کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں

درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں

صبر کے سمندر میں کشتیاں جلاتے ہیں

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا!

کچھ صلہ نہیں ملتا

مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا

زندگی کے دامن میں جس قدر بھی خوشیاں ہیں

سب ہی ہاتھ آتی ہیں

سب ہی مل بھی جاتی ہیں

وقت پر نہیں ملتیں۔۔ وقت پر نہیں آتیں

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے

لیکن اس طرح جیسے

قرض کی کوئی رقم قسط قسط ہو جائے

اصل جو عبارت ہو "پسِ نوشت" ہو جائے

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں

ان کے صحن میں سُورج دیر سے نکلتے ہیں

(جاری)

Check Also

Maryam Nawaz Ka Daura e China

By Rehmat Aziz Khan