Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Jazeera Numa Qatar

Jazeera Numa Qatar

جزیرہ نما قطر (1)

قطر سعودی عرب کے جنوب مشرق میں سعودی عرب کی طرح ایک جزیرہ نما چھوٹا لیکن انتہائی خوشحال ملک ہے۔ خشکی کے ذریعے اس کے ساتھ لگنے والا یہ واحد ہمسایہ ملک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ سمندر کے ذریعے جڑے پڑوسیوں میں ایران، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں۔ اس کی کرنسی ریال ہے۔ یہ ایک اعلی آمدنی والی معیشت ہے جسے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخائر اور تیل کے ذخائر کی حمایت حاصل ہے۔ قطر مائع قدرتی گیس کا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔

عثمانی حکومت کے بعد قطر بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر 1971 میں آزادی حاصل کرنے تک برطانوی محافظت میں رہا۔ محمد بن الثانی کے انگریزوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کے بعد قطر کی علیحدہ حیثیت تسلیم کی گئی۔ اس وقت سے قطر پر الثانی خاندان کی حکومت ہے۔ موجودہ امیر تمیم بن حمد الثانی ہیں جو قطر کے آئین کے تحت تقریبا تمام انتظامی اور قانون ساز اتھارٹی کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔

کوئی بھی شخص جو قطری نژاد ہونے کا دعوٰی کرسکتا ہے وہ بعض شرائط کے ساتھ قطر کا شہری ہونے کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔ قطری باپ سے پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص چاہے اس کی پیدائش کی جگہ کچھ بھی ہو وہ نسب کے لحاظ سے قطری شہری ہوتا ہے۔ لیکن قطری ماں سے کسی غیر ملکی سے شادی کے بعد ہونے والی اولاد کو نسب کے لحاظ سے شہریت نہیں دی جائے گی۔

عربی قطر کی سرکاری زبان ہے اور زیادہ تر قطری خلیجی عربی کی ایک بولی بولتے ہیں جو آس پاس کی ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔ جدید معیاری عربی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ انگریزی عام طور پر ایک مشترکہ زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ بڑی تارکین وطن آبادی میں اردو کے علاوہ دوسری جنوبی ایشیائی اور کچھ یورپی زبانیں بھی بولی جاتی ہے۔

قطر سفر اور قیام کے لئےایک نہایت ہی محفوظ ملک ہے۔ اس میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس میں پرتشدد جرائم بھی شامل ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی باشندہ یہاں اپنے آپ کو بالکل محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ یہاں کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ یہاں بسنے والے اس ملک کے طول و عرض میں دن رات بلا خوف و خطر سفر کر سکتے ہیں۔ ملک کی تمام سڑکیں وسیع و عریض اور روشن ہیں۔ پورے ملک میں کوئی بھی سڑک ایسی نہیں جس کے کناروں پر بتیوں والے کھمبے نہ لگے ہوں۔ غروب آفتاب کے ساتھ ہی یہ جگمگا اٹھتی ہیں۔

یہاں لوگوں میں ایک بنی سنوری خوبصورت زندگی جینے کا شعور ہے۔ سب چیزیں یہاں کے اعلٰی ذوق کا پتہ دیتی ہیں۔ قطر رہن سہن کے حساب سے دنیا کا ایک انتہائی خوبصورت خطہ ہے۔ یہاں بڑی عجیب محبتیں بکھری پڑی ہیں۔ نہ کوئی رشتہ ہے نہ کوئی واسطہ ہے پھر بھی لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے پاس درد دل ہے۔ ایک دوسرے کو سہارا دینے کے لئے محبت ہے۔ ہر طرف محبت کا سماں نظر آتا ہے۔ یہ صحرائی ویرانے کے اندر ایک گلستاں ہے۔ ہر گھر، ہر گاڑی چم چم کرتی نظر آتی ہے۔ کسی گھر کا رنگ پھیکا ہے نہ کسی گاڑی پر خراش ہے۔ ہر چیز جگمگ کرتی نظر آتی ہے۔

جنم جنم کے بھاگتے اور تھکے ماندوں کے لئے قطر ایک گھنا سایہ ہے۔ سایہ ملتے ہی وہ گہری نیند سو جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے پاس وقت بہت ہے۔ یہ اپنا وقت دوسروں کی بھلائی کے لئے فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں۔ لوگ ساری زندگی اپنے لئے ہی جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن یہاں دوسروں کے لئے کچھ کرنے کی وافر سوچ موجود ہے۔ یہ خوبصورت روایات کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے آپ پر بوجھ ڈال لیتے ہیں اور اسے زندگی کا تسلسل سمجھتے ہیں، بوجھ نہیں کہتے۔

قطر میں صحرا کی آب و ہوا پائی جاتی ہے۔ ملک مئی سے ستمبر تک طویل گرمیوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس گرمی میں شدید اور خشک گرمی کی تمام ترخصوصیات پائی جاتی ہے۔ سخت قسم کی حرارت، حدت اور حبس پایا جاتا ہے۔ یہاں کی گھُٹن، گھُٹاؤ اور گھڑمس ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ قطر کی گرمی کو سہنا انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے۔ پھول تو کیا اس گرمی کو کانٹے بھی نہیں سہہ سکتے۔ بقول انور زیدی

کانٹوں سے دل لگاؤ کہ تاعمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا کہ سانس کی گرمی نہ سہہ سکیں

اس دوران درجہ حرارت پینتالیس ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے۔ موسم سرما کا درجہ حرارت ہلکا ہوتا ہے لیکن 5 سینٹی گریڈ سے نیچے بھی آسکتا ہے۔ قطر میں سمندر جنوری سے مارچ تک تھوڑا ٹھنڈا ہوتا ہے، خاص طور پر فروری میں، جب یہ سب سے کم درجہ حرارت تک پہنچتا ہے، تقریبا 20 سینٹی گریڈ۔ جبکہ دسمبر میں یہ ابھی کافی گرم ہوتا ہے، اس وقت یہ تقریبا 24 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔

اس کا علاقہ بنجر صحرا، ٹیلوں اور خلیج فارس کے طویل ساحلوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دارالحکومت اس کا ساحلی شہر دوحہ ہے، جو اپنی فلک بوس عمارتوں اور قدیم اسلامی تعمیراتی نمونوں سے متاثر دیگر انتہائی جدید فن تعمیر کے لئے جانا جاتا ہے۔ جیسے کہ چونا پتھر سے بنا میوزیم آف اسلامک آرٹ۔

یہ میوزیم شہر کے کارنیشے واٹر فرنٹ پر بنا ہوا ہے اور انتہائی دیدہ زیب ہے۔ اس کے آس پاس ایک وسیع و عریض اور سبزوشاداب پارک ہے۔ جس میں بڑے بڑے درخت اور چھوٹے چھوٹے دیدہ زیب پودے ہیں۔ یہ میوزیم سمندر کے پانی کے اندر کھڑا ہے اور سمندری پانی پر بنے دو پلوں کے ذریعے دیکھنے والے اس کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ قدرت کے ایک شاہکار سمندر کے اندر یہ ایک انسانی شاہکار ہے۔ جو بلند و بالا سینہ تانے کھڑا ہے۔ اتنے سالوں پانی کے اندر کھڑا ہونے کے باوجود بالکل خشک ہے۔ اس کا جسم ذرہ سا بھی گیلا نہیں ہوا۔

اس کے اندر ایک تعلیمی حصہ بھی ہے۔ جس میں ایک بہت بڑی سمندر میں جھانکتی لائبریری بھی ہے۔ آپ وہاں بیٹھ کر پڑھیں تو سامنے سمندر پھیلا ہے۔ کشتیاں چلتی نظر آتی ہیں۔ منظر بہت ہی صبیح و شکیل ہے۔ کبھی کبھی یہاں انٹرنیشنل کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ لائبریری کے باہر ایک کھلا احاطہ ہے جس میں چھوٹے چھٹے گڑھے بنے ہوئے ہیں جو پانی سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ پانی ایک سے دوسرے گڑھے میں چلتا اپنی گڑگڑاہٹ سے کسی شریر جنگلی چشمے کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ بہت ہوا دار مقام ہے۔ سمندر کو مَس کرتی جگہ ہے، تو ہوا اور بھی تازہ اور ٹھنڈی ہے۔

اس سے تھوڑا آگے جائیں تو ایک بڑا برآمدہ ہے۔ جس میں سستانے کے لئے بینچ لگا دئے گئے ہیں۔ جب سیر کرنے والے اس وسیع و عریض میوزیم میں چل چل کر تھک جاتے ہیں تو یہاں آجاتے ہیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اور تازہ دم ہو کر پھر چل پڑتے ہیں۔ اس کے اندر ہی ایک نہایت خوبصورت اور صاف ستھری مسجد ہے۔ جس کے غسل خانے اور وضو خانے نہایت صاف ستھرے ہیں۔

صاف ستھرے اور چاک و چوبند صفائی کرنے والے ہر وقت مستعد کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو ہر استعمال کے بعد صاف کر دیتے ہیں۔ مسجد کا ہال جس کے فرش پر ایک خوبصورت دبیز قالین بجھا ہوا ہے، ہر نماز کے بعد خلائی گرد کش سے صاف کیا جاتا ہے۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا ہوتی ہے۔ ایک ہی نماز خواہ کتنی ہی بار پڑھی جائے باجماعت ہی پڑھی جاتی ہے۔ یہی حال قطر کی تمام مسجدوں کا ہے۔ نماز جب بھی پڑھی جائے گی باجماعت ہی پڑھی جائے گی۔

Check Also

Safar Lamba Hai, Faqat Richard Grenell Par Khush Na Hon

By Nusrat Javed