Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Buddu

Buddu

بدُو

محمد خان عرف بدُو اپنے دیہات کے سکول میں داخل ہوا تو اس کی عمر عزیز کوئی پندرہ سال ہو گی۔ لیکن پانچ سال لکھوا کر سکول کی جماعت اوّل میں داخل ہو گیا۔ وہ مگن رہا اور خوب محنت سے پڑھتا رہا۔ تختیاں خوب دھو دھو کر لکھتا اور کالی سلیٹ پر سفید سلیٹی کا بھی خوب استعمال کرتا۔ تفریح کے وقت بدو سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتا۔ اپنی بڑی عمر کا خوب فائدہ اٹھاتا اور اپنے سے چھوٹے سب بچوں کی خوب خبر لیتا۔ لیکن دل کا انتہائی مہربان اور خدا ترس انسان تھا۔ اس کی حس مزاح بہت اعلیٰ تھی۔ مسکراہٹیں بکھیرتا اور قہقہے اڑاتا۔

آج پھر دب گئیں درد کی سسکیاں

آج پھر گونجتا قہقہہ رہ گیا

بدو ایک سادہ مزاج دیہاتی لڑکا ہے اور یہ اپنے دیہاتی ہونے پر، نہ صرف یہ کہ شرمسار نہیں ہے بلکہ اپنے پینڈو ہونے پر باقاعدہ فخر کرتا ہے۔ اس نے دیہاتی ماحول میں وہ وسعت، وہ گہرائی اور وہ اپنا پن دیکھا، جس کا شہر میں، ایک ننھے فلیٹ کا تو کیا، کسی وسیع و عریض محل کا باسی بھی تصور نہیں کر سکتا۔ خوبصورت دیہاتی ماحول بدو کی زندگی کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ یہ وہ دن ہیں جب بدو پہلی جماعت میں پڑھتا تھا۔

سارا دن مصروف گزرتا۔ انتہائی محنتی اساتذہ کرام سارا دن طلبہ کو لکھائی پڑھائی میں مصروف رکھتے۔ بدو کا سکول ایک مکمل دیہاتی ماحول کا عکاس ہے۔ یہاں ہر طرف ہرے سرسبز و شاداب درخت، چہچہاتے پرندے، اٹھکھیلیاں کرتے جانور، کھلے اور وسیع کھیت ہیں۔ جہاں انسان کام کرتے، جانور چرتے اور پرندے چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک گورنمنٹ پرائمری سکول ہے۔ جو دو کمروں، ایک برآمدے اور ایک کھلے وسیع میدان پر مشتمل ہے اور چاروں اطراف سے گھنے، لمبے اور ہرے بھرے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔

یہاں پاس ہی ایک راہٹ بھی ہے۔ جسے کبھی انسان تو کبھی جانور چلاتے ہیں اور گہرے کنویں سے پانی نکالتے ہیں۔ پانی کنویں سے باہر آنے کا منظر بڑا قابل دید ہے۔ قدرتی ریشے کا ایک لمبا مضبوط رسا، جس کے ساتھ مٹی کے لوٹے بندھے ہیں، ایک بڑے لکڑی کے بنے پہیے پر چلتا ہے۔ مٹی کے یہ لوٹے اپنا منہ نیچے کیے کنویں کے اندر اترتے ہیں، پانی میں ڈبکی لگاتے ہیں اور واپسی پر منہ اوپر کیے پانی سے لبا لب بھر کر گیلے جسم کے ساتھ باہر آتے ہیں۔

جب دوبارہ پہیے کے اوپر آتے ہیں تو اپنے اندر بھرا ہوا پانی پہیے کے نیچے لگے ایک بڑے پرنالے میں گرا دیتے ہیں اور یہاں سے پانی ایک لمبوترے نالے کے اندر وادی میں گھومتے کسی شریر چشمے کی طرح ایک بڑے حوض میں جا گرتا ہے۔ آس پاس سادہ اور ہنستی مسکراتی دیہاتی زندگی ہے۔ چالاکی نام کو نہیں بس سادگی ہی سادگی ہے۔ شروع کے سالوں میں اساتذہ کو طلبہ پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ سب اپنی دھن میں جم کے کام کرتے ہیں۔ کوئی فکر نہیں ہوتی، خوب یکسوئی کے دن ہوتے ہیں۔

ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے آگے بڑھنے اور مقابلے کی فضا سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بدو پڑھائی میں انتہائی نکما ہونے کے باوجود زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ پڑھائی میں اچھا نہیں تھا تو کیا ہوا، جسمانی طور پر انتہائی مضبوط اور چاک و چوبند تھا۔ اسے جہاں بھی موقع ملا اس نے اپنی جسمانی طاقت کا خوب کھل کر مظاہرہ کیا۔

وہ سکول کے سب سے بھاری بھر کم طلبہ کو بھی اپنے کندھوں پر اٹھا کر دوڑتا رہتا اور باقاعدہ بلند و بانگ دعویٰ کرتا کہ مجھ سے طاقتور کوئی نہیں اور کوئی تھا بھی نہیں۔ بدو کو ہرانا سکول میں کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ سب پر اپنی برتری ثابت کر کے خوب لطف اندوز ہوتا۔ جس کی چاہتا خوب سرزنش کرتا۔ اس کے سامنے کسی کو پر مارنے کی ہمت نہیں تھی۔ سب اس سے خوف زدہ رہتے اور اس کے دوست بن کر رہنے میں عافیت سمجھتے۔

سکول میں کئی اور دلچسپ کردار بھی تھے جو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ ایک جہان خان تھا جو اگرچہ تھا تو ابھی چھوٹا بچہ لیکن اس کا انداز گفتگو بڑے بزرگوں کا سا تھا۔ مثلاً وہ اپنے سے ذرہ چھوٹے چچا زاد بھائی شوکت کی چھٹی کے لئے استاد جی سے درخواست کچھ اس انداز میں کرتا "استاد جی شوکت نی ڈھڈاں ڈاڈھی پیڑ اے، تسی کدے چھٹی دیو چا تاں تسڈی وڈی مہربانی" (استاد معظم! شوکت کے پیٹ میں سخت درد ہے اگر آپ آج اسے سکول سے چھٹی دے دیں تو آپ کی نوازش ہو گی)۔

یہ سن کر استاد جی سمیت پورے سکول سے قہقہوں کا دریا بہنے لگتا اور اسے اپنے چچا زاد بھائی سے اس لازوال محبت کی داد دیتا اور مذاق بھی اڑاتا لیکن جہان خان اس کا ذرہ بھی اثر نہ لیتا اور اپنی دھن میں مگن رہتا۔ دراصل سب کو اس کی سادہ دلی سے پیار تھا۔ سچ یہ ہے کہ جو مٹا مٹا سا ہو اسے مٹانے کو دل نہیں کرتا۔ شوکت خود ایک مٹا مٹا، سادہ اور دلچسپ کردار تھا۔

سکول کے قواعد کے مطابق جب بھی کسی طالب علم کو رفع حاجت، جو کہ سکول کے ساتھ جنگل میں کی جاتی، کہ اس زمانے میں لیٹرین جیسی خرافات، کم از کم دنیا کے اس حصے میں ابھی متعارف نہیں ہوئی تھی، پہلے استاد سے اجازت لینا ضروری تھی۔ عام طور پر بچے انگلی کے مخصوص اشارے سے اجازت لیتے تھے۔ لیکن شوکت کا انداز انتہائی دلچسپ تھا، نہ تو وہ انگلی کا اشارہ کرتا اور نہ ہی استاد جی سے اجازت لیتا بلکہ اپنے پیارے چچا زاد بھائی جہان خان سے اپنی مخصوص مقامی بولی میں بہ آواز بلند کہتا "لالا ہگا آیا" (بھائی جان! مجھے پیشاب آیا ہے)۔ بالکل ایسے جیسے گھر میں چھوٹے بچے اپنی ماں کو بتاتے ہیں۔

یہ معصوم صدا سن کر سارے سکول سے قہقہوں کا شور یوں بلند ہوتا جیسے کسی پہاڑ سے اترتا چشمہ جھاڑیوں سے دامن بچاتا سنگریزوں کے سینوں کو روندتا ہوا گزرتا ہے اور جہان خان اور شوکت کی سادہ دلی سے خوب لطف اندوز ہوتا۔ سادہ زمانے کی سادہ زندگی، سادہ باتیں اور سادہ دل لوگ۔ کوئی چالاکی نام کی چیز نہیں تھی۔ احترام بہت تھا کہ فیض اس کے لئے ہے جس کے پاس احترام ہے۔ بس زندگی انتہائی احترام اور سادگی سے کسی جھرنے کی طرح بہتی تھی۔

عاشق صاحب ایک دین دار، سادہ دل اور سادہ اطوار استاد تھے، امیر خان صاحب انتہائی محنتی، پر تھوڑے سخت گیر و سخت جان اتالیق تھے۔ محنت سے پڑھاتے اور اچھے نتائج کی توقع رکھتے۔ نتیجہ اچھا نہ ہونے کی صورت میں خوب گھن گرج ہوتی اور پورا سکول سناٹے میں آ جاتا۔ استاد معظم عاشق صاحب سمیت سکول کی زندگی میں وہ مار پٹائی کا زمانہ تھا۔ "مار نہیں پیار" کے سنہری دور کا نزول بہت بعد میں ہوا۔

اس زمانے میں تو سکول کے میدان میں کثرت سے لگے سایہ دار درختوں کی تازہ ہری شاخوں کے ڈنڈے خوب استعمال ہوتے اور باقاعدہ جسم میں اتر جاتے اور خون کی رواں دواں ندی کو پاٹ کر نیلے نشان چھوڑ جاتے۔ یہ پاٹ عصائے موسیٰ کی ضرب سے سمندر میں پڑنے والے اُس شگاف کے بر خلاف بنی اسرائیل کو راستہ دے کر دوبارہ فوراً مل کر لشکرِ فرعون کو غرقاب نہیں کرتا تھا بلکہ اسے بھی بڑے سکون سے گزرنے کا موقع دیتا کہ کئی دنوں تک برقرار رہتا اور یوں درد کی ٹیسیں کئی دنوں تک اپنا لطف تروتازہ رکھتی تھیں۔

تفریح کا وقت بھی خوب ہوتا۔ بہت اچھل کود اور دوڑ بھاگ ہوتی۔ مختلف قسم کے دیسی کھیل کھیلے جاتے جن کا سارا ساز و سامان مقامی ہوتا۔ کہیں سے خریدنے کی نوبت نہیں آتی تھی کہ نہ تو پیسے ہوتے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ مقصد کچھ لمحوں کو خوشگوار رنگ دے کر لطف اندوز ہونا ہوتا تھا۔ کسی برانڈ سے کسی کو متاثر کرنا یا اپنی برتری ثابت کرنا نہیں ہوتا تھا۔

ویسے بھی اس وقت تک کھیل ابھی پیشہ نہیں بنا تھا کہ اچھے سے اچھا ساز و سامان استعمال کر کے ہر صورت جیتا جائے۔ سپورٹس مین سپرٹ بہت تھی۔ کھیل کے جو بھی قوانین طے ہوتے ان کی پابندی دل و جان سے کی جاتی۔ اپنی غلطی خود تسلیم کرنے اور امپائر کی انگلی کے اشارے یا سیٹی کی آواز کا انتظار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔

Check Also

Deobandi Ulema Ki Siasat

By Muhammad Aamir Hussaini