1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Masood/
  4. Aye Watan (2)

Aye Watan (2)

اے وطن (2)

آپ شرطیہ بیٹھ جائیں اور گنتی کرنا شروع کر دیں آپ اس کے وسائل اور نعمتیں شمار نہیں کر سکتے۔ ہمارے لوگ ایسے ہیں کہ بغیر کسی ظاہری سہولت سے فائدہ اٹھائے کوئی بھی کام کر سکتے ہیں اور کمال کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ہاکی گراؤنڈ نہیں تھے ہم ہاکی کے سالوں تک چمپئین رہے۔ شکوائش کا سرے سے کوئی کورٹ ہی نہیں تھا۔ دیواروں پر گیندیں مار مار کر ہم دہائیوں تک سکوائش کے ورلڈ چمپئین رہے۔

ہمارا ایک سابق فاسٹ باؤلر کرکٹ بال کے بغیر مورگاہ کے پہاڑوں میں جا کر پتھر پھینک پھینک کر مشق کرتا رہا اور دنیا کا تیز ترین باؤلر بن گیا۔ خواتین کے لیے آج تک کوئی کرکٹ کا میدان نہیں ہے۔ لیکن ہماری ایک اچھی خواتین کرکٹ ٹیم ہے۔ دنیا کی ایک بہترین ائیر لائن ہمارے ایک لڑاکا پائلٹ نے کھڑی کر دی۔ اس کی یہ مہارت نہیں تھی۔ لیکن ذمہ داری ملنے پر وہ کر دکھایا جو ناقابل یقین تھا اور جس کے لئے وہ باقاعدہ تربیت یافتہ نہیں تھا۔

اس کی مہارت صرف لڑاکا طیارہ اڑانے کی تھی۔ پھر اسے ملک کے ایک حصے کا گورنر بنا دیا گیا اس نے بہترین گورنری کر دی۔ پھر ملکی ہاکی اس کے حوالے کر دی گئی۔ اس نے اسے ایک برینڈ بنا دیا۔ پاکستان کی ہاکی ٹیم ہاکی کے میدانوں میں عشروں تک دنیا بھر کی ہاکی ٹیموں کو دھول چٹاتی رہی۔ شکست کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا، سوال یہ ہوتا تھا کہ فلاں ٹیم کو کتنے گولوں سے ہرانا ہے۔ پھر اسے ہاکی کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔ اس نے کرکٹ کو بھی پاکستان کی شناخت بنا دیا۔

ہمارے ایک سابق ایئر مارشل، جن کو 1940 میں بنیادی طور پر انڈین آرمی میں کمشن ملا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر انہیں ایئر فورس میں بھیج دیا گیا۔ فایئٹر پائیلٹ بنے اور ایئر فورس ایشین محاذ کے کمانڈنگ آفیسر کے طور پر برما کے محاذ پر بمبار مشنز کرتے رہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان ایئر فورس میں شامل ہوئے۔

پاکستان ائیر فورس کے عملے کو بہترین تربیت فراہم کرنے کے لئے نہایت اعلٰی انتظامات کئے۔ کراچی میں ایئر وار کالج اور پاکستان ایئر فورس اکیڈمی رسالپور میں ایروناٹیکل انجنیئرنگ کالج قائم کیا۔ محض چھتیس سال کی عمر میں پاکستان ائیر فورس کے سربراہ بنے، پاکستان ایئر فورس کو "سیکنڈ ٹو نن" بنایا اور بابائے ائیر فورس کہلائے۔

پاکستان کے ایک عالمِ دین نے قرآن کی ایک ایسی تفسیر پاکستان کی قومی زبان اردو میں لکھی جس کے عربی میں تراجم ہوئے اور اس سے عربوں نے استفادہ کیا۔ حالانکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا۔ ہمارے پیارے ملک کے اساتذہ کرام نے عربی سیکھ کر عربوں کو عربی پڑھائی۔ ہمارے شہر کراچی میں ہونے والی معتمر اسلامی کانفرنس کے دوران پوری دنیا کے مسلمانوں کو سیرت النبیؐ پر ایک بہترین کتاب کسی بھی زبان میں لکھنے کا حدف دیا گیا۔

کہا گیا کہ لکھ کر ڈرافٹ ریاض سعودی عرب میں بھیج دیئے جائیں۔ وہاں ایک بورڈ ایک بہترین ڈرافٹ کا انتخاب کرے گا۔ پوری اسلامی دنیا سے کئی ڈرافٹ کئی زبانوں میں تحریر کر کے بھیج دیئے گئے۔ حیرت انگیز طور پر ہمارے ہی خطے سے تحریر کر بھیجا جانے والا ڈرافٹ بہترین قرار پایا۔ اس سے بھی زیادہ تحیر آفریں بات یہ کہ تحریر عربی میں لکھی گئی۔ اسے کتابی شکل دے دی گئی۔ اسے دنیا میں سیرت النبیؐ پر بہترین کتاب قرار دیا گیا۔ اب اس کتاب کے دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ یہ معجزوں کی سر زمین ہے۔ ان رازوں اور معجزوں سے پردہ اٹھانا اب ہماری ذمہ داری ہے۔

ہم جب تک کسی چیز کے قریب رہتے ہیں اور ہمیں آسانی سے میسر رہتی ہے ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ جب دور ہو جاتے ہیں اور فاصلہ سے دیکھتے یا یاد کرتے ہیں تو اس کی قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے جو بھائی ہمارے اس پیارے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بستے ہیں انہیں وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ملک کیا چیز ہے۔ جب وہ دوسرے ممالک کو اور ان کے باشندوں دیکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی مصنوعات دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں۔

اب آخر میں عطاءالحق قاسمی صاحب کا دنیا کے اس خوبصورت ترین ملک کو خراج تحسین۔

پہلے نثر میں۔

"ہم سب نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے مگر پاکستان نے یہیں رہنا ہے۔ اور ہمارے بچے دنیا کے اس سب سے خوبصورت ملک پاکستان کو پہلے سے زیادہ نکھاریں گے، پہلے سے زیادہ سنواریں گے۔ اس کے باغِ محبت میں بانکے البیلے صنوبر اور دلکش پھولوں کی بہار چھوڑ کر جائیں گے۔ "

اور اب نظم میں۔

میرے وطن، اے میرے سپنے، تیرے سپنے دیکھوں
آنکھ کھلے تو قریہ قریہ رنگ بکھرے دیکھوں

گھر سے سینہ تان کے نکلیں تیرے چھیل چھبیلے
چاروں جانب ہنستی آنکھیں، ہنستے چہرے دیکھوں

میری ہر اک سانس میں تیرے نام کے گھنگرو باجیں
آنکھیں بجھتے، بجھتے تیرے خواب جزیرے دیکھوں

گھنے درختوں، گہری چھاؤں، سبز ہواؤں والے
میں تیری دہلیز پہ بیٹھا تیرے رستے دیکھوں۔

اب یہ دعا کہ ہماری اس پاک سر زمین پر ریشمی چادر جیسی بارشیں برستی رہیں۔ چاند ہمیشہ اس پر اپنی پوری روشنی انڈیلتا رہے۔ سورج پوری آب و تاب سے چمکتا رہے اور شام کی سرخی اس کی کھڑکیوں کے شیشوں پر مچلتی رہے۔ اس کی عمارتوں کی شبیہیں بحیرہ عرب کے نیلے پانیوں میں ہلکورے کھاتی رہیں۔ قدرت قدم قدم پر اس کے ساتھ چلے، کائنات کا خفیہ ہاتھ اس کے سر پر رہے اور اس پر ابرِ کرم کا سایہ رہے۔

یہاں دل پذیر باتیں ہوتی رہیں، پانی کے بہاؤ کی طرح کبھی آہستہ کبھی تیز۔ اس کے حسن میں وہ رنگ و نور ہو جسے دیکھ کر آنکھیں پلک جھپکنا بھول جائیں۔ اس کے پھولوں میں وہ خوشبو ہو کہ نتھنے کھلے کے کھلے رہ جائیں۔ شرارتی اور آوارہ خیالات کا یہاں سے گزر تک نہ ہو۔ اس کے ہر انداز میں غضب کی چاشنی اور مقناطیسی کشش ہو۔

اس کی ہوائیں بادِ نسیم کی طرح ہمیشہ تازہ دم رہیں۔ اس کی فضائیں محبت کے پرندوں کی آوازوں سے گونجتی رہیں۔ اس کے چیڑھ کے بلند و بالا درخت ہمیشہ سر بلند رہیں۔ اس کے پہاڑ برف کی دستار سروں پر لپیٹے سربلند کھڑے رہیں۔ اس کی جھیلیں پانی سے بھری رہیں۔ اس کی بطخیں سوکھی جھیلوں کو اپنے آنسوؤں سے تر کرتی رہیں اور اس کے پرندے نغمے گاتے رہیں۔ اس کے جنگلوں میں شامیں اترتی رہیں۔

ارضِ وطن کے رُخ سے بڑھ کر
آنکھوں کی راحت کیا ہے

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (1)

By Mojahid Mirza