Aye Chadar e Mansab, Tera Shoq e Gul Taza
اے چادر منصب، تیرا شوق گل تازہ
اس نے اپنی بات اس طنزیہ جملے پر ختم کی کہ اس کے والد کے وطن پاکستان میں کب کسی بس ڈرائیور کا اہل بیٹا، ہوم سیکرٹری بنے گا۔
ایک پاکستانی نژاد ساجد جاوید کے برطانیہ کے ہوم سیکرٹری بن جانے کا کچھ برس قبل ذرائع ابلاغ میں بڑا چرچا ہوا۔ وجہ شاید ہمارااحساس کمتری اور انگریز کی ذہنی غلامی ہے۔ نہ جانے ہم آج پچھتر سال بعد بھی ان سے اس حد تک مرعوب کیوں ہیں حالانکہ ہمارے پڑوس میں ہمارے ساتھ آزادی پانے والا ملک کافی حد تک اس احساس غلامی سے نجات پا کر دنیا میں اپنی ایک شناخت بنا چکا ہے اور اس کے باشندے، جو کہ وائیٹ ہاؤس اور دس ڈاؤننگ سٹریٹ سمیت دنیا بھر میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، ہمارے لوگوں کو کئی مخلوط اجتماعات میں اپنی زبان اور لباس کی شناخت کا طعنہ بھی دے چکے ہیں اور ہم ہیں کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنی تمام تر غیر مستقل مزاجیوں کے باوجود اپنی ایک شناخت نہ بنانے کے میدان میں خاصے مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں۔
انگریز کوئی بھی کام کرے ہم نے اس سے خواہ مخواہ متاثر ہو کے دکھانا اپنا فرض سمجھ رکھا ہے جبکہ وہ ہر کام اپنے قومی مفاد میں اور اہلیت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ کوئی ان کی تعریف کرے اور انہیں اچھا کہے۔ نہ ہی اپنی خوبیوں کی نمائش کرنے والوں کا انتخاب وہ کرتے ہیں۔ مزید براں، ان لوگوں کا جنہیں ہم اپنا بھائی بند بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، ان کا پاکستان، پاکستانیت اور اسلام سے کچھ زیادہ تعلق بھی نہیں ہوتا۔
شنید ہے کہ یہ صاحب بھی باقاعدگی سے چرچ جانے والی ایک عملی عیسائی خاتون کے خاوند ہیں اور بذات خود کوئی عملی مسلمان نہیں ہیں اور پاکستانیوں سے باقاعدہ ایک محفوظ فاصلہ رکھتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انتہائی قابل ماہر اقتصادیات ہیں۔ اسی لئے اس مقام تک پہنچ پائے ہیں۔ وگرنہ انگریز کسی نااہل اور عملی مسلمان کو اتنے بڑے عہدے سے نوازنے میں خاصہ غیر فراخدل واقع ہوا ہے۔ ہر شاخ پہ الو بٹھانے کا فخر و کمال صرف ہمیں ہی حاصل ہے۔
مقام حیرت ہے کہ بحیثیت قوم ہماری یادداشت اور تاریخی شعور انتہائی کمزور واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم اور اس پہ فخر بھی ہونا چاہئے کہ یہاں پاکستان میں پہلے ہی بہت سے ڈرائیوروں، مزدوروں، کسانوں اور رینکر بیوروکریٹوں کے بیٹے اس بدنصیب ملک کی خدمت کا شرف حاصل کر کے رنگ چمن بدلنے کی مقدور بھر کاوش کر کے جا چکے ہیں۔ بہت سے دوسرے اس کے اہل بھی ہیں اور نشہ مسند شاہانہ سے مخمور ہونے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ لیکن شاید ہمارے چارہ سازوں نے ہر شاخ پہ الو بٹھانے کا عہد کر رکھا ہے۔ ہمارے فاضل دوست نے یہ اطلاع دے کر کہ وہ خود ایک ڈرائیور کے نہیں بلکہ ایک صوبیدار کے فرزند ارجمند ہیں، باقاعدہ اپنی نسبی برتری ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ غالبا یہی رویہ ہے کہ ہمارے یہ قابل بیٹے کسی بڑے عہدے پر پہنچ کر چھوٹے باپ کے بیٹے جیسی طعنہ زنی سے بچنے کیلئے اپنی شناخت چھپا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یا پھر راہی ملک عدم ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک نہایت سینئر کالم نگار کے بقول ہمارے پچھلے وزیراعظم ایک مزدور کے بیٹے ہیں اور وہ فٹ ہاتھ سے اٹھ کر ملک کے ایک بار نہیں تین بار وزیراعظم ہوئے۔ انھوں نے ہی یہ طنزیہ اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ مزدور کا یہ بیٹا اپنی پہلی وزارت عظمی کے دور میں ایک رینکر بیوروکریٹ صدر کے ہاتھوں معزول ہوا۔ اب یہ سمجھنا کار دشوار ہے کہ ان کی نظر میں بڑائی کی فضیلت فرزند مزدور اور رینکر بیوروکریٹ میں سے کس کے حصے میں آئی۔ ہم اپنی زیادہ تر توانائیاں اسی قسم کے کٹھور فیصلے کرنے میں صرف کر دیتے ہیں اور یہی ہماری سوسائیٹی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے ایک نامور اور واحد آرمی چیف، جنہیں ایک باقاعدہ جمہوری حکومت نے سروس ایکسٹینشن بھی دی، ایک رینکر کے بیٹے تھے۔ آرمی چیف ہوتے ہوئے ایک رینکر کا بیٹا ہونے کا طعنہ انہیں کئی بار سننے کو ملا۔ مگر وہ مگن رہے کہ اس سے چھٹکارہ ممکن نہ تھا۔ کوئی اپنی ولدیت تبدیل نہیں کر سکتا۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے کہ ہمارے اس پاکستانی نژاد بھائی سے اس کے برطانوی ہم وطن کیا رویہ رکھتے ہیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اگر کبھی اپنے آبائی وطن لوٹا تو یہاں اسے یہ طعنہ ضرور دیا جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ محتاط رہے گا۔ یہ درویشوں کی بستی ہے، دبے پاؤں بھی یہاں آنے کی کوشش نہ کرنا۔
نہ جانے ہمارے سماج میں مزدور، کسان، ڈرائیور، رینکر کی اولاد ہونا ایک طعنہ کیوں ہے۔ اور ان کے کسی مقام بلند پر پہنچ جانے پہ اظہار حیرت کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ کہ اگر دیکھا جائے تو یہ لوگ زیادہ قابل تعریف و احترام ہیں کہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتے ہیں۔ پھر ان کے بچےدشوار راہوں پر سخت مشقت اٹھا کر ایک مقام حاصل کرتے ہیں۔ غریب بچے کا محنت کر کے اوپر آ جانا زیادہ قابل تعریف اور قابل فخر ہونا چاہئے۔ اللہ کو بھی یہی پسند ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ اس نے کثرت سے پیدا کیا ہے۔
لیکن اب یہ طعنہ کسی حد تک اشرافیہ کو بھی حدف بنانے لگا ہے کہ کچھ دن قبل ہمارے ایک برگزیدہ سیاسی رہنما نے، ایک نوجوان پارٹی سربراہ، جنہیں ایک سیاسی پوتا، نواسہ و فرزند ہونے کا اعزاز حاصل ہے، کے بارے میں کہا کہ اس کا کیا تجربہ ہے کہ وہ ملک چلانے کی بات کرتا ہے۔ ایک یونین کونسل چلانے کا اس کے پاس تجربہ نہیں ہے۔ یہ درست بھی ہے اور ایسے لوگوں کو یہی کہا جانا چاہیے۔ اقتدار کسی کی میراث نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے حصول کیلئے حسب نسب کی نہیں بلکہ اہلیت و تجربے کی ضرورت ہونی چاہیے۔
لیکن پہلے ایسے ہو چکا ہے اسی پارٹی میں ایک شخص جو یونین کونسل چلانے کا بھی اہل نہیں تھا پورے چار سال اس بد قسمت ملک کا وزیراعظم رہا۔ اور لوگوں کو یہ کہ کر مرعوب کرتا رہا کہ وہ غوث اعظم کی اولاد ہے۔ اس نے جب محسوس کیا کہ کچھ لوگ اس کا رتبہ اس سے چھیننے کے درپے ہیں تو فرمایا تم مجھے وزارت عظمی سے تو محروم کر سکتے ہو میرے حسب نسب سے نہیں۔
کوئی اسے بتائے کہ جب قافلہ لٹ رہا تھا تو ایک طرف پر سکون کھڑے اس کے آبا نے ڈاکوؤں کے سردار کے سوال پر کہ اس کے پاس کیا ہے تو مستقبل کے غوث اعظم اس بچے نے بلا خوف و خطر جواب دیا کہ میرے پاس کچھ رقم ہے۔ تلاشی پر جب کچھ برآمد نہ ہوا تو کپڑوں میں ماں کے ہاتھ سے سلی رقم خود نکال کر ڈاکووں کے سردار کے حوالے کی۔ اس کے سوال پر کہ بچے تم نے ایسا کیوں کیا جبکہ میں رقم تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ تو جواب دیا کہ کسی بھی صورت میں جھوٹ نہ بولنا، میری ماں کا حکم ہے۔ اس کے برعکس غوث اعظم کی اولاد ہونے کے دعویدار اس وزیراعظم صاحب نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں سپریم کورٹ کے بار بار کہنے پر کہ اپنے صدر صاحب کی چوری کرکے سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں چھپائی گئی رقم واپس لانے کیلئے سوئس حکومت کو ایک خط لکھے، تو جواب میں اولاد غوث اعظم ہونے کے اس دعویدار نے کیا کیا حیلہ سازی کی، وہ تاریخ کا ایک انتہائی تاریک باب ہے۔ آزادی کے بعد پہلی دہائی میں ایک مفلوج شخص اس ملک کا کئی سالوں تک گورنر جنرل رہا۔
ہمارا یہی رویہ ہے اور ہم باہر کی ڈگری اور لوگوں سے اس حد تک مرعوب ہیں کہ کوئی باہر سے آکر وزیراعظم بن جاتا ہے اور پھر وزارت عظمی سے اترتے ہی پرائے دیسوں کی پرواز لیتا ہے۔ جو یہاں رہتے ہیں، محنت کرتے ہیں، اپنے خون سے گارا بنا کر اس ملک کی بنیادیں بھرتے ہیں۔ کوئی باہر سے آکر پھر ان کو کھوکھلا کرتا ہے۔ یہ پھر بھرتے ہیں اور پھر کوئی دوسرا آکر انھیں اکھیڑتا ہے۔ نہ جانے یہ سلسلہ کب تھمے گا اور دھرتی کے اصل فرزند اس کی باگ دوڑ سنبھالیں گے۔