Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Aao Chaun Beejain (2)

Aao Chaun Beejain (2)

آؤ چھاؤں بیجیں (2)

بچوں کو سکول سے کالج منتقل ہوتے ہوئے ایک ذہنی فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ سکول سے کالج کے ماحول میں سمانے کے لئے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ رہنمائی کالج اساتذہ نے فراہم کرنا ہوتی ہے۔ اپنے اس فرض کو نبھائے بغیر وہ امید باندھ لیتے ہیں کہ بچے خود بخود اس عملِ تغیّر سے گزر کر وہ سب کچھ کرنا شروع کر دیں گے جو ہم نے سوچ رکھا ہے۔ ان کا کوئی آپریٹنگ مینیول نہیں ہوتا۔ کوئی قانون کی کتاب نہیں ہوتی۔

کوئی پتہ نہیں ہوتا کس نے کیا اور کیسے فیصلہ کرنا ہے؟ فیصلہ لینے سے پہلے کس کس کو اس میں شامل کرنا ہے؟ پھر پوچھا جائے تو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ یہ فیصلہ کس نے کیا ہے۔ ہر ایک دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک طرح سے اپنے ہی فیصلے کو اپنی ہی نظر میں جرم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ اس میں سمجھ بوجھ اور تفکر کا عنصر سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے۔ اس پر کوئی مکالمہ نہیں ہوتا۔

فیصلہ کرنے کی اور انتظامی صلاحیت اجاگر کرنے کی کوئی تربیت نہیں ہوتی۔ اگر کسی نے کوئی فیصلہ لیا ہے تو پھر اس کے دفاع کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے اور طلبہ اور والدین کو تفصیل سے سمجھانا اور انہیں مطمئن کرنا چاہئے کہ یہ ہوا اور اس پر یہ فیصلہ ہوا۔ اب آپ بتائیں کیا آپ ہمارے اس فیصلے سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ بقول ظفر اقبال صاحب آپ نے کچھ صحیح یا غلط کیا ہے تو پھر صاحبِ کردار بنیں اور اس کی ذمہ بھی قبول کریں۔

جھوٹ بولا ہے تو اس پر قائم رہو ظفر

آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے۔

پھر اس عملِ تغیر کی تکمیل سے پہلے ہی بچوں اور والدین کو اپنے اعلٰی ذوق اور حسِ فلاح سے متاثر کرنے کے لئے کالج کے تفریحی دورے رکھ لیتے ہیں۔ ٹرپ سے پہلے کوئی سنجیدہ و جامع بریفنگ نہیں دی جاتی کہ دوران ٹرپ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ کالج کیمپس میں بھی سگریٹ نوشی یا نظم و ضبط کے خلاف، کسی اور چیز کے بارے کسی مؤثر مہم یا تربیت کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ کوئی بینر، کوئی چارٹ، کوئی بورڈ نظر نہیں آتا۔

جیسے سکول یا کالج کے داخلی گیٹ پر ہی جلی حروف میں لکھا ہونا چاہئے کہ اس گیٹ کے اندر سگریٹ نوشی کی ممانعت ہے۔ سگریٹ نہ پینے کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ اسی طرح استقبالیہ، برآمدوں، اور کلاس روم میں بھی ایسے انتباہ موجود ہونے چاہیں۔

میں جاوید چودھری کا ایک کالم بتاریخ 31 جولائی 2022 میں موجود آرمی چیف اور ایک سابق سویلین وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو کا حوالہ پڑھ رہا تھا۔ چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ جنرل نے وزیرِاعظم سے کہا آپ کا فلاں وزیر بڑا باصلاحیت ہے۔ آپ اس سے کوئی مفید کام کیوں نہیں لیتے؟ تو وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا وہ میری بات نہیں سنتا۔

جنرل نے کہا میں فوج کا سربراہ ہوں، میں اپنے ماتحت کسی بھی تھری سٹار جنرل کو کھڑے کھڑے فارغ کر سکتا ہوں۔ وہ میرے فیصلے کے خلاف کہیں اپیل بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن میں ایسا نہیں کرتا اور میں اس وقت تک کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتا جب تک میرے سارے ماتحت جنرل میرے ساتھ متفق نہیں ہو جاتے۔ اب یہ ایک فوجی جنرل کا مزاج ہے۔ جس میں سوچ بچار ہے، جس میں مکالمہ ہے، برداشت ہے، دوسرے کے حق اور عزت کا خیال ہے۔

اب میں آپ کو ایک سکول کی خاتون پرنسپل کی کہانی سناتا ہوں۔ ہمارے ایک سابق بیوروکریٹ جو آج کل ریٹائرنگ لائف سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور اپنے دوسرے پیٹی بھائیوں کی طرح کالم لکھ کر ہمیں اپنے زندگی کے انتہائی مفید تجربات تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ اپنے سکول کے زمانے کا ایک قصہ یکم اگست 2022 کے اپنے کالم میں لکھا ہے۔

فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے ایک سکول کے ساتھی بچے نے تفریح کے وقفے میں میرے منہ پر اتنی قوت سے مکا مارا کہ میرے دو دانت ٹوٹ گئے اور میرے منہ سے بے تحاشہ خون جاری ہو گیا۔ میں روتا ہوا واش روم چلا گیا اور وہاں اپنا منہ دھو کر اور کلیاں کر کے صاف کیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے سامنے والے دو دانت ٹوٹ گئے ہیں اور میرے ہونٹ بھی بری طرح پھٹ گئے ہیں۔

اس دوران میری ایک مہربان معلمہ کو واقعے کا علم ہوا۔ فوراً پہنچیں، میری حالت دیکھی۔ ہمدردی اور شفقت کا اظہار فرمایا اور مجھے جلدی سے سکول میں واقع ڈسپنسری لے گئیں۔ دوا پٹی کروائی اور میں بہتر محسوس کرنے لگا۔ چھٹی ہوئی تو اپنی سائیکل پر بیٹھ کر گھر چلا گیا۔ گھر میں کسی کو نہیں بتایا کہ سکول میں میرے ساتھ کیا سنگین حادثہ ہوا۔

دوسرے دن جب سکول پہنچا تو پرنسپل صاحبہ کا پیغام ملا کہ بریک میں، مَیں انہیں ان کے دفتر میں ملوں۔ میں پریشان ہو گیا کہ میں نے تو کسی سے ذکر تک نہیں کیا۔ گھر پر بھی کسی کو نہیں بتایا۔ تو پرنسپل صاحبہ نے کیوں بلا بھیجا ہے؟ خیر بریک کے وقت میں ان کے دفتر پہنچ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ مجھ سے پہلے ہی پرنسپل کے دفتر کے باہر کھڑا ہے۔ میں دفتر کے اندر چلا گیا تو پرنسپل صاحبہ نے فرمایا اس لڑکے نے کل آپ کو مکا مار کے زخمی کیا تھا۔

اب آپ بھی اس کے منہ پر اسی قوت سے مکا ماریں اور اسی طرح اس کا خون نکالیں جیسے کل اس نے آپ کا نکالا تھا۔ میں نے معذرت کی کہ میڈم میں تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ تو وہ خود اٹھیں، باہر تشریف لائیں اور اس بچے کے منہ پر اتنا زور سے گھونسہ رسید کیا کہ اس کے منہ سے خون کا ایک چشمہ ابل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خون میں لت پت ہو گیا۔ آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا۔ وہ پرنسپل صاحبہ کا اپنا اکلوتا بیٹا تھا۔

نہ جانے وہ چھاؤں بیجنے والے اساتذہ کہاں کھو گئے؟ جن کا اتنا بڑا ظرف تھا کہ سکول کے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھتے تھے۔ ہر مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتے تھے۔ اسے بغیر کسی بیرونی مدد کے حکمت سے حل کرنا اپنا فرض عین سمجھتے تھے۔ نہ جانے ان کے نقش قدم پر چلنے والے وہ بچے زمانے کی کس لہر کا شکار ہو گئے جن کے ننھے سینوں میں اتنا بڑا دل دھڑکتا تھا کہ منہ پر مکا کھا کر اور دانت تڑوا کر بھی صبر سے کام لیا اور اختیار ملنے پر بھی اپنے ساتھی سے بدلہ نہیں لیا بلکہ معاف کرنے کو ترجیح دی۔

تیرے اجالے کیا کسی اور دیار میں بس گئے۔

اب دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ استاد ایک سفاک تاجر بن چکا ہے۔ دولت کے پیچھے سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں، روایات اور اقدار کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اس کے پاس کوئی حکمت نہ کوئی حکمتِ عملی ہے۔ نمبر ترجیح ہیں۔ تربیت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جب کاروبار شروع ہوتا ہے تو ہر ایک سے بڑے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ زبردستی اپنے فون نمبر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جی اپنے جاننے والوں کو بھی ہمارے سکول، کالج کے بارے بتائیں۔ ہم آپ کو یہ یہ رعایتیں بھی دیں گے۔

جب تک کاروبار چمکتا نہیں ہے اس وقت تک کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ نہ اخلاق کی، نہ نظم و ضبط کی۔ بس جو جیسا ہے، آئے اور گاہک بنے۔ لیکن جب کاروبار خوب چمک اٹھتا ہے اور کافی مقدار میں بچے سکول، کالج آنا شروع ہو جاتے ہیں تو فرعونیت سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے۔ بچے سے ذرہ سی غلطی سرزد ہوئی کہ فوراً سکول، کالج سے نکال دیا۔

کسی اخلاقی جواز کے لئے نہیں بلکہ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ میری تعلیمی تجارت پر اس کا برا اثر پڑ سکتا ہے۔ میرے گاہک کم ہو سکتے ہیں۔ مارکیٹ ویلیو ڈاؤن ہو سکتی ہے یا پھر یہ تاثر دینے کے لئے کہ ہمارے سکول یا کالج کا نظم و ضبط بڑا مثالی ہے۔ کسی کی زندگی یا کیریئر تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے۔ کسی کی عزت تار تار ہوتی ہے تو ہو جائے۔

درد نے پوری طرح کی نہیں تہذیب اس کی

ابھی اس دل کو تیرا حلقہ نشیں رکھنا ہے۔

Check Also

Sabar Gul

By Asif Masood