Thursday, 19 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Aao Chaun Beejain (1)

Aao Chaun Beejain (1)

آؤ چھاؤں بیجیں (1)

آج وہ کچھ بجھا بجھا سا تھا۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے۔ کہنے لگا آپ صحافی حضرات فوجی آمریت کی بہت کرتے ہیں۔ جیسے ایوب خان، یحیٰ خان، ضیاالحق، پرویز مشرف وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا اصل بات کی طرف آئیں، ہوا کیا ہے؟ اس نے کہا میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس سلسلے میں سویلین بھی عسکریوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ اس نے کہا وہ ایسے اور پھر کہانی شروع کی، آج میرے سولہ سالا بیٹے کو مجھ سے مکالمہ کئے بغیر اس بنیاد پر کالج سے نکال دیا گیا کہ اس نے کالج کے تفریحی دورے کے دوران سگریٹ پیا ہے۔

مجھے فون کر کے کہا گیا کہ آپ کالج آئیں۔ آپ سے ایک اہم معاملے پر بات کرنی ہے۔ میں نے درخواست کی کہ آج ایک نہایت اہم کام میں مصروف ہونے کی وجہ حاضر ہونے سے قاصر ہوں، کل حاضر ہو جاؤں گا۔ لیکن انہوں نے انتظار کئے اور مجھے سنے بغیر انتہائی اجلت میں ایک آمرانہ فیصلہ معصوم بچے کو ہی سنا کر گھر بھیج دیا۔ بچہ روتا ہوا گھر آ گیا۔ اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔

میں نے فون کرکے ایک پروفیسر صاحب اور کالج کے شریک مالک سے پوچھا کہ سر برائے مہربانی مجھے بتائیے تو سہی ہوا کیا ہے؟ ایسا کون سا جرم سرزد ہو گیا ہے کہ آپ نے اتنی اجلت میں فیصلہ فرماتے ہوئے بچے کو کالج سے بے دخل کر دیا ہے۔ اور یہ کہ آپ نرمی فرمائیں اتنا سخت فیصلہ نہ کریں۔ ابھی تو بچے نے کالج میں صرف اڑتیس دن گزارے ہیں۔ وہ کالج کے نظم و ضبط سے اچھی طرح واقف بھی نہیں ہوا۔ فرمایا آپ کل آ جائیں تو بات کرتے ہیں۔

میں اگلے دن حاضر ہو گیا۔ کوآرڈینیٹر سے ملا کہ میری پروفیسر موصوف اور پرنسپل صاحب سے ملاقات کروائی جائے۔ کوآرڈینیٹر صاحب نے فرمایا پروفیسر صاحب تو آج تشریف نہیں لائے۔ پرنسپل صاحب کالج کی دوسری عمارت میں ہیں۔ پھر مجھے ایک کانفرنس روم میں بٹھا کر خود ہی ایک عدد الیکٹرانک سگریٹ دکھا کر انتہائی بے ڈھنگے انداز سے کہا کہ آپ کے بیٹے نے یہ "کارنامہ" کیا ہے۔ میں اس کے الفاظ کا چناؤ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ کیا یہ لوگ والدین سے اس زبان میں بات کرتے ہیں؟ کیا والدین اور اساتذہ کے درمیان باہمی عزت کا تعلق ختم ہو چکا؟ کیا ایک کالج کوآرڈینیٹر اور ایک بازاری ریڑھی بان ایک ہی زبان بولنے لگے ہیں۔

کیا ہمارے عظیم ملک میں تقویٰ اور قانون کی پاسداری کا یہ عالم برپا ہو گیا ہے کہ ایک تفریحی دورہ پر ایک نادان نوجوان کے سگریٹ کا ایک کش اتنا بڑا جرم بن گیا کہ والدین سے بات کئے بغیر لمحوں میں کالج سے بے دخل کر دیا گیا۔ پہلے کوئی وارننگ ہوتی ہے، کوئی جرمانہ ہوتا ہے، والدین کو بتایا جاتا ہے۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس ایک اٹل فیصلہ ہو گیا۔ اور بظاہر ایک نیم خواندہ جذباتی کوآرڈینیٹر نے اتنا بڑا فیصلہ کر دیا۔ یہی بات جب امجد اسلام امجد کو کرنا پڑی تو کچھ یوں کی

رتوں کا قاعدہ ہے وقت پر یہ آتی جاتی ہیں!

ہمارے شہر میں کیوں رک گیا فریاد کا موسم

اس کے بعد میں پرنسپل صاحب کی تلاش میں دوسری عمارت میں گیا۔ وہاں استقبالیہ پر موجود خاتون سے پرنسپل صاحب کے بارے میں پوچھا تو اس ذمہ دار خاتون نے فرمایا کہ پرنسپل صاحب تو جا چکے ہیں۔ میں مایوس واپس لوٹ رہا تھا کہ گیٹ پر کھڑے مہربان اور ذمہ دار گارڈ نے اشارہ کیا کہ وہ سامنے سیڑھیوں سے اترتی شخصیت پرنسپل صاحب ہیں۔ اس سے آپ کالج انتظامیہ کے ذمہ دارانہ رویے کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں کون کہاں ہے؟ بس آئے ہوئے ہیں، بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس کی ہمت ہے وہ ہم سے پوچھ لے۔

گارڈ کا شکریہ ادا کر کے پرنسپل صاحب کی طرف متوجہ ہوا ان کو سلام عرض کیا اور ان سے اپنے آنے کی وجہ عرض کی۔ خوبی قسمت کہ وہ اس انتہائی سنجیدہ کیس سے پہلے سے ہی واقف تھے کہ اچھا وہ فلاں کیس؟ ہمیں ساتھ اپنے دفتر لے گئے اور فرمایا کہ یہی آخری فیصلہ ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ آپ کوئی اور کالج دیکھ لیں۔ عرض کیا ایک موقع دے دیں، بچہ ہے، نادان ہے، انسان ہے، خطا کار ہے، اللہ بھی معاف کرتا ہے اور معاف کرنا پسند کرتا اور معاف کرنے والے کی قدر کرتا ہے۔ لیکن پرنسپل صاحب اپنے نقطہ نظر پر ڈٹے رہے۔

اک لمحے کو زمانے نے رضا پوچھی تھی

گفتگو ہونے لگی ظل الٰہی کی طرح

ہمیں سر جھکا کر واپس آنا پڑا، کہ اللہ نے استاد کا مرتبہ بہت بلند رکھا ہے، بحث و تکرار استاد کے منصب سے گستاخی ہے۔ باوجود اس کے کہ ہمیں ملاقات کا وقت دے کر دئیے گئے وقت اور مقام پر موجود نہیں تھے اور ہمیں مارا مارا پھر کر انہیں تلاش کرنا پڑا۔ شاید ایفائے عہد ضروری نہیں رہا۔ اور جب کاروبار چل پڑا، پیسے کی ریل پیل ہو گئی تو پھر شاید لوگوں کو عزت دینا اور عہد کی پابندی کرنا ضروری نہیں رہ جاتا۔ ویسے بھی اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے۔

اب آپ ذرہ سوچیں آج جس بچے کے خلاف ایک اتنا سخت فیصلہ اس قدر اجلت میں لیا گیا، وسعت قلبی نہیں دکھائی گئی، معافی نہیں دی گئی، کل کسی فیصلہ کن پوزیشن پر بیٹھ کر کیا یہ بچہ کوئی نرم فیصلہ کرے گا؟ وسعت دکھائے گا؟ معافی دے گا؟

پھر یہ کہ یہ واقعہ کالج کیمپس ہر نہیں بلکہ کالج کے مری، نتھیا گلی کے تفریحی دورے کے دوران وقوع پذیر ہوا۔ ایک تفریحی دورے پر کالج کے نظم و ضبط کا نہیں، قدرے لچکدار تفریحی قواعد کا اطلاق ہونا چاہئے۔ پابندیاں کچھ نرم ہونی چاہیں تاکہ بچے اس تفریحی دورے سے لطف اندوز ہو کر تازہ دم ہو کر کلاس روم میں واپس آئیں۔ اگر تفریحی دورے پر بھی بچوں کو جکڑ کر لے جانا ہے تو پھر بہتر ہے کہ لے کر ہی نہ جائیں۔ انہیں قانون اور ڈسپلن کا پابند رکھنے کے لئے کلاس روم بہترین جگہ ہے۔

پھر کلاس روم میں بھی اگر آپ نے انہیں نمبروں کے ڈھیر کی خاطر بالکل میوٹ موڈ میں رکھیں گے تو ان کے اندر سے تخلیقی پودا مرجھا جائے گا اور نئے خیالات ختم ہو جائیں گے۔ بچہ اگر شرارت نہیں کر رہا تو اس کی صحت کے متعلق فکر مند ہونا چاہیے نہ کہ شرارت کرتے بچے کے متعلق۔ شرارت کرتے بچے تو خوبصورت اور صحت مند ہوتے ہیں۔ شرارت تو دراصل ان کی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے نہ کہ جرم۔

بچوں کے خیالات اور سوالات سے اساتذہ کو بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے ایسے نئے اور نادر خیالات سامنے آتے ہیں جنہوں نے کبھی ایک اچھے اور تجربہ استاد کی سوچ کے دروازے پر بھی دستک نہیں دی ہوتی۔ بچے قدرت کی طرف سے علم کا ایک خزانہ لے کر آتے ہیں جو بڑا نایاب ہوتا ہے۔ وہ ایک جدید ترین سافٹ ویئر کے ساتھ اس دنیا میں وارد ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو ان کے سوالات اکٹھے کر کے ان کے جوابات تلاش کرنا چاہئیں۔ یہ علم کا ایک انمول خزانہ ہو گا۔ نہ کہ سوالات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے۔ نہ ہی کلاس روم میں بولنے والوں بچوں کے خلاف دل میں بغض رکھنا چاہئے۔

نمبروں کی ایک بھیڑ چال برپا ہے، جہاں کہیں یہ نام نہاد ڈربوں میں قائم پرائیویٹ سکول، کالج خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اس دوڑ میں وہ دوسرے ڈربوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں وہاں بالکل سمجھوتہ نہیں کرتے۔ کسی کے کیریئر کی کوئی پروا نہیں کرتے، کسی کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، روکھے سوکھے مزاج سے پیش آتے ہیں۔ والدین، جو ان کو بے تحاشہ فیسیں دے کر اور ان کے ذہین بچے پتہ مار محنت کر کے، نمبروں کے ڈھیر لگا کر، ان کو اس مقام تک پہنچانے میں مددگار بنتے ہیں، ان کی ذرہ پرواہ نہیں کرتے۔

بچوں کے اور ملک کے مستقبل کو نہیں دیکھتے، تربیت پر کوئی دھیان نہیں دیتے۔ جو بچے تھوڑے سے بھی روش سے ہٹے ہوئے ہوں انہیں مناسب وقت دے کر پٹڑی پر لانے کی کوئی سعی نہیں کرتے۔ ایسی ہٹ دھرمی اور فرعونیت تو میں نے مندرجہ بالا کسی فوجی طالع آزما میں بھی نہیں دیکھی۔ جتنی ان کوٹ، پتلون، ٹائی میں ملبوس جینٹل مینوں میں دیکھی ہے۔ (جاری ہے)

Check Also

Muzakrat

By Muhammad Umair Haidry