Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Ye Konsi Kitab Mein Likha Hai? (2)

Ye Konsi Kitab Mein Likha Hai? (2)

یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے؟ (2)

اپنی محبت کی کہانی بڑے فخریہ انداز میں سنا رہا تھا۔ کہ کس طرح وہ خوب رو حسین و جمیل لڑکی اپنی سہیلی کے ساتھ اس کے بارے میں باتیں کر رہی تھی۔ اور کس طرح اس کا فون نمبر بھی اپنی سہیلی کو دے دیا تھا میں حد سے زیادہ خوش تھا کہ اس نے میرا نمبر اپنی سہیلی کو دیا لیکن دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہی میری اس حرکت سے کوئی ہنگامہ کھڑا نہ ہو جائے میں بہت زیادہ خوف زدہ بھی تھا۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ حسین لڑکی فون کرے گی۔

دوست آپ کو تو معلوم ہوگا کہ انتظار بہت بری چیز ہے یہ آپ کے اندر سے امید کو دھیرے دھیرے ختم کرتا ہے۔ انتظار اگر خط و کتابت کا بھی ہو تو بھی سخت ہے کیونکہ آپ دن رات راہ تکتے ہیں ایسا جس طرح غریب کی نظریں ہمیشہ روٹی پر ہوتی ہے جب انسان بھوکا ہوتا ہے۔ تو اس وقت اس کے ذہن میں کچھ پیدا نہیں ہوتا اور نہ کوئی نیا خیال آتا ہے سوائے رزق کے۔ وہ رزق کی تلاش میں ہوتا ہے۔

میرے دوست میں آپکو فری مشورہ دیتا ہوں، کبھی بھی کسی چیز، کسی شخص کا انتظار مت کرنا لیکن لڑکے دوست جو کافی دیر سے اپنے دوست کی باتیں سن رہا تھا اس کے ساتھ ان باتوں پر متفق نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ زندہ رہنا پسند کرتے ہو تو انتظار کرو اچھی ساعتوں کا، خوبصورت چیزوں کا، اچھے لوگوں کا جو لوگ اس قسم کی باتیں منہ سے نکالتے ہیں وہ ذہنی طور پر نابالغ ہوتے ہیں یعنی ایسے افراد یا لوگوں کا شعور پختہ نہیں ہوتا تم اس قسم کی باتیں مت کیا کرو۔

کیونکہ امید زندگی کے ساتھ جڑی ہے اور امید کے بغیر زیادہ دیر تک زندہ رہنا میرے خیال میں مشکل نہیں ناممکن ہے، کیونکہ تم روٹی کے بغیر کچھ دن تو زندہ رہ لو گے لیکن امید کے بغیر نہیں۔ ناامیدی نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ اور یہ اس لڑکے کے دوست نے اس کی بات بیچ میں کاٹ کر اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے یہ کیا عجیب بحث شروع کر دی ہے۔ میں تم کو اپنی کہانی سنا رہا ہوں تم بیچ میں باتیں مت کرو جب اس خوبصورت اور حسین لڑکی کی سہیلی نے مجھے اس حسین لڑکی کا فون نمبر دیا میں خوش ہوا سوچا کام ہوگیا۔

لڑکے کا دوست جو ابھی تک اپنے دوست کی باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا اب اچانک بے اختیار بول پڑا، تو پھر کیا ہوا؟ صبر کرو تفصیل کے ساتھ بتاتا ہوں۔ نہیں جلدی جلدی بتاؤ۔ دوست غصے سے تم کہی جا رہے ہو یار میری بات دھیان سے سنو۔ میں نے تین دن لگاتار اس کو فون کیا لیکن اس نے ایک بار بھی نہیں اٹھایا میں نے تقریباً تین دن انتظار بھی کیا شاید کال کرے لیکن اس خوبصورت پری نے میسج تک نہیں کیا۔

میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ کس طرح اس لڑکی سے اپنی نفسانی خواہش پوری کروں وہ بہت خوب صورت تھی حد سے زیادہ بس میرے پاس الفاظ نہیں اس کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے۔ جب کالا برقع پہن کر کالج جاتی تو بہت پیاری لگتی تھی۔ لڑکے کا دوست جو کافی دیر سے اس کی باتوں کو دلچسپی کے ساتھ سن رہا تھا نے تمخسرانہ لہجے میں بولا کچھ پیا تو نہیں۔ ابے سارے شہر میں لوگ پیتے ہیں تمہیں ان کی کوئی پرواہ نہیں بس مجھے لیکچر شروع کرتے ہو۔

ان ساری باتوں کو سننے کے بعد غصے سے اس کے دوست کی سانس رک گئی۔ طبعیت خراب ہوئی۔ جس طرح جب چھوٹا بچہ روتا ہے تو روتے روتے زیادہ رونے سے اس کی سانس رک جاتی ہے پھر والدین اس کو اٹھاتے ہیں تاکہ سانس درست ہو جاۓ اس طرح اس کا بھی یہی حال تھا کچھ لمحوں کے لیے اُس کا دوست وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور دور چمن اور سرسبز جگہوں میں گھوم رہا تھا سوچ رہا تھا کہ میرے دوست کو کیا ہوا وہ زمین کو دیکھ کر ادھر اُدھر گھور رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ اس سے کوئی چیز گم ہوگئی ہو۔

جس جگہ کا میں ذکر کر رہا ہوں وہاں پر رنگ برنگ پھول تھے اور درخت اتنے زیادہ تھے کہ کیا بتاؤں۔ بس جس طرح جنگل میں ہوتا ہے شام کا وقت تھا اور مدھم سی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی خزان کا موسم تھا اور درختوں سے سینکڑوں پتے گِر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ آیا اور اپنے دوست کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اُس نے کہا کہ میں اپنی کہانی ختم کرتا ہوں شام ہوگئی ہے موسم بھی ٹھیک نہیں ہے۔

میرے ساتھ جو بندہ بیٹھا تھا بلکہ میں جس کے پاس بیٹھا تھا وہ سگریٹ بہت پیتا تھا بہت زیادہ۔ ہم دونوں اُن دو لڑکوں کے علاؤہ اور لوگوں کو بھی دیکھ رہے تھے میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ کتنے بدقسمت ہیں ان فضول کاموں کے لیے ان کے پاس کتنا وقت ہے میں ایک عجیب خیال میں گم تھا کہ اس دوران ان دو دوستوں نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا۔ افسوس وہ حسین اور جمیل لڑکی تو نہیں ملی لیکن جانے دو میں نے دوسری لڑکی کے ساتھ لنک سیٹ کیا کالج کے باہر ایک اور لڑکی کے سامنے کاغذ پھینکا اور اُس نے اٹھا لیا اور جونہی میں گھر پہنچا فوراً میرے موبائل پر کال کی اپنا نام بھی بتایا حتیٰ کہ یہ بھی بتایا کہ وہ فلاح جگہ رہتی ہے۔ والد کیا کام کرتا ہے غرض اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔

لیکن ان ساری معلومات کی ضرورت بھی مجھے نہیں تھی کیونکہ ان معلومات سے میں کوئی اچار تو نہیں ڈالنا تھا میں تو اس کے ساتھ۔۔ کرنا چاہتا تھا میں نے دو تین دنوں تک لڑکی کے ساتھ نارمل گفتگو کی پھر میں نے اس لڑکی کو کہا کہ کل کالج سے کسی بہانے نکلو اور کہیں جاتے ہیں، سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ اُس نے حامی بھر لی اور اگلے دن ہم دونوں رسٹورانٹ گئے کھانا کھایا اور کھانے کے آٹھ سو روپے بھی مجھے اپنی جیب سے دینے پڑے وہ لڑکی کافی خوش تھی مجھے بار بار کہتی تھی آپ بہت اچھے ہو آپ جیسا دنیا میں کوئی نہیں میں سب سمجھ سکتا تھا۔

لڑکی اور بھی میرے قریب آ گئی اور دو تین ہفتوں کے بعد حالات کچھ ایسے بن گئے کہ میں جو کچھ کہتا لڑکی اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتی۔ انکار کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا، ایک مرتبہ میں نے لڑکی کو ایک امتحان میں ڈال دیا کہا آپ میرے لیے کیا کر سکتی ہو اُس نے کہا سب کچھ جو آپ چاہیں کیونکہ تمہارے جیسا بندہ پہلی مرتبہ میری زندگی میں آیا ہے میں نے کبھی آپ جیسے انسان کو نہیں دیکھا۔

اس سے میرا حوصلہ اور بھی بڑھا، میں سوچ رہا تھا کہ کام تو ستر فیصد ہوگیا سوچ رہا تھا مشن مکمل ہونے والا ہے اس طرح یہ سلسلہ جاری تھا لڑکی مکمل طور پر میرے شکنجے میں آ گئی تھی میں جو بھی کہتا وہ مانتی تھی ایک دن اُس نے مجھے کہا کہ اپنے والدین کو میرے گھر بھیج دو۔ لیکن میرا منصوبہ تو کوئی اور تھا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے لڑکی نے کہا میں آپ سے حد سے زیادہ پیار کرتی ہوں لڑکے نے اپنے دوست کو بتایا، کہ میں نے لڑکی کے سامنے ایک شرط رکھ دی میں نے کہا اگر تمیں یہ شرط منظور ہے تو میں آپ کے ساتھ شادی کے لیے تیار ہوں۔

لڑکی مسکرائی بولی کونسی شرط؟ میں نے کہا کہ شادی سے پہلے تم میری نفسانی خواہش پوری کرو۔ لڑکی حیران و پریشاں۔ اب بلا یہ کونسی شرط ہے لڑکی نے مجھے کہا کہ میرے اور آپ کے درمیان ایسی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہوگی، میرے ساتھ ایسا نہ کرو، میں ایسی لڑکی نہیں ہوں میرا دامن پاک ہے اور یہ کام لوگ شادی کے بعد کرتے ہیں۔ لڑکے نے کہا کہ تمہاری ساری تصاویر اور ویڈیوز میرے ساتھ لیپ ٹاپ میں سٹور ہیں میں جب چاہوں اس کو لیک کر دونگا لڑکی بہت زیادہ غصہ ہوئی لیکن کمزور تھی کچھ نہیں کر سکتی تھی اس کے پاس سماج، معاشرہ، رسم و رواج کا ڈر تھا۔

میرے ساتھ جو بندہ بیٹھا تھا وہ ان دونوں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی فلم میں ایک غمگین سین یا پارٹ ہو اور کمرے میں مکمل خاموشی ہو سب کی نظریں ٹیلی ویژن کی طرف ہوں۔ میں جس بندے کے پاس بیٹھا تھا اس کا حلیہ ایسا تھا کہ معاشرے کی نظر میں مکمل ابنارمل تھا۔ سب کہتے تھے یہ مینٹل ہے لیکن میری نظر میں وہ سو فیصد نارمل اور ٹھیک تھا۔ لڑکے نے دوست کو بتایا کہ لڑکی وہاں سے روانہ ہوئی جوں ہی لڑکی دو تین قدم آگے چلی، میں نے پیچھے سے زوردار آواز میں کہا میں ساری تصاویر و ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرونگا۔

یہ سن کر لڑکی واپس آئی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے منہ پر مارا اتنا مضبوط مارا کہ مارنے کی وجہ سے میں دو قدم پیچھے چلا گیا دوسرا دوست مسکرایا یار یہ تو فلم کی کہانی تھی۔ ہم دونوں اتنی زیادہ دور موجود نہیں تھے بلکہ قریب تھے۔ تھپڑ کی بات سن کر میں بیدار ہوا اور اپنے ساتھ باتیں شروع کی کہ اگر وہ لڑکی آج یہاں موجود ہوتی تو میں اس کو سلوٹ کرتا اسکی بہادری کو سلام پیش کرتا اور لڑکی کو کہتا کہ اگر دو تین تھپڑ اور بھی مارتی تو اچھا ہوتا میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔

کاش کہ ایسا ہو کہ جو کچھ بھی میں نے لکھا جتنے بھی اس کے پڑھنے والے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو اس بات کی سمجھ آ جاۓ کہ ان لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جو وقت گزارنا ہے یہ صرف وقت گزاری کے لیے ہوتا ہے۔ اگر تمام تر والدین اپنی بچیوں کی تربیت اس طرح سے کریں جس طرح سے اس کالم یا (افسانے) میں جس لڑکی کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا تو یقیناً کوئی بھی لڑکی کے جذبات کے ساتھ کوئی بھی لڑکا یا کوئی بھی نوجوان اس طرح سے نہیں کھیل پائے گا، کوئی بھی غیر مرد اس طرح ہماری خواتین کی عزتوں کو پامال نہیں کرے گا اور نہ اس کی کمزوریوں کے ساتھ کھیلے گا۔

بجائے اس کے کہ ہماری خواتین یا جتنی بھی لڑکیاں ہے اگر وہ اسی طرح سے جو کالم میں ذکر ہوا یا (جو افسانے میں ذکر ہوا) اس طرح سے وہ سوچنے لگے کہ کوئی اگر ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس طرح سے وہ سوچنے لگے کہ کوئی اگر انکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ تو بجائے اس کی اس کو ہاتھ میں دینے کے یا اس کا حصہ بننے کے ان کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کے ساتھ اس پر بات کریں اور بروقت اقدامات اٹھاتے ہوئے وہ بہت بڑے نقصان سے بچ سکتی ہیں۔

میں جس بندے کے پاس بیٹھا تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ کونسی کتاب میں لکھا ہے بلکہ خاموش بیٹھا تھا۔ ایسا لگا کہ وہ ایک دن اس پر تفصیلی بحث شروع کرے گا۔

(جاری ہے)

Check Also

Bhikariyon Ko Kaise Bahal Kiya Jaye?

By Javed Chaudhry