Monday, 16 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Sehat Ke Nizam Ki Kamzoriyan

Sehat Ke Nizam Ki Kamzoriyan

صحت کے نظام کی کمزوریاں

سوچتا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ ہمارے معاشرے میں ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر قلم اٹھا کر کچھ لکھا جائے اور وہ حل ہو جائے یا اس میں کوئی تبدیلی آئے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں ہر طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ پہلے زمانے میں جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا تھا، تو صحافی اس کی رپورٹ کرتے تھے، اعلیٰ عہدے داران تک خبر پہنچ جاتی تھی اور وہ کوئی حل نکال لیتے تھے۔ لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافت کا وہ مقام نہیں رہا جو برسوں پہلے تھا۔ اب ہر جگہ، چاہے وہ پرائیویٹ ادارہ ہو یا سرکاری، سب کے پاس سوشل میڈیا سائٹس ہیں اور انہی پر اچھی خبریں شیئر ہوتی ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں، وہاں مسائل ہی مسائل ہیں۔ سڑک پر چلتے ہوئے کھلا مین ہول سامنے نظر آتا ہے، شام کے وقت جب کوئی آدمی دفتر سے گھر واپس آتا ہے تو ٹرانسپورٹ کا بدترین نظام دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر جب گاڑی سے آدمی اترتا ہے تو گاڑی والے کرائے پر شور و بحث شروع کرتے ہیں۔ ایک ٹیکسی والا، مثال کے طور پر، پچاس روپے لیتا ہے اگلے روز دوسرا ستر روپے مانگتا ہے۔ اگر کوئی اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل پر جاتا ہے تو بھی راستے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ دوسری گاڑی غلط جگہ پر اوور ٹیک کرتی ہے یا کوئی موٹر سائیکل والا ون ویلنگ مین روڈ پر کرتا ہے یا بغیر سائیڈ شیشوں اور سائیڈ اشاروں یا لائیٹ کے روڈ پر ایسے چلتا ہے جیسے یہ سڑک اس کے باپ کا ہے۔ مطلب، قانون کو یہ لوگ ردی کا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔

کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ وہ ان حالات سے بہت تنگ تھا اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھے اپنے حادثے کی کہانی سنا رہا تھا۔ پوری کہانی سنتے ہی میں نے فوراً یہ فیصلہ کیا کہ میں اس پر کالم لکھوں گا تاکہ ہمارے حکام بالا اور حکمرانوں تک یہ خبر پہنچ سکے۔ آج کل اخبار کم لوگ پڑھتے ہیں، لیکن میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا۔

دوست نے بتایا کہ وہ روز موٹر سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ مین روڈ پر جا رہا تھا، اور گلی سے ایک شخص نکلا جو موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ وہ شخص اس سے تقریباً 10 میٹر کے فاصلے پر تھا۔ دوست نے اپنی پوری کوشش کی کہ بائیک کی رفتار آہستہ کرے، لیکن وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا اور دونوں موٹر سائیکلوں کی ٹکر سے وہ دونوں گِر گئے۔ سڑک پر موجود لوگوں نے انہیں اٹھایا، لیکن دونوں بائیکس کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ آخرکار اس شخص نے کہا کہ وہ چلا جائے، اسے بہت کام ہوں گے۔ وہ عمر میں دوست سے بڑا تھا۔ دوست نے بتایا کہ اس شخص نے اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی، بلکہ اس نے تین مرتبہ معذرت بھی کی اور اس کے ساتھ کھڑا رہا، لیکن اس شخص نے کہا کہ چلا جائے۔

دوست نے مزید بتایا کہ جب وہ موٹر سائیکل پر سوار ہوا تو اس نے سوچا کہ سڑک کے جراثیم بہت خطرناک ہوتے ہیں اور ان سے کئی بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ہسپتال جا کر ٹی ٹی انجکشن لگوا لے۔ حادثے کی جگہ سے ہسپتال 10 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ دوست نے کہا کہ جب وہ نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال، جو ٹیکنیکل ہسپتال کے نام سے مشہور ہے، پہنچا، تو پارکنگ کی جگہ نہیں تھی۔ اس نے سڑک کنارے بائیک کھڑی کی اور ہسپتال کے اندر داخل ہوا۔ لوگوں کی بڑی تعداد ہسپتال میں موجود تھی۔ اس نے ریسپشنسٹ سے کہا کہ اسے ٹی ٹی انجکشن لگوانا ہے۔ ریسپشنسٹ نے کہا کہ یہاں، اس ہسپتال یعنی سٹی ہسپتال میں، یہ انجکشن دستیاب نہیں ہے۔ دوست نے پوچھا کیوں؟ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

دوست نے بتایا کہ وہ ایمرجنسی وارڈ میں گیا جہاں تین ڈاکٹر جوس پی رہے تھے۔ اس نے اپنی صورتحال بتائی تو انہوں نے کہا کہ کاونٹر سے پرچی بنوا کر دوبارہ آئیں۔ دوست نے دوبارہ کاونٹر پر جا کر پرچی حاصل کی۔ جب وہ ایمرجنسی وارڈ میں واپس گیا تو پھر تینوں ڈاکٹر جوس پی رہے تھے۔ اس نے پرچی دی تو انہوں نے کہا کہ او ٹی میں جائے، لیکن دوست نے پوچھا کہ ٹی ٹی انجکشن ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ نہیں ہے۔ دوست نے پھر سوال کیا کہ کیوں نہیں ہے؟ تو ڈاکٹر نے سخت لہجے میں جواب دیا نہیں پتا۔

دوست نے بتایا کہ ایمرجنسی میں ایک ڈاکٹر نے ایک انجیکشن کا نام بتایا جو اس وقت اسے یاد نہیں، لیکن اس نے پوچھا کہ یہ کس چیز کے لیے ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ درد کے لیے ہے۔ دوست نے سٹی ہسپتال کی فارمیسی میں جا کر معلومات لی تو انہیں بتایا گیا کہ ٹی ٹی انجکشن دستیاب نہیں ہے۔ اس نے سوال کیا کہ اگر کوئی بڑا سانحہ پیش آئے تو کیا کریں گے؟ لیکن کسی نے جواب نہیں دیا اور اس نے دوسرا انجیکشن دیا اور کہا کہ وارڈ میں جائے۔ جب دوست وارڈ میں گیا تو وہاں نرسنگ اسٹاف کم اور ٹریننگ والے زیادہ تھے۔ اس نے ایک نرس کو وہ انجیکشن دیا اور پوچھا کہ آیا وہ نرس ہے یا انٹرن؟ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کچھ کہا۔

دوست نے کہا کہ اس نے اس نرس یا لڑکے سے کہا کہ سپرٹ، یعنی الکوحل، جو زخم صاف کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، چاہیے۔ نرس نے کہا کہ وہ لے کر آئے گا۔ دوست نے دیکھا کہ نرس۔۔ بنده وارڈ سے باہر گیا اور وہ بھی اس کے پیچھے گیا۔ ایک وارڈ میں، دوسرے میں، اور پھر تیسرے کمرے میں، جہاں ایک شخص کرسی پر براجمان تھا۔ اس نے کہا کہ کیا چاہیے؟ دوست نے کہا کہ الکوحل چاہیے۔ اس شخص نے جواب دیا کہ ہسپتال سے باہر جا کر فارمیسی سے الکوحل سٹرپ لے کر آئے، ہسپتال میں نہیں ہے۔

گورنمنٹ نصیر اللہ خان بابر ہسپتال کوہاٹ روڈ پر واقع ہے، لیکن سپرٹ اور ٹی ٹی انجکشن وہاں دستیاب نہیں ہیں، ہسپتال کی انتظامیہ اور شعبہ صحت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ہسپتال کی انتظامیہ اور شعبہ صحت کو اپنی پالیسیوں، طریقہ کار، اور خدمات کے معیار پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مریضوں کو بہترین اور محفوظ صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔

Check Also

Mukhtalif Mizajon Ke Sath Nabi Kareem Ka Inferadi Tarz e Amal

By Muhammad Saqib