Ye Sard Mausam Aur Bebas Log
یہ سرد موسم اور بے بس لوگ
دسمبر اور جنوری میں سردی کی شدت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ ہر طرف ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے بِلا کسی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ اس موسم میں سرد علاقوں کے لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر گرم علاقوں کے طرف رُخ کرتے ہیں، تاکہ سردی سے بچ سکیں، کچھ اس موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہاں اپنی راہشگاہ قائم کرلیتے ہیں۔ سردی آنے سے شہروں اور بازاروں میں رونقیں کم، محلے کے نوجوانوں کی سردی کی لمبی راتوں کی نشست گاہ کی محفلیں پرلطف نظر آتی ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں تو سردی گزرانے اور اس سے بچنے کے کچھ الگ ہی طور طریقے ہوتے ہیں، کھانے پینے کا طریقہ بنسبت دیگر موسموں سے الگ رہتا ہے۔
سردیوں کا یہ موسم کسی کے لئے خوشی کا باعث ہوتا ہے تو کسی کے لئے عذاب سے کم نہیں۔ سردی آنے سے پہلے ہم اس کے لئے پہلے سے اپنی چیزوں کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے لئے گرم سویٹر اور بوٹ خرید لیتے ہیں، اور کھلونے بھی ساتھ میں انکے لئے خریدتے ہیں تاکہ بچے باہر جانے سے باز رہیں۔ اپنے لئے بھی برانڈڈ چیزیں خرید لیتے ہیں تاکہ ہم خود کو سردی سے محفوظ کر سکے۔ سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس پر سٹوری لگا کر فیسبوک پر تصویریں ڈال کر اپنے صارفین کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔
کیا کبھی غور کیا ہے معاشرے میں ان بے بس و لاچار لوگوں کا جو گرم کمبل سے محروم ہوتے ہیں، وہ جو دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے دروازے پر چشم انتظار ہوتے ہیں، وہ جو اِس موسم میں گرم اشیا کھانے سے محروم ہوتے ہیں، وہ جو اپنے بچوں کو گرم سویٹر خریدنے سے بے بس ہیں، وہ لوگ جو اس موسم سے لطف اندوز ہونے کی تو دور کی بات وہ لوگ اپنے لئے اچھے گھروں میں رہنے سے بھی قاصر ہیں۔
اگر ہم اس سرد موسم میں اِن لوگوں کا سہارا بنیں تو ہمیں واقعتاً انسان کا شرف حاصل ہے۔ وہ لوگ جو فضول کاموں پر اپنے پیسوں کو خرچ کرتے ہیں اگر یہی لوگ اِن لوگوں کی آواز بنیں تو شاید اس نے معاشرے میں انسان ہونے کا حق ادا کیا۔ ہم ایسے لوگوں کو اکثر اوقات شہروں اور مختلف علاقوں میں دیکھتے ہیں جو اپنے مجبوری کے خاطر لوگوں سے امید لگا کر باہر نکلتے ہیں، کہ ہوسکے کوئی مدد کرے۔ یا پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے سہارے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ ایک انسان فرشتے کے روپ میں آکر ہمارا سہارا بنے۔
یہ تب ممکن ہوگا اگر ہم ایسے لوگوں کو اپنے آس پاس تلاش کریں، لوگوں سے پوچھیں اور لوگوں کو بتائیں یا پھر مشترکہ طور پر ایسے لوگوں کو معاشرے میں ڈھونڈ نکالیں، تب ممکن ہوگا۔ کیونکہ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کا ضمیر ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ کسی سے کسی چیز کی طلب کریں۔ لہٰذا ہمیں انکا سہارا بننا ہوگا۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو معاشرے میں اِس قسم کے لوگوں کو نظرانداز کرتے ہیں جوکہ سراسر انسانیت کی تذلیل ہے۔