Saneha Mach Zulm Ki Inteha
سانحہ مچھ ظلم کی انتہا
سال 2021 کے آغاز ہمارے ہاں بنسبت دیگر ممالک کے کچھ اس طریقے سے منایا جاتا ہے۔ وزیراعظم اپنے ایک تقریر میں خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ یہ سال ہمارا ترقی کا سال ہے لیکن یہاں ترقی کرنے والوں کی نسل کشی کررہے ہیں۔ اس سال کا آغاز ہزارہ کمیونٹی کو کچھ اس شکل میں موصول ہوا۔ کچھ دن پہلے مچھ میں 10 کان کن بہت بے دردی سے مار دیئے گئے۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہاتھوں کو پیچھے سے باندھ کر انہیں ذبح کردیا۔ یہ سب ایک ہی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں پانچ افراد اپنے آپس میں کزن اور ماموں زاد تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے بچوں کو رزق حلال کمانے کے لئے گھر سے نکلے تھے، یہ وہ لوگ تھے جو آپکے صوبے اور ملک کو ترقی دینے کے خاطر کام کرتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے دور حکومت میں اپنی رعایا سے فرما رہے تھے کہ اگر دریائے فرات (جوکہ عراق، تُرکی اور سریا سے ملتا ہے جس کا فاصلہ مدینہ سے ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل ہے) پر اگر میرے دور حکومت میں دریا کے کنارے پر کوئی بھوک یا ظلم کے مارے وہاں مرجائے تو میدان حشر میں میرا رب اس کا جواب مجھ ہی سے پوچھے گا تو میں اسے کیا جواب دونگا؟
لیکن یہاں مدینے کی ریاست میں حیوان تو دور کی بات یہاں انسانوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑے ہیں اور اپنے وزیراعظم سے انصاف کے طلب گار ہیں۔ آج ان لواحقین کا چوتھا دن ہے جو کوئٹہ کے 7- اور 8- کے اس سردی میں اپنی لاشوں کو لیکر وہاں کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ کیمپ کے لوگوں کے کئی مطالبات ہیں جن میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ وزیراعظم کوئٹہ آئے۔
لوگ اپنے لواحقین کے ساتھ دن رات وہاں پر موجود ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے دھرنا دینے والوں کا دورہ کیا، وفاقی وزیر علی احمد زیدی، معاون خصوصی وزیراعظم زلفی بخاری اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری یہ سب وہاں دھرنے میں مذاکرات کے لیے پہنچ گئے لیکن وہاں کے لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وزیراعظم خود آکر ہمارے ساتھ اس غم میں شریک ہوجائے تاکہ انکے لواحقین کو قلبی تسکین ملے، اور ہمارے مطالبات کا حل یقینی بنائے۔
معصومہ ہزارہ کے نام سے ایک عورت نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتی وقت کہہ رہی تھی کہ ہمارے خاندان میں جنازہ اُٹھانے والا کوئی مرد نہیں بچا یہ رہی ظلم کی انتہا۔
مشتاق حسین نامی لڑکا جو ایک غریب گھرانے سے منسلک رکھتا تھا وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتا تھا، اور میٹرک کے امتحانات میں اس نے 1053 نمبر لیکر 3rd پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ اس صوبے اور ملک کو دو طرح کی ترقی دے رہا تھا ایک تو کام کرکے اور دوسرا تعلیم حاصل کرکے اس ملک کا نام روشن کرنا چاہتا تھا۔ غرض یہاں لوگوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ شاید ہی کسی کے ساتھ کبھی ایسا پیش آیا ہو۔
صوبہ بلوچستان ہمیشہ سے ظلم اور جبر کا شکار رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے ساتھ لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، ناحق قتل جیسے ظلم ہوتے ہیں۔ جس پر حکومت وقت انکے لواحقین کو تسلیاں دیتے ہیں۔ اس صوبے کے تین کمیونٹی پشتون، بلوچ اور ہزارہ کو ہمیشہ سے دہشت گرد، ملک کا غدار، آئینی دشمن، مذہب اور فرقہ واریت کا دشمن سمجھ کر اسے قتل کئے جاتے ہیں۔
آخر کب تک اس صوبے کے عوام اس ظلم جبر کے شکار رہے گے؟ یہاں کے ہر مذہب اور فرقہ سے منسلک رکھنے والے لوگ امن، ترقی، خوشحالی، حفاظت اور اپنے ساتھ پیش آنے والے ظلم کا انصاف آئین اور قانون کے تحت چاہتے ہیں۔ اس ملک میں ہر کمیونٹی کو جینے کا حق دو نہ کہ اس ظلم جبر کے ساتھ، خدانخواستہ اس قوم کا نوجوان نسل کل کو غیر آئینی راستہ اختیار کریں تو اس ملک کا مستقبل کیا بنے گا؟