Sifarshat Baraye Sanati Taraqi
سفارشات برائے صنعتی ترقی
وطن عزیز بے شمار قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔ برف پوش پہاڑوں کی شکل میں پانی کا ذخیرہ موجود ہے جو موسم گرما میں پگھل کر قریباً 8 لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلے علاقے کی آبی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ چونے کا پتھر، خام لوہا، نمک، کوئلہ پٹرولیم، گیس اور بے شمار دوسری معدنیات کے ذخائر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا ذخیرہ افرادی قوت کا ہے جو پاکستانی آبادی کا 62 فی صد ہیں۔
کراچی سے گوادر تک 650 کلومیٹر طویل ساحل موجود ہے جس میں کئی گہرے پانی کی بندرگاہیں بن سکتی ہیں اور سمندری ہوا کو استعمال کرکے ہوا چکیوں سے بجلی بنائی جاسکتی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کا مقبول ترین کاروبار پلازے اور فلیٹ بنا کر کرائے کھانا ہے؟ اس مضمون میں اس معاملے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہمارے ملک میں کوئی بھی کاروبار کرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ایک ماچس کی فیکٹری لگانے کے لئے چھتیسیوں دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور طرح طرح کی منظوریاں لینی پڑتی ہے۔ منظوری ہونے کے بعد جب فیکٹری شروع ہو جاتی ہے تو سرکادی اہلکار آدھمکتے ہیں اور یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سائن بورڈ لگانے پر بھی ٹیکس ہے، اور اکثر اس اہلکار کو سرکاری خزانے میں ٹیکس جمع کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور وہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ اس کے کچھ مزید دن بعد کوئی اور صاحب تشریف لے آتے ہیں غرضیکہ افتادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو بسا اوقات کارخانے کی بندش یا کسی ہمسایہ ملک میں منتقلی پر منتج ہوتا ہے اور ہر دو صورتوں میں بیروزگاری ملک کے طول وعرض میں پھیل جاتی ہے اور غربت کے سائے گھر گھر اتر آتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ارباب حکومت کی خدمت میں چند سفارشات پیش کی جا رہی ہیں جن پر عمل درآمد کرنے سے صورتحال میں بہتری کے واضح امکانات موجود ہیں۔ پہلی گزارش یہ ہے کہ کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور نوجوانوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنا کاروبار جما سکیں۔ دوسری بات ہی ہے کہ تمام کاروباروں کے لئے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے، کمپنی رجسٹریشن، نادرا، محکمہ مال، محکمہ صحت، ماحولیات، منصوبہ بندی، سائن بودڈ، ایف بی آر، پاکستان انجینرنگ کونسل، بینک اور دیگر تمام ادارے جن کی منظوریاں درکار ہوتی ہیں، کے کھوکے (kiosk) بنا دئے جائیں تاکہ نئے کاروباری خواتین و حضرات کو فائلیں اٹھا کے ایک ایک دفتر بھاگنا نہ پڑے۔ انھی کاروباری سہولت مراکز میں مقامی نجی کمپنیوں کی حوصلہ افرائی کی جائے کہ وہ وہاں کھانے پینے، فوٹو کاپی، بچوں کی کھیلنے کی جگہ اور دیگر سہولیات مہیا کریں تاکہ اس کا فائدہ سب لوگ اٹھا سکیں۔
تیسری سفارش یہ ہے کہ گھریلو خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے، کاٹج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ ٹشو پیپر، ڈسپوزیبل برتن، ٹافیاں، بچوں کی پیمپر، خواتین کے پیڈز، پنسل، شارپنر اور ہزاروں دیگر ایسی مصنوعات ہیں جن کے پلانٹ ایک 3 مرلہ مکان کی چھت پر بھی لگ سکتے ہیں اور عام گھریلو خواتین آرام سے ان کو چلا سکتیں ہیں۔ ہم موجودہ دور میں دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی اور انسانی بنیادوں پر عوام نے غیر ملکی مصنوعات کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے مقابل مقامی معیاری مصنوعات مارکیٹ میں آگئی ہیں۔ اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیئے اور بتدریج مقامی مصنوعات کا معیار اتنا بلند کرلیا جانا چائیے کہ کسی بھی بین الاقوامی پراڈکٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں ایک تو سستی مصنوعات دستیاب ہونگی اور کثیر زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے، ہر کاروبار کے ساتھ کوالٹی کنٹرول کا جامع نظام لازم قرار دیا جائے۔
اس سلسلے کی چوتھی گزارش ہے کی کچرے کی ترتیب (waste management) کا نظام بنایا جائے جو بدقسمتی میں ہمارے ملک میں ناپید ہے۔ اس نام سے جو برادر اسلامی ملک سے آئی گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں وہ بھی ادھورا کام کرتی ہیں اور ہر شہر کا کچرا نزدیکی دریا میں ڈال کر بری الزمہ ہو جاتی ہیں جو کچرا آبی اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ متعدد اقسام کے سالڈ ویسٹ مثلاً پلاسٹک کی خالی بوتلیں، شاپنگ بیگ، پانی کے ٹوٹے پائپ، سکریپ ٹائر، پلاسٹک کی خراب گھریلو مصنوعات اور دیگر کو کنکریٹ میں ڈال کر سیمنٹ اور سریا کی بچت کی جاسکتی ہے اور پلاسٹک سے متعلقہ ماحولیاتی آلودگی میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس میں پلاسٹک کی بنی ایک ایسی سڑک موجود ہے۔ اس نظام کو رائج کرنےکے لئے یونیورسٹیوں اور انڈسٹریز کو مل کر چلنا ہوگا تاکہ طلبا و طالبات کی تحقیق صرف لائبریریوں کی زینت بننے کی بجائے فائدہ مند ہو سکے۔
سفارش نمبر 5 یہ ہے کہ وطن عزیز کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے جہاں آج بھی فرسودہ طریقے رائج ہیں۔ حکومت بڑے زمینداروں کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کروائے اور پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کی سفارشات کو چک شہزاد کے باغات سے نکال کر قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ چھوٹے زمینداروں کے لئے خوشحالی بینک جیسے مزید اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جو آسان اقساط پر بلا سود قرض فراہم کریں تاکہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے زرعی پیداوار بڑھائی جا سکے۔
مندرجہ بالا سفارشات پر عمل پیرا ہوکے ہی دنیا میں آگے بڑھا جاسکتا ہے، ورنہ قوم کا پسندیدہ کاروبار پھرسستے پلاٹ لے کر مہنگا بیچنا اور پلازے بنا کر کرائے کھانا ہی رہے گا۔