Na Shukri Ka Rivaj
ناشکری کا رواج
ہمارے پاکستانی معاشرے کو جس امر نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ قومی ناشکری ہے۔ کارخانہ دار سے دہاڑی دار تک سب رورہے ہیں۔ ہزاروں بسوں کا مالک بھی رورہا ہے اور اس کا تنخواہ دار ڈرائیور بھی، حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ دونوں چھت کے نیچے اور کھانا کھا کرہی سوتے ہیں۔ جن لوگوں کا یورپ آنا جانا لگا رہتا ہے، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستانی موٹروے جیسی سڑکیں زیادہ تر یورپی ممالک میں ایک خواب کادرجہ رکھتی ہیں۔ کینیڈا کے برف زاروں میں لوگ دھوپ اور زرخیز زمین کو ترستے ہے اور ہر دو وافر مقدار میں ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں، مگر کینیڈا کی ترقی کی رفتار اور ہماری سست روی میں تفاوت کا ذمہ دار یہی ناشکری کی عادت ہے۔
محنت اور ایمانداری سے عاری یہ ہجوم بزعم خود دنیا کا لیڈر بننے چلا ہے، جبکہ قائدانہ صلاحیتوں میں سے بنیادی شکر گزار ہونا ہے۔ گھروں میں قدرتی گیس کے استعمال کی عیاشی صرف وطن عزیز میں ہے، وگرنہ ترقی یافتہ ممالک میں 80 فیصد گھروں میں گیس سلنڈر ہی مستعمل ہیں۔ سولر سسٹم کی ارزاں نرخوں پر دستیابی کے باوجود سرکاری بجلی پر انحصار ہمارا قومی وطیرہ ہے۔ بجلی کے استعمال میں بھی احتیاط ملحوظ خاطر رکھنے سے اچھی خاصی بجلی کی بچت ہوسکتی ہے مگر نوابی شان کے خلاف ہے کہ فالتو بتیاں بجھا دی جائیں۔
کاروباری مراکز میں بجلی کے بے جا استعمال پر کوئی قدغن نہیں۔ دکانوں کے نی اون سائنز کو فلوریسنٹ پینٹ سے بدلا جاسکتا ہے۔ دن کو جلد دکانیں کھول کر رات میں بجلی کی بچت ہو سکتی ہے، جن سے بند کارخانے چلائے جاسکتے ہیں مگر ایسا کرنے سے ہماری عمومی شان اور عظمت گھٹ جاتی ہے۔ برصغیر کے بادشاہوں والی عادات ہم میں سے نکل نہیں پا رہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ لٹ جانے کا راگ الاپنا ہمارا عمومی شیوہ ہے۔
خدارا اس زعم سے نکلیں کہ دنیا میں صرف پاکستانی ہی ذہین قوم ہیں، کیونکہ مستثنیات کو چھوڑ کے ملک میں بسنے والے اکثر لوگ ان پڑھ اور کم عقل ہیں۔ محنت کے بنا کوئی فرد آگے بڑھ سکتا ہے نہ کوئی قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔ تمام شہریوں کو اجتماعی شکل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چائیے اور اپنی زندگی میں میسر تمام نعمتوں کے لئے سپاس گزاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر رکھنا چائیے۔ صبر، محنت اور ایمانداری سے مسلسل جدوجہد جاری رکھنا ہی دنیا میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے جس پر چلنے کے سوا چارہ نہیں۔