Joint Family System Ke Nuqsanat
جوائنٹ فیملی سسٹم کے نقصانات
معاشرے میں پائی جانے والی ایک انتہائی اہم خرابی پر دل آج سخن وری پر آمادہ ہے، جس کے سائے پوری طرح سے نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی فرسودہ روایات ہیں۔ اس سلسلہ میں جس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کی جا رہی ہے وہ انتہائی نازک معاملہ ہے۔ اس سلسلہ میں قارئین کرام سے گزارش ہے کہ یہ ٹھنڈے دماغ سے پڑھنے والی تحریر ہے اور اس سے کسی فرد یا طبقے کی دل آزاری مقصود نہیں ہے۔
ہمارے وطن عزیز میں جن موضوعات پر بہت کم لکھا گیا ہے ان میں سر فہرست مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) ہے۔ سب سے پہلے اس نظام کی بنیاد کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی زندگیوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج بھی عرب ممالک میں رہنے والے عرب، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ گھر میں رہتے ہیں اور اپنی ماؤں کو الگ گھر میں ٹہراتے ہیں۔
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ساس، بہو سے متعلق احادیث کونسے باب میں ہیں؟ ان احباب سے گزارش ہے کہ ایسی کوئی احادیث اس لئے موجود نہیں کیونکہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام کو سپورٹ نہیں کرتا۔ بلکہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ نوجوان شادی شدہ جوڑے اپنے گھر کا الگ بندوبست کریں۔
مشترکہ خاندانی نظام کا تصور ہندوستانی روایات میں ہے، جسکا بنیادی مقصد زمین جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔ ہندو ازم کے زیر اثر اس نظام کا فائدہ سوائے اس کے، کہ ماں اپنے چھوٹے بچے کو کچھ دیر کے لئے اسکی دادی یا دادا کے پاس چھوڑ کے جا سکے، کچھ بھی نہیں۔ نقصانات کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میں عورتوں کا نامحرموں مثلاً دیور اور جیٹھ سے کھلم کھلا اختلاط، نوجوان کزنز لڑکے لڑکیوں کا آپس میں میل جول۔
نو بیاہتا دلہن کو پورے گھر کی نوکرانی بنا دینا، میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات تقریباً ناممکن ہو جانا، سگے بھائی بہنوں میں جھگڑوں کا بڑھنا اور معمولی باتوں جیسے بجلی کی بل کی ادائیگی وغیرہ پر ہر روز کشیدگی رہنا، مشترکہ مکان کی مرمت نہ ہونے کے باعث اسکا بوسیدہ ہونا اور بعض صورتوں میں زنا اور لواطت جیسے قبیح افعال کا ارتکاب سر فہرست ہے۔
اس سلسلہ میں میری مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ ماں باپ کی خدمت ان پر فرض ہے، ناکہ ان کی بیویوں پر۔ خاص طور پر ہمارے وہ بھائی جو شادی کر کے خود تو بیرون ملک مقیم ہو جاتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر مواقع پر ان کے بچوں میں باپ کے ساتھ نہ ہونے کے باعث احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے جو بعد ازاں انکی زندگیوں میں ایک سوہان روح بن جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہماری گزارش ہے، کہ اس فرسودہ ہندوانہ نظام سے نکلیں، اور جو لوگ بڑا گھر کرایہ پر لینا یا خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے وہ چھوٹے گھروں کو رواج دیں۔ والدین میں سے ایک کے گزر جانے کے فوراً بعد آ بائی مکان کو فروخت کر کے تمام حصہ داروں کو حصہ دے دیا جائے۔ والدین بچوں کی شادیاں کرنے سے پہلے انہیں الگ گھر لینے پر مجبور کریں، تاکہ اس قبیح نظام کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔