Asal Qaumi Beemari Aur Iska Ilaj
اصل قومی بیماری اور اسکا علاج
کچھ روز پیشتر کچھ انتہائی پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ ہمیشہ کی طرح ہم پاکستانیوں کا پسندیدہ موضوع چھڑ گیا۔ ایک صاحب نے نام نہاد بیروزگاری اور مہنگائی کا رونا رویا۔ ایک خاتون، جو نہ جانے کب سے ایک طلاطم کو پال رہی تھیں، پھٹ پڑیں اور حاظرین محفل کے پاس ان سے متفق ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ان کے وچار ہم آج کے مضمون میں سمونے کی کوشش کریں گے۔
انھوں نے فرمایا کہ وطن عزیز میں بیروزگاری صفر فیصد ہے۔ جس کا رونا رویا جاتا ہے وہ بیروزگاری نہیں، بلکہ ہٹ دھرمی اور کاہلی ہے۔ پورے پاکستان میں لگ بھگ اکیس ہزار چھوٹے بڑے تعمیراتی منصوبہ جات جاری ہیں اور وہ سب افرادی قوت کی کمی کے باعث سست روی کا شکار ہیں۔ راولپنڈی کی مری روڈ سے کراچی کی طارق روڈ تک ہر جگہ دکان پر کام کرنے والے لڑکے کی اسامی 90 فیصد دکانوں، ورکشاپوں اور بیکریوں پر خالی ہیں، مگرکوئی امیدوار نہیں ملتا۔
پاکستان ریلوے کے اکثر سب ڈویژن میں مزدوروں کی اسامیاں خالی ہیں مگر کام کے لئے مزدور نہیں ملتا۔ کسی پڑھے لکھے نوجوان کے لئے چپس کی ریڑھی لگانا، سبزی اور پھل بیچنا یا کباڑ کا کم کرنا کسی گالی سے کم نہیں، حالانکہ ان سب کاروباروں میں کسی ابتدائی رقم کی چنداں ضرورت نہیں۔ صبح اٹھنے کو کوئی تیار نہیں۔ دن کی روشنی ضائع کرکے رات کو بتیاں جلانے والا ہجوم بجلی کی گرانی کا رونا بھی رو رہا ہے اور وقت مقررہ سے پہلے بجلی کا بل بھی جمع کروا رہا ہے۔
ہر پٹرول پمپ پر گاڑیوں اور موٹر سائکلوں کا جم غفیر ہے، حالانکہ بقول شخصے پٹرول بہت مہنگا ہے۔ ہفتے کے اختتام پر اسلام آباد ٹول پلازہ عبور کرنے میں 30 سے 40 منٹ لگتے ہیں، حالانکہ وہاں 18 ٹول گیٹ ہیں۔ مگر ملک دیوالیہ ہورہا ہے۔ سریا 3 لاکھ روپے ٹن اور سیمنٹ 1190 کی بوری ہونے کے باوجود دھڑا دھڑ مکان، دکانیں اور پلازے تعمیر ہورہے ہیں، لیکن مہنگائی بہت ہے۔
اللہ سے ڈر جائیں اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ کبوتر، بلی کو دیکھ کر اگر آنکھیں بند کر لے تو اس سے بلی سے جان تو نہیں چھوٹ جائے گی۔ پوری قوم کو سحر خیزی کی طرف آنا ہوگا۔ صبح چھ بجے سے شام چھ بجےتک کاروبار کا وقت ہونا چاہئے تاکہ دن کی روشنی کا بھرپور استعمال کیا جاسکے اور لوڈشیڈنگ اور بجلی کے وسیع و عریض بلوں سے نجات حاصل ہو۔ کاروبار سے جھوٹ، دغا بازی اور چوری کا خاتمہ ہو۔ سفارش کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
سرکاری ملازمین خصوصا پولیس ملازمین اپنے اخلاق کو بہتر بنائیں۔ والدین 15 سال اور ان سے زیادہ عمر کے بچوں کو پیسے کمانے کی طرف راغب کریں اور ان کے قدرتی رجحان کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی آزادی دیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں تصور کیا جائے اور ہر دو کو تعلیم اور ملازمت کے یکساں مواقع ہوں۔ ان تمام اقدامات کے مثبت نتائج آتے آتے 50 سال لگ سکتے ہیں لیکن ملک کی گاڑی کا رخ تو سیدھا ہو سکتا ہے۔