Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Siasi Bandobast, Deeni Ya Secular

Siasi Bandobast, Deeni Ya Secular

سیاسی بندوبست، دینی یا سیکولر

سیاسی شعور کسی بھی ریاست کی بقا اور بڑھوتری کے لیے اتنی ضروری ہے جتنا خاکی جسم کے لیے فعال دل و دماغ کا موجود ہونا۔ ریاستی سطح ہر کسی بھی قسم کے سیاسی عمل کا ناپید ہونا معاشرے کے مردہ ہونے کی دلیل ہے۔

ذیل میں کیا جانے والا تبصرہ "سیاسی بندوبست دینی یا سیکولر؟" کے عنوان سے چند روز قبل "دی بلیک ہول" کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد میں منعقد والی نشست پر ہے۔ جس میں ماہر تعلیم حاشر ابن ارشاد نے سامعین سے اس موضوع پر اظہار خیال کیا اور بعد ازاں شرکاء سے سوال و جواب بھی کیے گئے۔

انٹرنیٹ پر سماجی رابطہ ذرائع کی بہتات سے معلومات کا سیلاب بہہ رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ معلومات تک باآسانی رسائی میں بھی یقینی اضافہ ہوا ہے۔ سماجی میڈیا رابطوں کا منفی پہلو جعلی معلومات اور پراپیگنڈا کی کثرت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے لوگ سماجی رابطہ ذرائع پر معاشرتی، مذہبی و سیاسی وابستگی کو لے کر اپنے آباء سے زیادہ متشدد ہیں۔

سماجی میڈیا رابطوں کا مثبت پہلو یہ ہے۔ ایسے موضوعات جن کی عام عوام تک رسائی اور پھر ان پر مکالمہ کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ ان موضوعات کے متعلق قابل فکر مواد اور معلومات میں اضافہ ہو رہا۔ یہ مواد و معلومات مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہیں۔ جس سے تقابلی جائزہ کرنے اور پہلے سے رائج رسومات، روایات اور قوانین کو سمجھنے میں بہتری آ رہی ہے۔

نشست کا بنیادی سوال تھا:

کسی بھی ریاست کا سیاسی بندوبست دینی ہو یا سیکولر؟

سب سے پہلے لفظ سیکولر کی تعریف لازمی ہے۔ سیکولرازم اپنی نوعیت کا ایک سیاسی نقطہ نظر ہے جس کے مطابق ایک سیکولر ریاست سے مراد۔ ایسی ریاست جس کے انتظامی، معاشی، معاشرتی، قانونی اور سیاسی معاملات مذہبی اجارہ داری سے آزاد ہوں۔ ریاست اپنے امور و انتظامی فیصلے سماجی و معاشرتی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر طے کرے۔

مقرر کی جانب سے دیے جانے والے لیکچر، بعد ازاں مکالمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کسی بھی ریاست کے سیکولر ہونے میں اسکی بقا کا عنصر مضمر ہے۔ اسکے حق میں دلائل یہ ہیں مذہبی ریاست میں شہریوں کے حقوق کی ضمانت اور ان کا تحفظ مذہبی احکامات و قوانین سے مشروط کر دیے جاتے ہیں جبکہ کوئی بھی ریاست بین المذاہب شہریوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مذہب میں دنیاوی جزا و سزا کے ساتھ ساتھ موت کے بعد دوسرے جہاں کی تیاری اور وہاں کے معاملات کی ترغیب بھی شامل ہے۔

کسی بھی ریاست کو اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالم اسباب میں موجود اسباب پر انحصار کرنا چاہیے۔ کوئی بھی ریاست کسی شہری کو موت کے بعد یا دوسرے جہاں میں ہونے والے معاملات کو بنیاد بنا کر اس کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ ایک مذہبی ریاست کسی مخصوص مذہب، عقیدے یا مسلک کے تحفظ کو مقدم رکھے گی جس کے نتیجے میں دوسرے مذاہب، عقائد اور مسالک کے پیروکاروں کی حق تلفی یقینی امر ہے۔

مذہب یا عقیدہ پر کاربند رہنا ہر فرد کا پیدائشی، آئینی، قانون اور سماجی حق ہے مگر بطور ریاست کسی مخصوص مذہبی قوانین کا اطلاق یقینی طور پر معاشرے میں عدم توازن اور عدم برداشت کو جنم دے گا۔ مذہبی پیروکار بھی اپنے عقائد پر کاربند رہ کر بطور مثبت شہری سماج میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے سب سے پہلا اور بنیادی اصول تمام عقائد کا احترام، تمام مذہبی پیروکاروں کو عبادات و رسومات میں مکمل آزادی والا ماحول مہیا کرنا ہے۔

مذہبی پیروکار اپنے عقیدہ کی جانچ پڑتال کا مکمل حق کر رکھتا ہے، جس کا آغاز وہ ان عقائد اور روایات کر ترک کرنے سے کر سکتا ہے ہو جو لاشعوری انداز میں روزمرہ زندگی کا حصہ بنا دی گئی ہیں۔ تمام مذاہب و مسالک کا غیر جانبدار مطالعہ اور تقابلی جائزہ کسی بھی مذہبی پیروکار میں رواداری اور باہمی احترام کو ترویج دے سکتا ہے۔

پرانے زمانے میں "اپنا عقیدہ چھوڑو نہ کسی کے عقیدہ کو چھیڑو نہ" جیسے اقوال امن و بھائی چارے کے فروغ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ ایک ذمہ دار فلاحی شہری بننے کے لیے اپنے اور دوسروں کے عقائد میں موجود مثبت پہلوؤں کو اپنانے کی ترغیب سے ہی معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

کس بھی عقیدہ کے پیروکاروں سے ازسر نو نئے عقیدہ کو اپنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بچپن سے ہمارے اذہان کے کورے کاغذوں پر دین اور عقیدے کی جو تصاویر کھینچی جا چکی ہیں ان کو مسخ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ واحد ممکن حل یہی ہے وہ مذہبی تصاویر جو پکاسو کے "ایبسٹریکٹ آرٹ" کی مانند ٹیڑھی اور بے ہنگم نظر آئے، ضرورت کے پیش نظر بہتری لا کر ونسنٹ وین گوگ کے ہم پلہ شاہکار تخلیق دیا جا سکتا ہے۔

اخلاقیات چونکہ ہر معاشرے کا بنیادی جزو ہے اسلیے کم و بیش چار ہزار مذاہب میں اخلاقیات کلیدی جزو کی مانند ہیں۔ ایسا مذہب جو غیر اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ ہو گا اسکی تبلیغ تو درکنار اور اسکا وجود رکھنا ناممکن ہے۔ عقائد کا اخلاقی معیارات سے آزاد ہو کر تعلیمات دینا ایسے ہے جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔

تمام مذاہب ایک خاص خطے اور معاشرے میں موجود افراد کے اخلاقی و سماجی معیارات پر مشتمل تعلیمات کا مجموعہ رکھتے ہیں۔ جب مذہب مخصوص خطے اور سماج کی حدود سے باہر پھیلتا ہے تو اسکو مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام کی بطور مذہب مثال لیں تو یہ اس دین کی تعلیمات خطہ عرب کے لوگوں کے اخلاقی، سماجی و معاشرتی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل پائی گئی۔

اسلام کے تمام احکامات، ہدایات اور قوانین میں عرب معاشرے کی جھلک نظر آتی ہے جن کو وجود قبل اسلام بھی تھا۔ اسلام نے صرف غیر انسانی روایات کو متروک کر دیا جس کے باعث عرب میں بت پرستی کی جگہ لینے میں کامیاب ہو سکا۔ غلامی کا تصور قبل اسلام بھی موجود تھا چونکہ اس عمل کی اس دور کے تمام قبائل، ریاستوں اور بادشاہتوں میں کوئی ممانعت نہیں تھی اسلیے اسلام میں غلامی کے خاتمے کی بجائے غلاموں سے حسن سلوک اور معاشرے میں برابری کی تعلیمات کو دین کا حصہ بنایا گیا۔

کسی بھی مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے قبل اسکا پس منظر جاننا بہت ضروری عمل ہے وگرنہ مذہب کا واحد مقصد صرف گناہ و ثواب کمانے کا ایک ذریعہ رہ جائے گا۔ مذاہب کو انسانی زندگی گزارنے کا واحد حل ہونے کے لیے لازم ہے انسانی شعور اور ارتقاء کے ساتھ ہم پلہ رہیں، تاکہ مذاہب ان کی بقا ممکن ہو سکے۔

ہماری قوم کے سیاسی شعور کی عکاسی کی واضح دلیل ہے کہ ہمارے نزدیک سیاست ایک گندے دھندے کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ درحقیقت سیاست ریاستی امور انجام دینے کے لیے ایک منظم و غیر منظم طریقہ کار کا نام ہے۔

بلاشبہ مذہبی پیروکاروں کے افعال و اقوال کے موازنے سے مذاہب کے بہتر اور برتر ہونے کی رائے دینا کم عقلی ہے، بلکل اسی مانند سیاستدان کے افعال و اقوال کے موازنے سے کسی بھی سیاسی نظام کے متعلق رائے قائم کرنا بھی کم عقلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سیاست کو کاروبار کی بجائے بطور نظام سمجھنے سے سیاسی شعور کا آغاز ہو گا۔

دنیا کی تاریخ میں صرف وہی قومیں سیاسی ارتقاء سے انسانی بہتری میں حصہ ڈال سکی ہیں جن کے بنیادی ریاستی اصول انسانی اخلاقیات پر استوار تھے۔ وہ تمام معاشرے جن کی بنیاد یا اساس کسی مذہبی جانبداری پر محیط تھی، ان سماج کو تبدیلی یا بہتری کے لیے خونی انقلاب کا مزا لازمی چکھنا پڑا۔ وہ انقلاب عالمی جنگ کی صورت میں ممکن ہو یا انقلاب فرانس کی صورت میں۔

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi