Qissa Aik Pak Mohabbat Ka
قصہ ایک پاک محبت کا
شادی کے بعد ایک لڑکے کو اپنی محبوبہ کی جانب سے اقرار نامے پر مشتمل خط موصول ہوتا ہے۔ جس میں اسکی محبوبہ اس کو اپنی پاک محبت یعنی باطنی محبت کا یقین دلاتی ہے۔ مگر ساتھ ہی اس سے درخواست کرتی ہے کہ اب وہ مزید جسمانی تعلق استوار رکھنے سے قاصر ہے۔
(محبوب کا اپنی محبوبہ کے نام جوابی خط)
السلام علیکم۔
پیاری محبوبہ!
آپ کا گزشتہ روز خط موصول ہوا، یہ خط میں میرے لیے چونکا دینے والے انکشافات کا پروانہ ہے۔ سب سے حیران کر دینے والا اور چونکا دینے والا انکشاف؛ آج تک میرے جسم سے کوئی لگاؤ نہیں رہا، آپ کی محبت، رجحان، میلان اور لگاؤ سب روح کی حد تک تھا۔ یعنی ایک انداز سے آپ اپنے لگاؤ کو باطنی ثابت کرکے رب کی خوشنودی سے تعبیر کر رہی ہیں۔ جسم سے لگاؤ نہ ہونے کے باوجود، میرا چہرہ جسکو پہلی بار دیکھ کر آپ رب کی کاریگری پر حیران ہوئی، وہ بھی تو اسی جسم کا حصہ ہے۔ یا تو آپ کی محبت عملی طور پر تضادات کا مجموعہ یا پھر آپ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔
میرا ذاتی خیال آپ کا اشارہ جسمانی تعلق کی بجائے جنسی میلاپ کی جانب ہے۔ جس سے دلچسپی نہ ہونے کا اظہار آپ نے اپنی شادی سے قبل متعدد بار کیا۔ مگر شادی کے بعد میں نے اس تصور کے زیرِ اثر، کہ اب آپ نے جنسی عمل کے تجربات کو صرف زبانی نہیں، عملی طور پر محسوس کیا ہے۔ اس لیے اب جسمانی تعلق قائم نہ رکھنے کی کوئی منطقی وجہ باقی نہیں رہتی۔ آپ کے تعلق میں ہمہ وقت یہ اظہار بدرجہ اتم موجود رہا کہ آپ باقی عوامل کے مقابل جنسی میلاپ کے معاملے میں محدود رہنے اور جھجھک محسوس کرتی تھی۔ کافی اصرار اور موقع میسر ہونے پر ملاقات ہوتی تو اس میں بھی رابطہ صرف دو حسّیاتی یعنی صوتی اور سماعتی تعلق تک محدود رہتا تھا۔
میرے لیے انکشاف اسلیے بھی چونکا دینے والا ہے مجھے یہ اندازہ بلکل نہیں تھا کہ آپ کو حقیقت میں ذرہ برابر بھی میرے جسم سے لگاؤ نہیں۔ (آپ کے شادی شدہ ہونے کے بعد) ہماری جسمانی میلاپ والی ملاقاتوں کا آغاز ہوا اور ہم دونوں نے جسمانی تعلق کے نتیجے میں پیش آنے والے تجربات سے سیکھنے کے عمل کا آغاز کیا۔ اگر عین اس موقع پر جں ہماری اس نوعیت کی پہلی ملاقات پر، آپ جسم سے لگاؤ نہ ہونے کا اظہار کر دیتی تو شاید جسمانی میلاپ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
میں اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں حقیقت سے کترانے والا یا بھاگنے والا کردار کبھی نہیں رہا۔ زندگی کے پیشہ وارانہ دور میں داخل ہونے سے قبل چند مشاغل؛ جن میں سیر و تفریح کرنا، نوجوان کے ہمراہ اٹکھیلیاں کرنا، نوجوان لڑکیوں کی جانب واجبی رغبت وغیرہ شامل ہیں، یہ زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ اوائل جوانی میں بھی میرا مخالف جنس کی جانب رجحان یا میلان فقط واجبی سا تھا، صرف نظروں سے تاڑنے کی حد تک۔
کیونکہ میں آج بھی اس فطرت کا قائل تھا کہ دو مخالف جنس اجنبی لوگوں کا ایک طے شدہ انجام والی منزل پر سفر طے کرنا، وقت کا ضیاع اور جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا استحصال ہے۔ جونہی پیشہ وارانہ زندگی میں قدم رکھا تو مشاغل بدل گئے۔ ادب، تحقیق، مشاہدہ اور زندگی کو سمجھنے کے عوامل کی جانب جھکاؤ بڑھ گیا۔ جس کے لیے پڑھنے، سننے اور مشاہدے کے عمل میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے نتیجے میں ذاتی معلومات، نظریات اور سوچ کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔
جوں جوں تحقیق کی جانب قدم بڑھایا، لوگوں سے مکالمہ و تبادلہ خیال ہوا۔ تو مذہب اور سماج کی نافذ کردہ جھوٹی تقدیس کا پردہ چاک ہوگیا۔ نتیجتاً باطنی سے زیادہ وجود رکھنے والی حقیقی دنیا کے معاملات کی جانب رحجان بڑھا اور حقیقت پسندی پر اعتقاد اور بڑھتا چلا گیا۔ جس پاک محبت کا آپ نے اقرار و اظہار اپنے خط میں کیا۔ شاید اوائل جوانی میں اس پر یقین کر لیتا، مگر عمر کے اس حصے میں اسکا شدید ناقد اور منکر ہوں۔
جس باطنی تعلق کی آپ مالا جھپ رہی ہیں اس جہاں میں اسکا وجود صرف جسم کی بدولت ہے۔ اگر جسم نہ ہو تو خواہ کتنی ہی نیک روح ہو وہ کلام کرنے سے قاصر ہے۔ کسی بھی مشاہدہ یا تجربہ کو دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے سے قاصر ہے۔ اسلیے میں تو جسمانی تعلق قائم رکھنے والی عشقیہ قبیل سے ہوں۔ روحوں کا تعلق اور پاک محبت یہ فقط کتابی جملے بازی ہے۔
جسمانی تعلق کے حق میں دلیل مذہب کی کسوٹی پر قائم نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ اسکی کسوٹی پر ہم دونوں ہمیشہ نامحرم رہیں گے اور کسی بھی نامحرم سے رابطہ رکھنا ہی از خود شریعت کا انکار ہے۔ اگرچہ میں سماجی حدود کا قائل نہیں، مگر پھر بھی صحت مند سماجی تقاضوں کے عین مطابق سماج میں رہتے ہوئے ان کی پیروی لازم ہے۔ مرد و عورت کا معاشرے میں میل/جول ہونا فطری عمل ہے اور اس میں رکاوٹ پیدا کرنا یا اسکو محدود کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے۔
مگر دو نامحرموں کا عمرانی معاہدہ (شادی) سے ہٹ کر جسمانی تعلق قائم رکھنا، تب ہی ممکن ہوگا جب دونوں فریقین باہم رضامند اور ذہنی ہم آہنگی پر تعلق کو استوار کر لیں۔ میں نے جسمانی تعلق کو قائم کرنے رضامندی یا اسکا اظہار تب کیا، جب میں نے محسوس کیا ہمارا تعلق اس حد تک سنجیدہ ہو چکا ہے۔ ایسا شخص جو دنیا پیچیدہ اور گنجھلک معاملات کو سمجھ سکتا ہو اور ان پر رائے دینے پر عبور رکھتا ہو۔ اچھے اندزِ بیان کی قابلیت رکھتا ہو، اسکی دانست میں جسمانی تعلق کی ہیت و ماہیت کو سمجھنا، کونسا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
لیکن مجھے افسوس ہے، میرا جسم! آپ اور آپ کے خدا کے تعلق میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ میں آپ کے رب کو گواہ بنا کر آپ کو ضمانت دیتا ہوں مستقبل میں کسی بھی انداز یا زاویے سے جسمانی تعلق قائم رکھنے کی نہ کوشش کرونگا نہ ہی اس نیت پر رابطہ استوار کیا جائے گا۔ تاکہ آپ اور آپ کے رب کے تعلق میں دوری پیدا نہ ہو۔
میں اپنے خط کا اختتام ایک نثری نظم کے چند ٹکڑوں سے کرونگا۔ یہ نظم چند روز قبل میری نظر سے گزری، جو کہ میرے جذبات کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ شاعر "علی اعجاز سحر" لکھتے ہیں:
میں اس سے سچا پیار کرتی ہوں
جان ہے وہ میری، میں اس کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتی
ہر وقت اس کا خیال رہتا ہے
اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے
میں سچ میں اس کے بغیر مر رہی ہوں
سجدوں میں رو رو کے دعائیں مانگتی ہوں
مجھے وہ مل جائے
ہر نماز کے بعد اس پہ غائبانہ دم کرتی ہوں
اس کے کہنے پہ تہجد شروع کی
اب شرعی پردہ کرتی ہوں
کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟
جی جی پوچھیے
آپ نے اس لڑکے سے جنسی تعلق رکھا؟
استغفرُللہ۔۔ کیسی بات کر رہے ہیں
میں ان سے پاک محبت کرتی ہوں
برائے مہربانی، مت پوچھیں ایسے سوال
جو پوچھ رہا ہوں وہ بتائیں
اچھا چلیں، ملاقاتیں تو کی ہوں گی
جی، وہ تو کافی کی ہیں
ہم ملاقاتوں پہ ہر طرح کی باتیں کرتے تھے
ہر طرح کی مطلب
جسمانی عضاء کی ساخت پر، ماہواری پر
زیر جامہ لباس کے متعلق، جسمانی آسن پر
یا خدا! مجھے نہیں پتہ
میں ان سے پاک محبت کرتی ہوں
تہجد کے وقت اس کو خدا سے مانگتی ہوں
اپنی بکواس بند کرو!
اب تمہیں خدا یاد آ رہا ہے
جب وہ نہیں مل سکا
جب وہ کسی اور لڑکی کی رفاقت سے لطف حاصل کر رہا ہے
اب تمہیں خدا یاد آ گیا
یہ نیکی یہ عبادت یہ تہجد یہ نام نہاد پردے
یہ سب پھر مطلبی ہوا
اس مخالف جنس کے حصول کی ناکامی کا ازالہ ہوا
عبادت کو کیوں درمیان میں گھسیڑا ہوا ہے
یوں تو کسی نامحرم کا خیال بھی گناہ ہے
یہ جو میں بکواس کر رہا ہوں یہ بھی غیر شرعی ہے
کیا عبادت اس کام کے لیے رہ گئی ہے
شرم آنی چاہیے تمہیں، پاک محبت
تم پڑھی لکھی لڑکیاں بھی نفسیاتی طور پھاندی جاتی ہو
اور کئی لڑکے بھی نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں
داڑھی رکھ لیتے ہیں، اونچی اونچی اذانیں دیتے ہیں
پھر تبلیغ میں جاتے ہی عورتوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں
میں کیا کروں، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا
فی الحال تم انسان بنو اور ڈرامے بند کرو
والسلام
"تمہاری پاک محبت کا محور"
تمہارا عشق