Piram Sultan Bood
پدرم سلطان بود
عاطف احمد عاطی سماجی میڈیا پلیٹ فارم پر قوم کے متعلق شراکت داری کو یوں بیان کرتے ہیں: "کسی قوم کا ماضی کیا تھا، کیا کارنامے سرانجام دیے، یا لوگوں کا یہ گروہ اپنی پٹاری میں نہاں کس نظریہ کا دعویدار ہے، لمحہ موجود میں اسکی اہمیت نہیں! سوال یہ ہے کہ یہ گروہ، ہجوم یا قوم آج کس مقام پر ہے؟ جدید تہذیبی دنیا میں اسکا مرتبہ و مقام کیا ہے؟ اپنے عہد کی ترقی میں اسکا حصہ کیا ہے؟ انسانی حقوق کی پاسداری میں اسکا گراف کہاں ہے اور گلوبل دنیا میں اسکا سٹیٹس ایک لیڈر کا ہے یا ایک بھکاری یا مردِ بیمار کا!
"پدرم سلطان بود" کی خالی بڑھکیں، بے معنی اور بے نتیجہ ہوتی ہیں"۔
سات دہائیاں قبل سونے کی چڑیا کہلائے جانے والے خطہ زمین پر دو قومی نظریہ کو بنیاد بنا کر دو ریاستوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جسکا واحد و بنیادی مقصد الگ مذہبی شناخت رکھنے والے لوگوں کا اپنے دینی اور سماجی شعائر کا آزادی کے ساتھ اظہار کرنا تھا۔ اس دو قومی نظریے کی تشکیل میں مذہب و عقیدے سے بڑھ کر فاتح و مفتوحین کے ماضی میں مبتلا دو اقوام کا تصادم تھا۔ جسکو مذیب کا تڑکا لگا کر اس دور کے مفاد پرست ٹولے نے سیاسی جدوجہد کا حصہ بنایا۔ دونوں بڑے مذاہب ہندو مت اور اسلام کے نام پر عوام کو ورغلایا گیا، جس کے نتیجے میں کثیر تعداد میں جانی و مالی نقصان کے بعد دو ریاستوں کا نام نہاد پرامن انتقال ممکن ہوا۔
علیحدگی کے بعد دونوں ریاستوں نے ازسر نو اپنی ریاستی عمارت پر کام کا آغاز کر دیا، ایک ریاست نے پہلی دہائی میں چند انقلابی اقدامات اٹھا کر سابقہ فاتحین کے ناسور (اشرافیہ، زمیندار و غلام ذہنیت پر مشتمل آئین) سے خود کو حقیقی انداز سے آزاد کرکے اپنی نئی ریاست کی بنیاد رکھ لی۔ جبکہ دوسری جانب اپنے شاندار ماضی میں الجھی قوم، غلامانہ مقاصد اور نظریات کا دفاع کرنے والے ٹولے کی ریاستی امور میں اجارہ داری قائم رہی، قوم خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی۔ اس غفلت کے دور میں اس ریاست کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے کرتا دھرتا نے مکمل شراکت داری کی۔ ادیبوں نے مذہب کے نام پر تشکیل پانے والی ریاست کو خدا کے نور سے لے کر نہ جانے کن کن ماورائے عقل استعارات سے نوازا۔
بتدریج دونوں اطراف کے باشندوں کے اجتماعی شعور، جدید تہذیب میں شراکت داری، جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں اقدامات اور سب سے بڑھ کر، انسانی حقوق جیسے اہم معاملات پر ترجیحات کا فرق، زمینی تقسیم والی لکیر سے زیادہ واضح نظر آنے لگا۔ بھگوان کے پیروکار سائنس، طب، علم، ادب، ریاضیات، جدید آئی ٹی، شخصی آزادی الغرض ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔
آج دنیا کی سب سے بڑی آبادی کی نمائندہ ریاست ہونے کے باوجود، دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی تیسری بڑی معیشت بن چکی ہے۔ غربت، کربشن، مذہبی انتہا پسندی، نسل کشی اور بھی بہت سی برائیوں کے باجود اپنی طے شدہ سمت سے انحراف نہ کرنے والی اور کم و بیش بارہ سو سال مفتوح رہنے والی قوم نے ایک بار پھر سے زنگ آلود چڑیا پر سونے کی ملمع کاری کرکے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے۔
جبکہ دوسری جانب رحمان کے پیروکار آج بھی اپنے شاندار ماضی کی مالا جبتے ہوئے دن بدن پستی کی تمام منازل طے کرتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ رحمانی ریاست کے بانیان نے قوم کی سمت طے کرنے کی بجائے، قوم کو خدائی مدد میں الجھائے رکھا۔ جس سے قوم اور انکے کرتا دھرتا کی توجہ زمینی اسباب کے حصول سے کوسوں دور ہوتی چلی گئی۔
روسو اپنے معاہدہ عمرانی میں قوم کے مرض کی اس انداز سے تشخیص کرتا ہے: "اکثر قومیں انسانوں کی اکثریت کی مانند، صرف نوجوانی کے زمانہ میں تربیت پذیر ہوتی ہیں۔ جوں جوں ان کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے توں توں وہ ناقابل اصلاح ہوتی جاتی ہیں۔ جب ایک بار رسوم قائم ہو جائیں اور تعصبات اچھی طرح جڑ پکڑ لیں تو پھر ان کی اصلاح کی کوشش بیکار اور بڑے خطرے کی بات ہے۔ قومیں، بیوقوف مریضوں کی طرح جو طبیب کو دیکھتے ہی کپکپانے لگتے ہیں، اس کو کسی طرح گوارہ نہیں کر سکتیں کہ کوئی بھی ان کی خرابیوں کو اصلاح کی غرض سے ہاتھ لگائے"۔
جب تک کوئی قوم اس امر کا ادراک نہیں کرتی کہ انکا جسم ان دیکھے مرض کی پکڑ میں آ چکا ہے اور تعصبات انتہاؤں کا چھو چکے ہیں، اسکے بعد ہی قوم طبیب اور مصلحین کی جانب رجوع کرتی ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی تواریخ کا جائزہ لیں تو ایک یکسانیت کا گماں ہوتا ہے۔ تمام مہذب اقوام کسی نہ کسی دور میں جنجگو، دوسری اقوام پر راج کرنے جیسی غیر انسانی برائیوں میں مبتلا رہی۔ مگر ان اقوام میں موجود فنکار، تخلیق کار، فلسفی، ادیب، مصنفین الغرض ہر شعبے میں سماج کی برائیوں پر تنقید کرنے والے ہمہ وقت موجود رہے۔ اقوام نے بتدریج ان اصلاح کاروں کے تنقیدی کام کا جائزہ لیا اور سمت واضح کی اور جدید دور میں ترقی یافتہ اقوام کی صف میں اپنی جگہ بنائی۔
ہمارا ہمسایہ ملک اور ازلی حریف ہندوستان آج دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے، اسکے ساتھ ساتھ اپنے سماج میں موجود خرابیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر انکی تمام شعبوں میں جاری انقلابی اور اصلاحیوں سرگرمیوں پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو اسکا احاطہ کرنا ممکن ہوگا۔ جدید دور کے ذرائع ابلاغ میں سب سے سر فہرست سماجی میڈیا اسکے بعد پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہے، جو آنکھ جھپکنے سے قبل خبر کو اپنے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ چند دہائیاں قبل معلومات کے حصول کا واحد ذریعہ اخبار تھا، جس کا کام بیک وقت خبر دینا اور ذہن سازی کرنا ہوتا تھا۔ لیکن جدید دور میں خبر پہنچانے اور ذہن سازی کے تقاضے بدل چکے ہیں۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور سماجی میڈیا پراپیگنڈہ (منفی ذہن سازی) کی شکل دھار چکے ہیں، کتب بینی متروک ہو چکی ہے۔ آڈیو کتب، ویلاگنگ اور ڈیجیٹل کتب اسکی جگہ لے چکے ہیں۔ فلمسازی، ڈرامہ، حالات حاظرہ الغرض تمام قسم کے روایتی تفریحی ذرائع مفاد پرستوں، ساہوکاروں اور سیاسی گروہوں کے زیر عتاب آ چکے ہیں۔ اس مقید ڈیجیٹل دنیا میں روز بروز شخصی آزادی سلب کرنے کے اقدامات طول پکڑ رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود کم و بیش گزشتہ دہائی میں تفریح و معلومات سے مزین ذرائع ابلاغ کی اک نئی صنف جسکو ہم او ٹی ٹی پلیٹ فارم کا نام دیتے ہیں، جدید دور میں قدرے معیاری، غیر جانبدار اور آزاد مواد صارفین کی خدمت میں پیش کر رہی ہے۔
ہمسایہ ممالک میں بعد از کورونا وباء سماجی اقدار، انسانی المیے، انسانی حقوق کے علاوہ بیشتر مسائل کی نشاندہی کرنے اور عوام میں اسکے متعلق ممکنہ آگاہی جیسا مواد او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے توسط سے لکیر کے دونوں جانب کے صارفین تک پہنچایا جا رہا ہے۔ جو اس سماج کے نچلے اور استحصال شدہ طبقے کی کہانیوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔ ہمسایہ ملک میں تواتر سے ایسے مواد کی اشاعت و نشر کاری اس بات کی غمازی ہے کہ انکا سماج تمام مشکلات کے باوجود مہذب سماج کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ تمام سماجی، معاشی، ازدواجی و علمی الغرض تمام کے قسم موضوعات پر سبق آموزتفریحی مواد کی طویل فہرست موجود ہے، جس سے تمام صارفین استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
عمار راجپوت کے الفاظ مستعار لے کر اس بحث کا سمیٹنا چاہوں گا: "اگر میرے یا آپ کے لیے کوئی اچھا ہے تو ہمیں اس سے کیا غرض کہ وہ کسی دوسرے کی کتاب میں کیسا ہے۔ سب کی یہی کہانی ہے! یہاں دودھ کا دُھلا کوئی نہیں ہے۔ سب ہی کسی نا کسی کے باب میں عہد شکن ہیں۔ سب ہی کسی نا کسی کے قرض دار ہیں۔ ہمیں لوگوں کے متعلق اُتنا ہی جاننا چاہیے جتنا وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے متعلق جانیں۔ کیونکہ تجسس اگر علمی ہو تو شعور کے در کھولتا ہے جبکہ شخصی ہو تو شر کے۔
خیر پھیلاؤ اور بھلائی بانٹو۔ "