Pasta Qad Ya Qad Awar Siasi Mujasma
پستہ قد یا قد آور سیاسی مجسمہ
گزشتہ سال ماہ اپریل میں عدم اعتماد اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران اور خلیج نے ریاستی اداروں، عوام اور سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں میں ایسا نفاق کا بیج بویا ہے۔ جو لمحہ بہ لمحہ نفرت و انتشار کی آبیاری سے تناور درخت کا روپ اختیار کرنے جا رہا ہے۔ جس کا پھل شاید آنے والی نسلیں خون اور جسم کی قربانی دے کر چکھ سکیں۔ ایسے سیاسی، مذہبی و ادارہ جاتی تقسیم پر مشتمل سماج میں مقبول بیانیے سے ہٹ کر بات کہنا یا بیانیہ رکھنا، "آ بیل مجھے مار" کے مترادف ہے۔
مگر پھر بھی بطور سند اور ذاتی رائے رکھنے کی خاطر کچھ خیالات کو الفاظ کا روپ دینے کی جسارت کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔ رواں ماہ 09 مئی 2023 کو عمران خان کی اسلام آباد عدالت میں پیشی کے موقع پر ماورائے قانون اور احاطۂ عدالت سے گرفتاری، پھر اسکے نتیجے میں جاری رہنے والے ملک گیر فسادات میں کم و بیش 50 سے زائد جانوں کا ضیاع، لاکھوں مالیت کی نجی و سرکاری املاک کا نقصان، انٹرنیٹ کی بندش سے اربوں روپے کے کاروبار کا نقصان اور عوام کو ذہنی و نفسیاتی پریشانی سے دوچار ہونے کے مناظر الگ سے دیکھنے کو ملے۔
دو روز بعد 11 مئی کو ملک کی اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر ملکی سیاسی جماعت کے مقبول قائد کو رہا کر دیا اور قانونی عمل کا سامنا کرنے کی ہدایات جاری کر دی۔ اس تمام منظر نامے میں جو چیز تمام ہنگامہ آرائی اور فساد کا مرکز بنی رہی وہ تھا، ریاست کے ایک منظم ادارہ اور اس ادارے سے جڑی تنصیبات و عمارات مظاہرین کا ہدف بنی رہی۔ جس کو تمام احتجاج کرنے والے اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ اس تشدد و فساد کے جز وقتی محرکات خواہ درجنوں اخذ کر لیے جائیں مگر کل وقتی محرکات وہی ہیں جن کی تاریخ 75 سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔
ایک ریاستی ادارے کا عوام میں طاقت کا سرچشمہ کہلائے جانے کی خواہش اور اُس کے سیاسی کردار سے ریاستی ستونوں میں جو نقب زنی کی جاتی رہی، اسکا اظہار بارہا مواقع پر پیشہ ور سیاستدانوں نے ہدفِ تنقید بنا کر اپنی کرسی کی راہ ہموار کی ہے۔ ملکی تاریخ میں کئی بار ایسے موڑ آئے جب قوم کو احساس ہوا کے شاید اب کی بار حقیقی آزادی کا لمحہ آن پہنچا مگر ہمیشہ وہ حقیقی آزادی پہلے سے زیادہ خطرناک غلامی پر منتج ہوئی۔ مگر 75 سالوں میں کسی بھی فساد یا عوامی جلاؤ گھیراؤ کا مرکز ادارہ یا اسکی تنصیبات نہ تھی۔
اگر ریاستی طاقت برقرار رکھنے کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ سرگرمی انتہائی خطرناک اور ریاست سے کھلم کھلا بغاوت کا اظہار ہے۔ کوئی بھی سیاسی، غیر سیاسی، ریاستی و غیر ریاستی فرد یا جماعت ایسے جتھہ بند اور لٹھ بردار سرگرمی کی حمایت نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر اس سرگرمی کو ملکی تاریخ میں ادارہ کے سیاسی کردار اور بے جا مداخلت کے تناظر میں سمجھا جائے تو یہ عوامی سطح پر اس سیاسی کردار اور بے جا مداخلت کی نفی کا عملی نمونہ ہے۔ عوام جسے دنیا بھر میں طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے وہ کسی بھی غیر سیاسی کردار کو سیاسی عمل میں شریک ہونے کو اپنے حق پر ڈاکہ مارنے سے تشبیہ دیتی ہے۔
خان صاحب نے گزشتہ شب بعد از رہائی گھر آمد کے موقع پر قوم سے خطاب میں، ادارے کو ان کے ماضی کی جھلک دکھا کر ان کے سیاسی و بے جا مداخلت کے کردار کو بے نقاب کیا اور عندیہ دیا کہ مستقبل میں اگر کسی نے سیاسی عمل کا حصہ بننا ہے تو ان کو اداروں سے نکل کر سیاسی میدان میں مقابل آنا ہوگا۔ اس ملک کی 75 سالہ سیاسی تاریخ اور سیاستدانوں کی موقع پرست خودغرضی سے غیر سیاسی کرداروں کے راستہ روکنے کا عمل کھٹائی کا شکار ہوتا رہا۔
عمران خان کی گزشتہ ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت کی سیاست کو بھول کر، اسکی جماعت کی بیس سال سے زائد عرصے پر محیط جدوجہد ملکی سیاست سے غیر سیاسی کرداروں کے خاتمے کے لیے تھی۔ جسکو اقتدار کی خاطر پسِ پشت ڈال دیا گیا اب پھر اسی جماعت کی جانب سے نظریاتی اور حقیقی جمہوری جدوجہد کا علم بلند کیا گیا ہے۔ جس کا واحد مقصد اقتدار اور غیر سیاسی کرداروں کا سیاسی عمل میں شراکت کو روکنا ہے۔
اگر تحریک انصاف کس مقتدرہ مخالف بیانیہ، صرف دو تہائی اکثریتی اقتدار کی خاطر تشکیل دے رہی ہے تو پھر انقلاب کے سراب میں نوجوان اپنی اجتماعی قبروں کے لیے مناسب جگہ کا پیشگی انتخاب کر لیں۔ کیونکہ جب یہ نظریاتی جدوجہد اور انقلاب کی گرد بیٹھے گی، تو پہلا نشانہ انقلابی اور باغی جوان ہوں گے۔ جبکہ تصویر کا دوسرا رخ جو کہ اس ملک میں سیاست صرف سیاسی عناصر کا حق کہلائے جانے کی جدوجہد پر مشتمل ہے۔ اس موقع پر ذمہ دار اور مقبول لیڈر کہلائے جانے والے قائد کو، ملک میں سب سے بڑے سیاسی انقلابی ہونے کے ناطے تمام سیاسی جماعتوں کو اس عمل میں دعوت دینا ہوگی۔
کیونکہ کوئی بھی غیر سیاسی کردار تب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا، جب تک اسکو سیاسی شعبدہ بازوں اور پیشہ وروں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ 75 سال تک اس ملک میں ہر ادارہ نے دوسرے کی شلوار میں اپنی ٹانگ ڈال رکھی ہے اور عین نازک موڑ پر سب ٹانگیں اپنی شلواروں میں واپس چلی جاتی ہیں۔ مگر واحد سیاستدانوں کی قبیل ہے جو ہمیشہ سے خمیدہ پشت کے ہمراہ اپنی شلوار لیے غیر سیاسی عناصر کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ تاکہ ایک شفقت کی نظر ہو اور ان کو اقتدار کی جھلک نصیب ہو سکے۔ ملک کی ہر سیاسی جماعت، کم و بیش اس غیر سیاسی کرداروں سے نالاں رہی۔
عمران خان کو موقع کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی بونے پن اور فسطائیت میں ڈوبی سیاست کو پسِ پست ڈال کر، تمام سیاسی عناصر ایک جگہ اکٹھا کرکے ایک حتمی لکیر کھینچ دینی چاہیے۔ جس میں واضح ہو جائے کہ اس ملک میں سیاسی عمل اور جمہوریت صرف سیاسی لوگوں کا حق ہے اسکے علاوہ اس حق پر ڈاکہ غداری کے مترادف ہوگا۔ تمام ادارے و غیر سیاسی کردار اپنی ٹانگیں اپنی شلواروں سے باہر نکالنے سے باز رہیں۔ ایک سال سے جاری عدم اعتماد، انتخابات کے مطالبے، گرفتاریاں اور ضمانتوں کا شور یہ سب سیاسی ڈھونگ اگر تو صرف اقتدار اور ذاتی انا یعنی "میں، میں اور میں" کی تسکین کی خاطر ہے تو شاید تمام سیاسی عناصر کا متحد ہونا، ایک دیوانے کا خواب ہے۔
اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے کی ڈوری صرف ایک شخص عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو اس فیصلہ کُن موڑ پر اپنے دانشمندانہ فیصلوں سے ملک کو سیاسی اور جمہوری طرز پر حقیقی تجربہ گاہ کی شکل دے سکتا ہے۔ وگرنہ غیر سیاسی طرز عمل اور فسطائیت کا بول بالا تو پہلے اس ریاست اور قوم کا پسندیدہ مزاج رہا ہے۔ اگر ماضی میں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو آج جماعت کا صدر ہو سکتا ہے تو جمہوریت اور ملک کی خاطر رائیونڈ کے چوروں سے ہاتھ ملانے میں کوئی برائی نہیں۔ اگر تو ماضی میں چپڑاسی نہ رکھے جانے کے لائق شخص آج کا حلیف ہو سکتا ہے تو مسٹر ٹین پرسنٹ سے اتحاد کوئی بری بات نہیں۔
انتشار، جلاؤ گھیراؤ، فسطائیت، شدت پسندی اور نفرت کا مزاج رکھنے والی قوم کو مثبت، پر امن، جمہوری اور معتدل مزاج سماج کا تحفہ صرف ایک مخلص اور حقیقی نمائندگی کرنے والی قیادت ہی دے سکتی ہے۔ اب فیصلہ اور انتخاب عمران خان کی ذات پر ہے۔
"ایک پرامن جمہوری سیاسی پاکستان یا نفرت سے بھرپور فسطائی ریاست کا قیام"
امرتا پریتم نے تقسیم کے سماج کی عکاسی، جو موجودہ سماج کی تقسیم پر عین صادق آتی ہے، یوں کی؛
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا اے زہر ملا
تے اونہاں پانیاں دھرت نوں دتا زہر پلا
پُتر اس زمین دے بُھکے بھولے وگ
جدھر لائے مداریاں جاندے ادھر لگ
کسے مداری ہتھ دا پانی جد او پیون
کدے سراں نوں پاڑھدے، پاڑھن کدی زمین
کدے مذہب دے نام تے دیندء جیبھ چڑھا
کدے مذہب دے نام تے دیندے سِراں نوں لا