Mein Roze Se Hoon
میں روزے سے ہوں
کچھ نوجوانوں نے دیکھا سرِ بازار ایک بوڑھا کچھ کھانے میں مصروف ہے۔ نوجوانوں نے نزدیک جا کر استفسار کیا:
کیا آپ کو ماہِ رمضان کے تقدس کا کچھ خیال نہیں؟
بوڑھے نے فوری جواب دیا: میں روزے سے ہوں، صرف پانی پیتا ہوں اور کھانا کھاتا ہوں۔
بوڑھے کا بچگانہ جواب سن کر نوجوان ہنس پڑے اور کہنے لگے: کیا ایسا بھی ممکن ہے؟
بوڑھے نے جواب دیا: ہاں میں جھوٹ نہیں بولتا۔
کسی پر بُری نگاہ نہیں ڈالتا۔
کسی کو گالی نہیں دیتا۔
کسی کا دل نہیں دُکھاتا۔
کسی سے حسد نہیں کرتا۔
مالِ حرام نہیں کھاتا۔
اپنی ذمہ داریاں اور فرائض منصبی دیانت داری سے انجام دیتا ہوں۔ چونکہ مجھے بیماری لاحق ہے جس کے باعث میں بھوکا رہنے سے قاصر ہوں۔
اس کے بعد بوڑھے نے یہی سوال نوجوانوں سے کیا:
کیا آپ بھی روزے دار ہیں؟
نوجوانوں نے سر جھکا کر شرمندگی سے جواب دیا:
نہیں ہم صرف کھانا کھاتے ہیں۔
مندرجہ بالا حکایت مسلم معاشرے میں عبادات کی بنیاد پر موجود منافقت اور مذہبی جارحیت کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
سنہ 1981 میں 10 دفعات پر مشتمل احترامِ رمضان آرڈیننس کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ جس کی رو سے عوامی اجتماعات کے مقامات پر دن کے اوقات میں کھانا، پینا اور سگریٹ نوشی سے گریز کرنا ہوگا۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا پکڑا گیا تو اُسے تین ماہ کی قید یا 500 روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ کسی ریستوران، کینٹین یا ہوٹل کے مالک، نوکر اور منیجر کی جانب سے یا کسی اور عوامی مقام پر کسی ایسے فرد کو کھانے کی سہولت دینا یا آفر کرنا۔ جس پر روزہ فرض ہو، منع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں ملزم تین ماہ قید، یا 25 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا حقدار ہوگا۔
روزہ کے متعلق حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے:
"ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ "
(بخاری، الصحيح 2: 673، رقم: 1805)
عبادات کی جانچ پڑتال کے بعد جزا و سزا کا اختیار خالق کی بجائے مخلوق کے ہاتھوں منتقل ہونے سے انفرادی سطح پر استحصال کا تاثر ابھرتا ہے۔ روزہ اسلام کا بنیادی رکن اور ہر مسلمان پر فرض ہونے کے باوجود دین میں مسافر، دائمی بیمار، سنگین عارضہ اور قوت مدافعت میں کمی کے شکار بوڑھے لوگوں کے لیے رعایات کے احکامات واضح ہیں۔ روزہ رکھنے اور چھوڑنے کے واضح احکامات کی موجودگی میں ریاست کا بزور طاقت یا قوانین کی مدد سے، مذہبی عبادات و رسومات کا احترام و تقدس کی ترویج، دین کے بنیادی اساس کی خلاف ورزی ہے۔
کسی بھی سماج کا مجموعی شعور اور طرزِ عمل، مذہبی رسومات یا عبادات کے تقدس اور احترام قائم رکھنے میں راہنما اصول وضع کرتا ہے۔ تاکہ سماج میں رواداری اور مذہبی آہنگی، ریاستی قوانین سے بالاتر ہو کر انسانی اور سماجی بنیادوں پر استوار ہو سکے۔ ریاستی قوانین کا مطمع نظر شہریوں کے لیے مذہبی رسومات و عبادات کی ادائیگی کے لیے مکمل آزاد ماحول فراہم کرنا ہے، جس کی مدد سے ہر شخص اپنی آزادی اور منشاء کے مطابق مذہبی رسومات و عبادات کو مکمل کر سکے۔
ریاست کا مذہبی رسومات و عبادات کے لیے قوانین کے دائرے میں مقید ماحول بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ احترامِ رمضان آرڈیننس کے نفاذ سے قبل شہریوں کی جانب سے کسی روزہ دار کی دِل آزاری کا کوئی ظاہری سامان عوامی مقامات پر دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا کہ لوگ ایک دوسرے کے طرز عمل کو کھلے دِل سے برداشت کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزہ عبادت سے بڑھ کر مذہبی جارحیت اور تساہل پسندی کا جائز اور قانونی آلہ بن چکا ہے۔
دینی تعلیمات کے مطابق روزہ ڈھال ہے، جس کا مقصد ناجائز ترغیبات، نفسانی خواہشوں، بے انصافی اور دیگر برائیوں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو سماج میں موجود شخصی کوتاہیوں سے نمٹنے کے لئے اسے خود حفاظتی کا ایک حصار سمجھنا چاہئے۔ روزہ کی حالت میں جھوٹ سے بچنا، دفتری اوقات کار کی پابندی، عوامی فلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، عوامی مسائل میں آسانی کے اسباب پیدا کرنا اور باہمی نفرت کی جگہ محبت کو پروان چڑھانا ہی روزہ بطور عبادت کا حقیقی حاصل و ماخذ ہے۔
اول تو ماہ صیام کے دوران صبح ساڑھے دس بجے سے پہلے دفتر پہنچنے والے افسروں کو ہرگز صالح و عبادت گزار تصور نہیں کیا جاتا۔ نجی و سرکاری ادارے میں بروقت ڈیوٹی پہ حاضر ہونے والے ملازمین کے رعائتی وقت پہ چھٹی ہونے سے پہلے، عوامی رابطہ سازی میں ایسی متقیانہ بے رخی سے واسطہ پڑے گا کہ آپ بطور سائل ماہِ صیام کو رحمت کی بجائے آزمائش سے تعبیر کریں گے۔ یہ تو رمضان کے پہلے عشرے کی صورتِ حال ہے، جیسے ہی ماہِ صیام کا چاند اپنا جوبن گزار لے گا۔ تمام خدمات فراہم کرنے والے ادارے، منظم آجر، پیشہ وارانہ ہنر مند جبکہ ہر کارندے سے یہی جواب ملے گا کہ بس اب آپ اپنا کام عید کے بعد ہی سمجھیں۔
سماج کا نظام جو پیشہ وارانہ و ہنرمند خدمات فراہم کرنے والے لوگوں پر انحصار کرتا ہے، اسکا پہیہ رک جاتا ہے۔ روزے داروں کی تمام تر توجہ عالمِ اسباب کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر عالمِ بالا کے فوائد پر موقوف ہو جاتی ہے۔ جبکہ دین میں تواتر کے ساتھ حقوق العباد میں کمی بیشی اور کوتاہی پر سخت سرزنش کے احکامات ہیں۔ جبکہ عبادات سے منسلک بخشش، ثواب اور توبہ کا مکمل اختیار خالق کی صوابدید پر ہے۔
روزہ کی حالت میں سینکڑوں میل کا سفر طے کرنے والا سائل جب کسی دفتر، نجی ادارے یا خدمات فراہم کرنے والے کے دروازے سے مایوس واپس لوٹتا ہے۔ تو اسکا عبادات کے نام پر اپنے فرائض سے غفلت اور بنیادی ذمہ داریوں سے انحراف کرنے والے عبادت گزار کی بخشش و مغفرت کے حصول میں کی جانے والی عبادات کے خلوص پر شکوک و شبہات بالیقیں جائز ہیں۔
روزہ کا بطور عبادت ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ صاحبِ استطاعت طبقہ کی غریب اور نادار لوگوں کی بھوک اور پیاس کی حالت میں دنیاوی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی کیفیت سے آشنائی ہو سکے۔ جب روزہ دار بھوک و پیاس میں مبتلا ہو کر سہل پسندی کا شکار ہو جائیں، تو پھر بھوک و پیاس صرف نمود و نمائش کا عملی مظہر ہونے کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ بھی مذہبی اشرافیہ کا عبادت کے نام پر غریب کے استحصال کا دوسرا نام ہے۔
افطار کے موقع پر صاحبِ استطاعت طبقہ کا کھجور، فروٹ چاٹ اور پکوڑوں کے بغیر روزہ کھل ہی نہیں سکتا۔ سحر میں مختلف انواع کے پکوان، قوت مدافعت بڑھانے والے مشروبات، طویل بھوک و پیاس سے بچنے کے دیسی ٹوٹکے اور شکم کی آگ بجھانے کے درجن بھر ذرائع دستیاب ہیں۔ اسکے برعکس ماہِ صیام میں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے باعث عام حالات میں دو وقت کی روٹی پر اکتفا کرنے والا طبقہ اور مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً انکو رحمتوں بھرے ماہِ صیام میں نئی آزمائش سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
المختصر تمام سماجی و دینی پہلوؤں کو اگر یکجا کیا جائے تو یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ باقی تمام دینی عبادات نماز و حج کی مانند روزہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عام شہری و مسلمان کے کردار میں پنہاں منافقت کو مکمل عیاں کرتا ہے۔ عبادات کی اساس میں پوشیدہ اخلاقی و سماجی پہلوؤں پر عمل پیرا ہونے کی بجائے، عبادتوں کا محور بعد از مرگ فوائد کا حصول، خالق سے لین دین اور سماج میں مذہبی اشرافیہ کا سرخیل کہلانے کے گرد گھومتا ہے۔
اسی ماحول کی عکاسی سید ضمیر جعفری نے یوں بیان کی ہے۔
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دوں کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں
میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں۔