Maal e Muft, Dil e Be Reham
مالِ مفت، دلِ بے رحم
مملکت خدداد پاکستان کے خادمِ اعظم شہباز شریف نے 13 مارچ 2023 کو قومی مفاد میں بڑا اعلان کرتے ہوئے، خوشخبری دی۔ 25 شعبان تا 25 رمضان پنجاب بھر کے ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو مفت آٹے کی فراہمی کی جائیگی۔ اس اعلان کے بعد صوبہ پنجاب میں انتظامیہ کی تمام تر توجہ مفت آٹے کی بلاتعطل فراہمی پر مرکوز کر دی گئی۔
مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان اپنی نوعیت میں بحرانی کیفیت سے نکلنے کی جانب ایک قدم تھا، مگر اس اقدام کے پس پردہ حقائق خالصتاً سیاسی ضرورت پر مبنی تھے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبہ پنجاب میں عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا تھا۔ جس کے باعث صوبے کی نگران حکومت ایسے سیاسی اقدامات اٹھانے سے محروم تھی اور اس موقع پر وفاقی حکومت کا مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان ایک انتظامی مگر خالصتاً سیاسی فیصلہ ہے۔
مفت آٹے کی فراہمی میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کا ذکر کیا گیا، یہ ان گھرانوں کی جانب اشارہ تھا جو کہ بینظیر انکم سپوٹ پروگرام کی اہلیت کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ جبکہ موجودہ معاشی بحران اور کمر توڑ مہنگائی نے جس طبقے کو بُرے طریقے سے متاثر کیا وہ سفید پوش نچلہ درمیانی طبقہ ہے، جن کی ماضی میں آمدن گزارے لائق اور طرزِ زندگی سفید پوشی پر مشتمل تھی۔
ایسے تمام گھرانے جو اس کساد بازاری اور مہنگائی کے نتیجے میں خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں ان کا اس معاشی و بحرانی کیفیت میں کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ حکومتی جانب سے کسی بھی امدادی سکیم میں اہلیت کے معیار پر بھی پورا اترنے سے قاصر ہیں اور گھریلو آمدن مہنگائی کے باعث گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ مفت آٹا فراہمی کے موقع پر سب سے زیادہ ہزیمت اور پریشانی کا شکار یہی طبقہ رہا ہے۔
راقم التحریر ضلعی سطح پر بطور انتظامی امور مفٹ آٹا فراہمی کے تمام عمل کا عینی شاہد رہا ہے، اسلیے مفت آٹا فراہمی عمل کے نیتجے میں سماجی میڈیا پر موجود قابلِ رحم مناظر اور ان کے حقیقی پس منظر کے قضیے کو عوام الناس تک پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مفت آٹا فراہمی کا آغاز تمام اضلاع میں بیک وقت شروع کر دیا گیا تھا اور انتظامیہ نے حتی الامکان کوشش کی، اسکا دائرہ کار بلدیاتی طرز پھر موجود انتظامی یونٹ یعنی میونسپل، ٹاؤن کمیٹیوں تک وسیع کر دیا جائے۔
چونکہ اس تمام عمل میں لوگوں کی کثیر تعداد کی شرکت اور پھر تقسیم کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے درکار انتظامی اقدامات کو پور کرنے کے لیے وسائل و ذرائع ناکافی ہے۔ اسی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ کم از کم ہر تحصیل کی سطح پر ایک ایسا آٹا فراہمی سنٹر لازمی موجود ہو۔ قارئین کو تمام عمل کی شفافیت سے آگہی کی غرض اور حقدار تک حق پہنچانے کے لیے تیار کردہ نظام کو بیان کرتا ہوں تاکہ واضح ہو سکے۔ اس عمل میں شفافیت اور بلا تعطل فراہمی میں کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نتیجتاً حقدار حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔
حکومت پنجاب نے مفت آٹا فراہمی کے لیے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی مدد سے ایک ایپلیکیشن وضع کی، جس کی رو سے آٹا سنٹر پر اصلی شناختی کارڈ کے ہمراہ آنا لازمی قرار پایا۔ تاکہ مفت آٹا سنٹر پر امیدوار کے شناختی کارڈ کی مدد سے اہلیت کی تصدیق ہونے پر اسکو آٹا فراہم کیا جا سکے۔ اس تمام عمل میں سب سے پہلے امیدوار کا شناختی کارڈ ایپ کی مدد سے سکین کیا جاتا ہے اور پھر اسکے بعد اہل شخص کو پرچی جاری کی جاتی ہے، جس کی مدد سے وہ سنٹر پر موجود ٹرک کے پاس جا کر اپنے حصے کا مفت آٹا وصول کر سکتا ہے۔
اس تمام عمل سے واضح ہے کے ہجوم در ہجوم آنے والے لوگوں کو تین مختلف مقامات پر صبر آزما مرحلے سے گزرنے کے بعد ایک تھیلا آٹا بطور امداد حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کی حالت میں آنے والے لوگ اور وہاں تنگ جگہ میں دھکم پیل کے نتیجے میں بہت لوگوں کا ضبط جواب دے جاتا ہے نتیجتاً وہ بےکسی اور بے بسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ایسے مناظر جدید دور کے ذرائع نشر و اشاعت کی مدد سے کیمرہ میں محفوظ ہو کر سماجی میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔
ریاستی سطح پر کسی بھی عوامی امدادی پروگرام کے آغاز سے قبل باقاعدہ حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے جس میں لوگوں کے ہجوم کو سنبھالنا اور تیز تر بنیادوں پر سہولیات کی فراہمی کے عمل کو ترتیب دینا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ عمل خالصتاً بحرانی و سیاسی کیفیت پر مشتمل ہے۔ اسی تناظر میں اسکا تمام بوجھ ضلعی انتظامیہ کے کندھوں پر لاد دیا گیا ہے، جو اپنے محدود وسائل اور ذرائع کی مدد سے ہر ممکن انداز سے اسکو فائدہ مند بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ہماری قوم کا اجتماعی شعور بےہنگم و بے سر و پا ہجوم بن کر وسائل لوٹنے اور اس پر قبضے سے ماخوذ ہے۔ یہ ریاست متعدد بار ہجوم نما جتھوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ اسی بابت ریاست کا ہجوم سے نبرد آزما ہونے کا تجربہ ہمیشہ سے ناخوشگوار رہا ہے اور نہ ہی انتظامی سطح پر ہجوم کو قابو کرنے کے حوالے کوئی خاطر خواہ معیاری وسائل موجود ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایسے مواقع پر وسائل اور انسانی جانوں کا ضیاع معمول کا طرز عمل بن چکا ہے۔
ہجوم کو قابو کرنے کا واحد نسخہ مضبوط انتظامی وسائل کی مدد سے ان کھلے میدان میں گھیر کر رکھنا ہے۔ وگرنہ ہجوم بپھر کر وسائل کا بے دریغ استعمال کرتا ہے یا پھر حقدار حق سے محروم رہتا ہے۔ ایسے میں مالِ مفت فراہمی کے موقع پر وارداتیے بھی ہجوم کا حصہ بن کر انتظامی امور میں رخنہ ڈالنے کا مؤجب بنتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سفید پوش حق دار، اپنے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے جب ضبط جواب دے جاتا ہے تو پھر وہ دیوانہ وار، لاچاری اور بے بسی میں دربدر شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔
چونکہ مفت آٹا فراہمی وفاقی حکومت کا اقدام ہے، جو کہ سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ کا مظہر ہے اسکا اقدام ہے۔ اس تمام عمل میں نظر آنے والی بد انتظامی اور لوگوں کی زندگیوں کے خاتمے پر مخالف سیاسی جماعت بھرپور سرگرم ہے۔ سماجی میڈیا اور ہر فورم پر اس عمل کو وسائل کا ضیاع، انتظامی ناکامی اور عوام پر ظلم سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ چونکہ عوام اس تمام عمل میں تختہ مشق بنی ہوئی ہے اسلیے کوئی بھی بحرانی کیفیت سیاسی جماعتوں کے لیے سیاست چمکانے کا سنہری موقع ہوتی ہے۔ جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کا واحد مقصد اس موقع پر عوام کی مجبوری اور لاچاری سے فائدہ اٹھا کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا جائے۔
صوبے کی مقبول سیاسی جماعت نااہل اور ناکام انتظامی امور پر سراپا احتجاج ہے۔ جبکہ بحیثیت سب سے بڑی سیاسی جماعت اور عوامی خدمت کی دعویدار اس سیاسی جماعت کا کردار اس بحرانی کیفیت میں سب سے آگے بڑھ کر مہنگائی میں پسی عوام کا مداوا کرنے سے تعبیر ہونا چاہیے تھا۔ مقبول سیاسی جماعت کے قائد انتخابات کی مد میں عوام سے رقم اکٹھی کرنے کے دعویدار ہیں، مگر غربت میں مفلوک الحال عوام کی معاشی بدحالی کے تدارک کے لیے کسی امدادی پروگرام کا دعویٰ نہیں کرنے سے قاصر ہیں۔
مخالف سیاسی جماعت کو سرکاری مفت آٹا سنٹر کے مخالف اپنے کیمپ تشکیل دینے چاہیئے، جس میں عوام کو مفت آٹا فراہم کیا جائے۔ تاکہ عوام کو ان کی سیاست میں خدمت کی جھلک نظر آئے۔ اگر یہ سب ممکن نہیں تو پھر ان کی سیاست کا محور بحرانی کیفیت میں نااہلی و ناکامی کی تشہیر سے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے۔
مہذب معاشروں میں جب ریاستیں ناکام یا بحران کا شکار ہوتی ہیں تو قومیں آگے بڑھ کر ریاست کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھاتی ہیں۔ کیونکہ وہ فعال معاشرے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ایک صحت مند اور فعال قوم ایک ریاست دوبارہ تشکیل دے سکتی ہے۔ جبکہ ہجوم زدہ قوموں پر مشتمل معاشرے، ریاست کی ناکامی و بحرانی کیفیت میں موقع پرست بن کر اُبھرتے ہیں۔ ہر شخص اس موقع پر اپنی تجوریاں اور پیٹ بھرنے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے کہ شاید اسکے بعد یہ موقع نصیب ہو یا نہ ہو۔
شاید مالِ مفت، دلِ بے رحم جیسا جملہ ایسے ہی سماج کی منظر کشی کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔