Kainat Ka Gorakh Dhanda
کائنات کا گورکھ دھندا
جیمز ویب خلائی دوربین سے کائنات کی اولین تصاویر موصول ہونے کے بعد دنیا بھر میں چہ میگوئیاں عروج پر ہیں۔ کچھ لوگ اسکو معراج آدم سے منسوب کر رہے ہیں، تو کوئی اسکو ماضی کی بند گرہیں کھول کر مستقبل پر کمند ڈالنے کی ایک سعی قرار دے رہا ہے۔ ماہر فلکیات ان دریافتوں کو فلکیات کے نئے دور کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ جونہی کائنات کا ایک راز منکشف ہوتا، سینکڑوں راز ہاتھ باندھے قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بقول منیرؔ نیازی۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سب سے اچھا تبصرہ جو نظر سے گزرا وہ یہ تھا۔
نیلگوں آسمان اور اہل آسمان زمین زادوں کے لیے ہمیشہ سے قابل رشک رہے ہیں۔ پتھروں کے زمانہ (سٹون ایج) سے لے کر الہامی کتابوں کے قصوں میں فضیلت اور برتری کا پلڑا اہل آسمان کے حق میں جھکا رہا۔ زمین زادے جو کے دن اور رات کے گھن چکر میں بندھے ہوئے ہیں۔ اپنی زندگی کا آدھا وقت اندھیری راتوں میں آسمان کو قابل رشک نگاہوں سے دیکھ کر گزار دیتے ہیں۔
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے زمین زادوں کا رات کے منظر میں قید چاند اور ستاروں کی کھوج بہت پرانا قضیہ ہے۔ ممکن ہے گردش ایام کی دھول سے کسی کی کھوج و جستجو میں کمی آ جائے۔ مگر زمین زادے ہمیشہ سے اہل آسماں کی جستجو میں برسر پیکار رہتے ہیں۔ زمین کی دنیا درجاتی تقسیم کا شکار ہے، پہلے درجہ کے ممالک، دوسرے درجہ کے ممالک یا تیسرے درجہ کے ممالک۔
چونکہ پہلے درجہ کے ممالک خوشحال اور نسبتا تعلیمی و تحقیقی میدان میں سبقت لے گئے ہیں۔ چناچہ زیریں درجہ ممالک نے تحقیق اور آسمان کی جستجو کے جملہ حقوق صرف پہلے درجہ والے ممالک کو سونپ دیے ہیں۔ ہمیشہ نئی دریافت یا آسمانی کھوج تمام روئے زمین والوں کو اسی انداز میں انگشت بدنداں کرتی ہے۔ جیسے اس تحقیق یا دریافت میں عملی طور پر سرگرم انسانوں کو۔
اسلیے اس دریافت پر تبصرہ اور رائے کا حق ہر اس زمین زادے کو ہے۔ جس نے آنکھوں کے نور سے رات کے اندھیرے میں آسمان سے عشق کیا۔ یہ عشق ان تمام مسائل کی قید سے آزاد ہے کہ اسکی ریاست اسکے حقوق و فرائض میں غفلت کی مرتکب ہے یا نہین؟
بارش کا پانی کتنی تباہی مچا رہا ہے؟
سیلاب ہر سال ہمارا مقدر کیوں ہیں؟
ان تمام مسائل اور مایوسیوں کے گھٹن زدہ ماحول میں خلائی مناظر سے مزین مناظر ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں۔ جن سے لطف اندوز تیسری دنیا کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔ 10 بلین ڈالر کی لاگت سے تیار شدہ "جیمز ویب خلائی دوربین" جو 25 دسمبر 2021 کو خلا کی زینت بنی۔ 12 جولائی 2022 صبح 10 بج کر 30 منٹ پر زمین زادوں کو اس دوربین کی مدد سے کائنات کی پہلی تفصیلی و قابل مشاہدہ تصویر موصول ہوئی۔ اب تک کل 4 تصاویر موصول ہو چکی ہیں۔ جن کی تفصیل درجذیل ہے۔
پہلی تصویر، یہ کائنات کا اب تک سب سے گہرا اور قابل مشاہدہ منظر سے۔ جن روشن اجسام کو دوربین نے قابو کیا ہے ان کا منبع یا متوقع طبعی عمر کم و بیش 13 ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔ عین ممکن ہے، ان میں سے کچھ ستارے ایسے ہوں، جو اپنی طبعی موت مر چکے ہوں، مگر ان کی روشنی کائنات کا سفر طے کرتی ہوئی دوربین کے لینز سے ٹکرائی ہو اور اس کے پردے نے اس کو محفوظ کر لیا۔
دوسری تصویر (سٹیفن کوئنٹٹ) یہ منظر کائنات کی خلائی دوربین کو خوش آمدی سلامی کی مانند ہے۔ لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر موجود پانچ کہکشاؤں کا ملاپ زمینی سیارچہ نما دوربین کو ہاتھ کے اشارے سے سلام پیش کر رہا ہے۔ گیلیکٹک ہائی فائیو، یعنی کہکشاؤں کی ہتھیلی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ہتھیلی کے اشارے کو فاصلاتی سلامی تشبیہ دی گئی ہے۔
تیسری تصویر (کرائنا نیبیولہ) انٹرٹینمنٹ و کھیلوں کی دنیا کو ستاروں کی آماجگاہ قرار دیا جاتا ہے، مگر یہ زمین زادوں کے خود ساختہ ستارے ہیں۔ جبکہ کرائنا نیبیولہ کا پہاڑ نما سلسلے کو ستاروں کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔ ستارے جنہوں نے مستقبل میں زمین زادوں کی آنکھوں کو اپنی چمک و دمک سے خیرہ کرنا ہے۔
چوتھی تصویر (سٹار کراسڈ لوورز) ساوتھرن رنگ نیبیولہ، کے نام سے منسوب یہ منظر فنا ہونے والے ستارے کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ جس نے اپنی پیدائش سے لے کر اپنے عروج تک اور پھر عروج سے اب زوال تک خلا میں اپنی چمک دمک کو قائم رکھا۔ یہ منظر دو مختلف تکنیکی انداز سے محفوظ کیا گیا تاکہ تقابلی جائزہ کے بعد سیکھا جا سکے سینکڑوں سال قبل ایک ستارہ کیسے معرض وجود میں آتا ہے۔
اور پھر اپنے عروج کو پہنچ کر کیسے معدوم ہوتا ہے۔ اسکو "سٹار کراسڈ لوورز" کا نام دیا گیا ہے۔ پہلی بار کسی معدوم ہونے والے ستارے کو اخراج شدہ گیس اور گرد کے غبار میں لپٹا دیکھا گیا ہے۔ جیمز ویب کی خلائی دوربین کی چھ ماہ کے مختصر عرصے میں کائنات کی دریافتوں نے ماہرین فلکیات کی کائناتی کھوج کی پیاس کو بڑھا دیا ہے۔ کائنات میں موجود خلائی اجسام، چاند، ستاروں اور سیاروں کی تخلیق و معدومیت سائنس کا گھن چکر تو ہو سکتا ہے۔
مگر زمین زادوں کو اندھیری رات میں چمکتے چاند کی مانند، خلائی دوربین کے ایسے تمام مناظر امید کی کرن اور روشن مستقبل کی نوید سناتے رہیں گے۔
شاعر نے اس تخیل کو ایک مصرعے میں سمو دیا۔
"ہم زمیں زاد نہ ہوتے، تو سِتارے ہوتے"