Jism, Rooh Ka Libas
جسم، روح کا لباس
یہ تحریر بنام صنفِ نازک (ذاتی تعلق تک محدود)، مخالف اصناف کے باہمی تعلقات کی وجوہات سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ سوچا ممکن ہے یہی معاملہ کسی اور کو بھی درپیش ہو تو ان کی آراء اور تجربات سے مفید ہوا جا سکے۔ اس لیے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ تحریر پڑھنے کے بعد اپنے ذاتی تجربات و آراء سے لازمی آگاہ کیجیے گا۔
السلام علیکم۔
آپ سے میرے تعلق کا آغاز پروفیشنل سطح پر ہوا اور مجھے کُلّی یقین ہے میں نے اس تعلق میں کبھی بھی نان پروفیشنل سرگرمی یا اپنی حد سے تجاوز کرنے کی بے وقوفی نہیں۔ باقی انسان خطا کا پتلا ہے، جذباتی ردعمل اور دباؤ کے نتیجے میں اونچ نیچ ہونا فطری امر ہے۔ آپ سے تعلق کی نوعیت بتدریج پروفیشنل سے ذاتی حد تک تبدیل ہوگئی۔ جس کی واحد وجہ آپ کا اپنی نجی زندگی کے معاملات پر مجھ سے رائے طلب کرنا تھا۔
پھر نامحرموں کا وہ پردہ، جسے اس سماج نے خود ساختہ طور پر فحاشی کا لیبل لگایا ہے وہ بھی میمز اور سماجی موضوعات پر تبادلہ خیال سے آہستہ آہستہ سرکنے لگا۔ نتیجتاً باہمی سطح پر سوچ، نظریات کا تبادلہ خیال پیشگی موجود مواد سے مستعار لیا جاتا رہا۔
چونکہ ہم دونوں مخالف صنف سے تعلق رکھتے ہیں اسلیے ہمارے درمیان نظریات، سوچ اور مزاج کا باہمی تبادلے پر مزاج، پسند/ناپسند اور مشترکات میں بتدریج یکسانیت آنے لگی، جس سے ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوئی۔ جس سے دونوں جانب دلوں میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوا۔ ایک جانب سے آواز سننے، تصاویر دیکھنے کی چاہ نے جنم لیا اور جبکہ دوسری جانب سے بدن کو بے حجابانہ دیکھنے کی خواہش نے جوش مارا۔ اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں یہ جوش جنسی، نفسانی و شہوانی جذبات کے زیر اثر ہی تھا۔
مگر جب دونوں جانب سے سماج و مذہب کی جانب سے لاگو کردہ خود ساختہ حد سے تجاوز نہ کرنے کا اظہار ہوا تو نظریات، مزاج اور سوچ کے تبادلے میں تعطل کا آغاز ہوا۔ ہر انسان کی بطور مرد و عورت سماج کو دیکھنے یا سمجھنے کا الگ زاویہ ہوتا ہے۔ ایک سماج وہ ہوتا ہے جس میں جسمانی طور پر رہائش پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا وہ جس کو انسان اپنے تخیل میں جنم دے رہا ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھا ساتھ اپنے تجربات سے اسکی بنیادوں کو مضبوط کرتا رہتا ہے تاکہ وقت آنے پر ایک اچھی عمارت استوار کر سکے۔ کسی بھی نامحرم یا محرم (صنفِ مخالف) سے تعلق کو لے میرے نظریات یہی ہیں کہ اس دنیا میں ہم مزاج و ہم خیال دوست کا ملنا بہت بڑی نعمت ہے اور اگر کسی کا مزاج آپ سے ہم آہنگ ہو جائے تو وہ شخص تا دم مرگ، آپ کا ہمراز، دکھوں کی گٹھڑی کا رکھوالا اور آنسو بہانے کے لیے تسکین والے کندھے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس جہاں میں میت (جسم) کو کندھا دینے والے شاید دسیوں لوگ میسر ہوں، مگر روح کو کندھا دینے والا ایک بھی میسر نہیں ہوتا۔ اسی روح و جسم کے قضیے میں تمام انسانی تعلقات کی اساس پوشیدہ ہے۔
مدثر مجید(سماجی ایکٹوسٹ) بھی انہی خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں: "مجھے کوئی ایسا کندھا چاہیے جو میرے درد کو کم کرے یا نہ لیکن میرے آنسوؤں کی روانی کو تیز کر دے کیونکہ میں کھل کے رونا چاہتا ہوں"۔
بحثیت غیر محرم جب ہم دونوں نے اپنے خیالات اور تعلقات کو، نجی زندگی کے تجربات اور فحاشی کے پردے سے بھی بے نیاز ہو کر استوار کر لیا تھا۔ تو اس مقام پر جسموں کا بے لباس ہونا بےمعنی اور فطری امر تھا۔ کیونکہ سوچ اور نظریات کا بے حجاب ہونا، جسموں کے بے حجاب ہونے سے زیادہ پائیدار تعلق کی نشانی ہے۔
"جسم تو محض روح کا ایک لباس ہے"۔
کسی بھی انسان کا اپنی انتہائی نجی زندگی کے تجربات اور اپنے روح/نفسانی خواہشات کا کسی نامحرم و محرم سے اظہار تعلق کی معراج ہے۔ میرے نزدیک تعلق کی بدترین شکل اور دھوکہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان کسی کے ساتھ بستر میں تو شریک ہو، جبکہ سوچ اور خیالات میں کسی دوسرے کے ساتھ ہو۔ فکری و تخیلاتی بد دیانتی ہی حقیقی بد دیانتی ہے۔ جسموں کا ایک بستر پر میلاپ ہونا محض وقتی شہوانی و حیوانی جبلت کا عکس ہے۔
کسی انسان کا خالص نجی معاملات بالخصوص نفسانی، شہوانی جذبات کا دوسرے انسان کے سامنے اظہار کرنا۔ ایسا عکس ہے جس سے اسکے اپنے والدین اور دوست تک بے خبر ہوتے ہیں۔ اس سماج میں ہم نے یہ اظہار صرف اپنی شریک حیات کی حد تک محدود کر رکھا ہے، جبکہ اکثریت اصناف وہاں بھی ان جذبات کے اظہار سے عاری پائے گئے ہیں۔
میری ناقص رائے میں محرم و نامحرم مخالف اصناف، بستر میں شریک کیے بغیر بھی خیال و مزاج سے ہم آہنگ ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ جب دنوں فریقین کو ایک دوسرے میں اخلاص اور چاہت کی جھلک نظر آئے، میں نے انسان کے انفرادی تعلق کو اس انداز سے سمجھا ہے۔ باقی اگر آپ کی سوچ میں جسم کا بے حجاب ہونا، روح کے بے حجاب ہونے سے زیادہ قبیح فعل ہے۔ تو مجھے اس سوچ اور رائے کا مکمل احترام ہے۔ اسی تناظر میں میری خواہش کے آپ اب جس بھی شخص کے ہمراہ بستر تقسیم کرتی ہے یا اسکو زندگی میں شریک بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ آپ کی روح پر بھی سب سے پہلا حق اسکا ہونا چاہیے۔
اگر آپ صرف جسمانی تعلق کسی ایک شخص سے اور روحانی تعلق کسی دوسرے شخص سے رکھنے کی کوشش میں ہیں تو یہ آپ اپنی ذات کو ایسے سراب میں مبتلا کر رہی ہیں جس کا انجام صرف پچھتاوا اور ہمہ وقت پشیمانی ہے۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ انسانی فطرت بیک وقت ایک سے زائد لوگوں سے روحانی تعلق استوار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے، جبکہ بیک وقت ایک سے زائد جسموں سے جسمانی تعلق استوار کرنا انسان میں حیوانی فطرت کا اظہار ہے۔ سماجی و مذہبی روایات میں تو شاید یہ عمل بے ہودہ و لغو تصور کیا جائے، مگر انسانی شعور اور بڑھوتری کے لیے یہ فطری امر ہے۔
مادیت کے سراب میں مبتلا تعلق کی عکاسی "کرشن چندر" نے اپنے افسانے "شہزادہ" میں یوں کرتے ہیں:
موتی سُدھا سے شادی کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ سُدھا خُوبصورت نہیں تھی۔ اُس پر سُدھا موتی سے کہتی ہے: "تم نے مجھ میں کیا دیکھا جو تم نے مجھے نا پسند کر دیا؟
کیا تم نے میرے ہاتھ کا پُھلکا کھایا، میرا مٹر پلاؤ چکھا؟ کیا تم نے میرے دِل کا درد دیکھا؟ اور وہ بچہ جو تمہیں دیکھتے ہی میری کوکھ میں ہُمک کر آ گیا تھا، دیکھا؟ تم نے وہ ہاتھ کیوں نہیں دیکھے جو زندگی بھر تمہارے پاؤں دھوتے؟ اور بٹن جو میں تمہاری قمیض پہ کاڑھنے والی تھی۔
تم میرے جسم کی رنگت سے ڈر گئے مگر تم نے اس سویٹر کا اُجلا رنگ نہ دیکھا جو میں تمہارے لیے بُننا چاھتی تھی۔ تم نے میری ہَنسی نہیں سُنی، میرے آنسُو نہیں دیکھے، میری انگلیوں کے لمس کو اپنے خُوبصورت بالوں میں محسُوس نہیں کیا، میرے کنوارے جسم کو اپنے ہاتھوں میں لرزتے ہُوئے نہیں دیکھا، تو پھر تم نے کیسے مجھے نا پسند کر دیا؟"
المختصر، اگر آپ تعلق کے اس مقام پر پہنچ کر خود کو روح اور جسم کے مخمصے میں الجھانا چاہتی ہیں تو، یہ سرگرمی آپ کی ذہنی صحت میں خرابی کے سوا کچھ نتیجہ نہیں دے گی۔ چنانچہ آپ جس سے بھی اپنا تعلق استوار کریں یا تو بلکل محدود رکھیں تاکہ ذہنی و جسمانی نشوونما متاثر نہ ہو اور اگر تعلق کو غیر محدود کرنا ہے تو پھر مادیت (قد، رنگت، روپ) اور سماجی پابندیوں سے ماورا ہو کر بے حجابانہ اپنی خواہشات کا اظہار کریں۔ خواہ وہ جسمانی بے لباسی کی شکل میں ہو یا روح کی بے حجابی کی شکل میں۔