Hath Aao To Butt, Hath Na Aao To Khuda Ho
ہاتھ آؤ تو بت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
متشکک دماغ، متجسس روح اور متلاشی آنکھیں بیک وقت نعمت و زحمت ہیں۔ کیونکہ نامعلوم دائروں کا سفر انسانی روح و جسم کو تھکا دینے والا عمل ہے۔ تجسس و تحقیق انسانی جبلت کے وہ مظاہر ہیں، اس راہ کے مسافر روز اوّل سے غیر مطمٔن اور پیاسے پائے گئے۔ نامعلوم منزل کا سفر اپنے اندر ایک الگ جاذبیت سموئے ہوتا ہے، مسافر جتنا سفر طے کرتا جائے گا اسکو منزل کے لاحاصل ہونے اور دوری کا پختہ یقیں ہوتا چلا جائے گا۔
اس سفر کے کسی بھی موڑ پر یہ ادراک اور انکشاف بالیقیں ہے کہ، افراد کی اکثریت نامعلوم کی تحقیق و جستجو کو ترک کرکے خود ساختہ معلوم کی جانب کیوں مائل رہتی ہے؟ کیونکر نامعلوم کےسفر میں معلوم واہمہ اور سراب ثابت ہوتا ہے، اس تلاش میں پیاز کی مانند تہہ در تہہ نامعلوم الجھی ہوئی گتھیوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
انسان کا غاروں سے لے کر جدید دور کے ترقی یافتہ سماج تشلیل دینےکا سفر درحقیقت نامعلوم متلاشیوں کی کوششوں کا ثمر ہے۔ ان چنیدہ اذہان اور آشفتہ سروں نے اپنی قبیل کی جانب سے تکالیف، دھتکارے جانے اور راندہ درگاہی کو گلے لگایا، جس کے نتیجے میں ذہین مخلو ق یعنی انسانوں نے ازخود اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ متشکک ومتجسس اذہان اگر انسانی سماج کا خاصہ نہ ہوتے تو یہ اشرف مخلوق آج بھی جنگلوں میں جانوروں سے برسرِپیکار نظر آتی۔ جوں جوں انسان کی بنیادی ضرورت خوراک اور جنسی میلاپ کے حصول میں رکاوٹوں کا خاتمہ ہوتا گیا، انسانی شعور کائنات میں موجود دوسرے عوامل پر غور کرنے پر آمادہ ہوا۔
انسانی شعور نے جب کائنات میں موجود تمام مظاہر و عوامل کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا تو دو بنیادی سوالات اُبھر کر سامنے آئے، اس کائنات اور تمام مخلوقات کی تخلیق کیسے ممکن ہوئی؟ تمام مخلوقات بالخصوص انسانی وجود کا اس کائنات میں مقصد کیا ہے؟ جب انسانی شعور ان نامعلوم کی تلاش میں نکلا تو انسانی تہذیب میں مذہب اور سماجی اخلاقیات، اقدار و روایات کا جنم ہوا۔ مذہب نے تخلیق کے قضّیےکو اپنے انداز سے سمیٹنے کی کوشش کی، جبکہ کائنات میں مخلوقات کے وجود اور مقصدیت کو لے کر اخلاقی اقدار، سماجی روایات، قوانین کو مرتب کیا گیا۔ تاکہ انسانی تہذیب اور باقی تمام مخلوقات کا اسماج میں متوازن وجود برقرار رہے۔
چونکہ انسانی جبلت بنیادی طور پر متجسس اور متشکک ذہن پر مشتمل ہے، لیکن یہ بھی عین حقیقت ہے کہ چند افراد ہی اس حقیقی جبلت پر قائم رہ کر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ انسانی تہذیب کے ارتقائی سفر میں دو بنیادی سوالات تاحال ایک مدلل جواب سے محروم ہیں۔ جسکے نتیجے میں انسانی تہذیب کے ہر دور میں مذہب کے وجود سےانکار کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا۔ اسی مانند انسانی شعور کو سماجی اقدار، روایات اور قوانین کے تابع کرنا بھی انسانی ارتقا کو نکیل ڈالنے سے تشبیہ دی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ نسلِ انسانی کا وجود باقی مخلوقات کے مقابل بتدریج بڑھتا چلا گیا، جس کے نتیجے میں کائنات کے وسائل پر انکا قبضہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ اس تمام مخمصےمیں بنیادی سوالات کے جوابات پر تاویلات کی تہہ در تہہ پرتیں چڑھا دی گئی۔
انسانی تہذیب کے ارتقائی سفر میں ہر آنے والا دور گزشتہ دور کے مقابل زیادہ سہل پسندی، جدیدیت اور علم کی نوید لے کر آیا۔ چنانچہ ہرآنے والے دور نے گزشتہ دور کی اقدار، روایات، قوانین اور مذہبی تاویلات کو متروک قرار دیا۔ اسی ارتقائی سفر میں سماجی روایات، اقدار اور قوانین ہر دور میں ضروریات کے مطابق تبدیل ہوتے رہے، جس کے نتیجے میں یہ تمام عوامل انسانی سماج کا اٹوٹ انگ کہلائے جاتےہیں۔ ان عوامل سے شناسائی ہر ذی روح کے لیے لازم و ملزوم قرار پائی گئی۔ ان سے انکار یا ان عوامل کی حیثیت پر سوال اٹھانا بد تہذیبی اور درندگی کا مظہر قرار پائے گا۔
انسانی تہذیب کی ارتقائی منازل میں متعدد مذاہب نے جنم لیا اور آنے والے ادوار میں اپنی تاویلات کو برقرار نہ رکھ سکے اور اس دور کے مخلوقات سمیت ہی مٹی کی زینت بن گئے۔ مذاہب نے انسانی سماج میں خالق کے سوال پر اپنی بنیاد استوار کی اور بعد ازاں اس پر اخلاقیات و اقدار کی عمارت کھڑی کرنے کا عزم کیا۔ چونکہ خالق کی تلاش ایک شعوری عمل تھا، اسی لیے ایک شعوری ذہن اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ خالق کا حقیقی علم رکھے بغیر مخلوقات کی مقصدیت کو تشکیل دے سکے۔ جب تک انسانی شعور مذہب کی جانب سے خالق کی بیان کردہ تشریح کو قبول نہیں کرتا، تب تک وہ مذہبی متن کی جانب سے سماج کی طے کردہ روایات کورد کرتا رہے گا۔
چونکہ مذہبی عناصرانسانی سماج میں اپنی حیثیت "خالق کون ہے؟"کے جواب تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتے اسی تناظر میں وہ تمام ایسے سوالات یا اذہان جو ابھی تک حقیقی خالق کے متلاشی ہیں۔ ان کو سماج اور انسانی تہذیب کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت ایسے اذہان مذہبی متن کی اُن تاویلات اور تشریحات پر سوال اٹھاتے ہیں، جو حقیقی خالق کی تلاش میں رکاوٹ ہیں۔ چنانچہ مذہبی عناصر کی جانب سے رد یا انکار کی کسی بھی قسم کی شکل ناقابلِ قبول ہے۔ خواہ وہ تشکیک پسندی کا رحجان ہو، لاادریت کی جانب سفر ہو یا پھر مکمل مذہبی خدا، تاویلات اور تشریحات کا منکر ہو کر الحاد کو قبول کرنا ہو۔
انسانی شعور تاحال خالق کے وجود کی کسی بھی مسلمہ تعریف کرنے سے قاصر ہے، جس کے باعث اس نامعلوم منزل کی جانب سفر جاری ہے۔ اس نامعلوم کی تلاش اور سفر میں انسانی علم و شعور نے نئے علوم، عوامل، مظاہر کی پرتیں آشکار کی ہیں۔ جن کے مقابل گزشتہ صدی کا انسان، اسکا علم اور ارتقائی حیثیت ایک بونے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ خالق کی تلاش اور اپنے وجود کی مقصدیت کی جانب سے سفر انسانی شعور کا بنیادی تقاضا ہے۔ نامعلوم کی تلاش کا سفر اسلیے بھی پُرخطر ہے کہ اس سفر کی بنیادی شرط پہلے سے معلوم کا انکار کیا جائے۔ کسی انسان کا اپنے وجود سے انکار اور خالق کی معلوم تشریح سے انکار ہی ایسی جست ہے جسکو سر کرنا ہر انسان کے بس میں نہیں ہے۔
نامعلوم کا بوجھ اُٹھائے زندگی گزارنا آگہی کے عذابوں میں سے سب سے تکلیف دہ عمل ہے۔ مذہبی تاویلات اور تشریحات کے متوالوں سے گزارش ہے کہ حقیقی خالق کے متلاشی اذہان کو سماج سے الگ کرنا یا راندہ درگاہ کرنے سے وہ انسانی سماج و تہذیب میں شراکت داری کی حقیقی اساس سے روگردانی کےمرتکب ہو رہے ہیں۔ ایسے تمام اذہان کی پرورش و آبیاری ہم پر بحثیت مہذب سماجی رُکن ذمہ داری ہے۔ دوسری جانب غیر مذہبی عناصر بالخصوص خدا کے وجود سے انکاری گروہوں کا اصرار ہے کہ کائنات کی تشکیل اور مخلوقات کے وجود کی مقصدیت کی تلاش تب تک ممکن نہیں جب تک تمام انسانوں کا مجموعی شعور مذہب کے دائرہ سے آزادنہ ہو جائے، یہ تاثر بھی اذہان کی شعوری اُڑان پر جال ڈالنے کے مترادف ہے۔
اس مادّی جہاں میں وجود رکھنے والی ہر چیز پر سوال اُٹھانا ایک فطری تقاضا ہے۔ عین اسی مانند وجود نہ رکھنے والے نامعلوم کی تاویلات و تشریحات پر سوال اُٹھانا غیر فطری، غیرانسانی اور شعوری پستگی کیسے ہو سکتا ہے۔ ہر آنے والا دور گزشتہ دورسے بہتر ارتقائی درجہ بندی پر موجود ہوتا ہے اسلیے یہ ناممکن ہے کہ انسانی شعور گزشتہ دور کی رائج قوانین، اقدار، روایات اور مذہبی تشریحات پر مکلمل کاربند رہے۔ جبکہ یہ روّیہ ایک مذہبی ذہن کے لیے بھی ذہرِقاتل ہے، مذہبی شعور نے بھی انسانی ارتقائی منازل کے ساتھ گامزن رہنے کے لیے گنجائش کو بنائے رکھا۔ نامعلوم کی تلاش کا عمل معلوم کی حقیقت پا لینے یا پھر انسانی شعور کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
دائرہ مذہب اور دائرہ الحاد کا تعین کرنے والوں سے گزارش ہے کہ نامعلوم کی حتمی حقیقت تک پہنچنے سے قبل انسانی شعور کو اسکی اُڑان کا بھر پور موقع دیں تاکہ انسانی تہذیب و علوم کو نئی جہتوں میں سفر کرنے کے مکمل مواقع میسر ہو سکے۔ جبکہ انسان کی جانب سے خالق کی بیان کردہ تعریف کی اتنی سی حقیقت ہے کہ جب انسانی شعور اس گتھی کو سلجھا لیتا ہے تو اسکو خدا کا وجود ایک بُت کی مانند نظر آتا ہے۔
حدِ فہم سے آگے ہیں، رِندوں کے مقامات
کسے خبر کہ کون، کہاں جھوم رہا ہے