Haqeeqi Azadi Aik Sarab
حقیقی آزادی ایک سراب
ایک نومولود بچہ اپنی پیدائش میں مکمل بے قصور ہوتا ہے، کیونکہ وہ پس منظر سے ماورا ہوتا ہے کہ اسکا وجود ایک جائز جنسی تعلق کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے یا ناجائز جنسی تعلق سے۔ بلکل اسی مانند دنیا کے نقشے پر کسی نئے ملک کا وجود میں آنا، تشکیل میں لانے والے محرکات سے ماورا ہوتا ہے۔ نومولود ریاست کی انتظامی ساخت، معاش، سماج، جغرافیہ کا انتخاب سب کچھ جائز و ناجائز سابق حکمرانوں کی ایما پر منحصر ہوتا ہے۔
دو قومی نظریہ، الگ مسلم ریاست، اسلامی تجربہ گاہ، آزاد ملک وغیرہ وغیرہ ان سب سے ماوارا ایک نئی شناخت نے جنم لیا۔ اس شناخت کے زیرِ اثر تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں قومی سلامتی اور حب الوطنی نے متعدد بار نازک موڑ دیکھا، پھر بھی سفر جاری رہا۔ سیاسی اتار چڑھاؤ، دہشت گردی کی لہر، آفات و سیلاب کسی بھی موقع پر اس نسل نے خود کو آزاد قوم کہلاوانے پر پس و پشت سے کام نہیں لیا۔
سال 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار اقتدار کا نور نئی سیاسی جماعت کو حاصل ہوا۔ گزشتہ سال تاریک حکمرانوں کے قابض آنے پر اقتدار ختم ہوا تو قوم کو احساس ہوا کہ وہ ملک جس کو نور سے تشبیہ دی گئی، اس نور پر زوال وارد ہو چکا ہے۔ آزادی سلب ہو چکی ہے، اسلامی تجربہ گاہ برباد ہو چکی ہے، ہمسایہ ملک معاشی ترقی میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اسلیے اب سے اس ملک کو آزاد کہنا اور آزادی کا جشن منانا باعثِ شرمندگی ہے۔
اگر ملک کی تشکیل کے محرکات، تاریخ اور واقعات پر نظر دوڑائیں تو انکشاف ہوگا کہ برصغیر کے خطہ پر کسی بیرونی حملہ آور نے قبضہ کرکے نیا ملک نہیں تشکیل دیا، بلکہ پہلے سے مقبوضہ لوگوں کو مذہب کے نام پر ابھارا گیا اور خطہ کی تقسیم سے ایک نئی ریاست کا وجود نکلا۔ اس تمام تحریک اور تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان پنجاب اور بنگال کے لوگوں نے برداشت کیا۔ جنہوں نے اپنی جان، مال، اولاد اور سب سے بڑھ جس دھرتی کو دیس کہتے تھے اسکو قربان کیا۔ جبکہ باقی ریاستوں نے یا تو الحاق کیا یا اپنی آزاد حیثیت سے کسی ایک حکومت کے ساتھ ضم ہونے کا اعلان کیا۔
ایک ایسی ریاست جس کا قیام ہی تقسیم کی بنیاد پر ہو اسکو ایک الگ ریاست کا نام تو دیا جا سکتا ہے۔ مگر آزاد ریاست کا نام دینا ہی "آزادی" لفظ پر ڈاکہ ہے۔ اسلیے آج تیسری نسل اپنی اپنے آباء کے اس سراب پر سر پیٹ رہی ہے۔ جبکہ ہمسایہ ملک جنہوں نے تقسیم کی مخالفت کی اور قابض حکمرانوں سے آزادی کی جنگ حقیقی انداز سے لڑی۔ انہوں نے تقسیم کے فوری بعد سابقہ حکمرانوں کی باقیات سے خود کو آزاد کر لیا۔
انگریزوں اور راجاؤں کے چہیتے جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر ریاست کے حوالے کی۔ بیوروکریسی کے نام پر مسلط عوام دشمن نظام میں تبدیلیاں لا کر اسکو عوامی خدمت کے قابل بنایا۔ ہمسایہ ملک نے آزادی کو حقیقی انداز میں انتظامی، سیاسی اور معاشی نظام کا حصہ بنایا، صرف جشن آزادی منانے یا نعروں پر اکتفا نہیں کیا۔ جبکہ "ہم لے کے رہیں گے آزادی" جیسے نعروں سے وجود میں آنے والے ملک نے تقسیم میں سب کچھ لٹا کر بچ جانے والی متاع جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی۔
تقسیم کے نتیجے میں مذہب و حب الوطنی کی آڑ میں ایک شکاری نے جنم لیا جس نے عوام اور عوامی سرمایے کا بے دریغ شکار کیا۔ اس میں افسر شاہی اور نظام نے پالتو کتے کا کردار ادا کیا۔ اس دوران کبھی کبھار عوام میں سے ہی کچھ لوگوں کو سدھا کر عوام کے سامنے مسیحا بنا کر پیش کیا۔ جب جب عوام نے شکاری کو تائب سمجھ کر مسیحا سے امید لگائی، تب تب عوام پہلے سے بھی زیادہ بدحال ہوئی۔
آزادی ایک انفرادی کیفیت ہے، انفرادی آزادی کے مجموعے پر ایک آزاد سماج تشکیل پاتا ہے۔ انسان زنجیروں میں جکڑا ہونے کے باوجود تخیل کی پرواز میں آزاد ہوتا ہے، جبکہ پیروں، ہاتھوں سے آزاد ہو کر بھی کسی سیاسی، معاشی و سماجی نظریے کا غلام رہتا ہے۔ حب الوطنی ایک سراب ہے۔ جس دھرتی پر انسان نے جنم لیا ہو، اپنی عمر کا ایک مخصوص وقت گزارا ہو، اس دھرتی سے انسیت سے ایک فطری امر ہے، ل۔ مگر اس دھرتی کو وطن کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ایک نئی شناخت دنیا کی کوئی ریاست بھی کسی انسان کو دے سکتی ہے۔ زمین کا وہ ٹکڑا جو انسان کو سماجی، معاشی و حقوق کا تحفظ اور آزادی دے "وطن" کہلانے کا حق دار ہے۔
حقیقی آزادی کے سراب میں مبتلا دوستوں سے صرف یہی درخواست ہے، اگر اپنے آباء کی مانند کسی سراب کا شکار نہیں ہونا چاہتے تو کسی بھی سیاسی جماعت یا نظریاتی چورن بیچنے والے کی منافرت کے زیرِ اثر استحصال کا شکار نہ ہوں۔ اگر زمین کے اس ٹکڑے کو وطن ماننے سے انکاری ہیں تو وطن کہلانے کے لائق خطہ میں ہجرت کر جائیں۔ اگر اس ٹکڑے پر حقیقی آزادی کے خواہاں ہیں تو سب سے پہلے اپنی سوچ، فکر اور نظریات کو آزاد کریں۔ مذہبی، سیاسی، لسانی غرض ہر قسم کی منافرت سے آزاد ہو کر غلامی کا مؤجب بننے والی زنجیریں توڑیں۔ ہم وطنوں کو لعنت ملامت کرنے یا آباء کے فیصلوں پر تنقید کرنا آسان ہے، مگر خود سے نئی جدوجہد کا آغاز کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
"حقیقی آزادی صرف آپ کے پہلے قدم کی منتظر ہے، پہلا قدم ہی دہائیوں کی مسافت طے کرتا ہے۔ "
افضل ساحر پنجابی زبان کے جدید شعرا میں سے ہیں، ان کی پنجابی نظم جو 1947 میں خطہ کی تقسیم کے محرکات کا احاطہ کرتی ہے۔ کم و بیش موجودہ حالات بھی کرداروں کی تبدیلی سے انہی محرکات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
ساڈے بابے لیکاں چمیاں سانوں مت کیہ آؤنی
انگ لمکن ننگی تار تے وچ رَت کیہ آؤنی
اسیں جھوٹو جھوٹی کھیڈ کے اِک سچ بنایا
فیر اُس نوں دھرمی لہر دا اِک تڑکا لایا
اسیں پاک پلیتے پانیاں وچ رِجھدے جائیے
یاں ہسیے گُھوری وَٹ کے یاں کھجدے جائیے
کوئی نیزے اُتے سچ وی ایتھے نہیں پچنا
بھاویں عیسٰی مُڑ کے آ جائے ایتھے نہیں بچنا
اسیں اکھاں مَل مَل ویکھیے کیہ کھیڈاں ہوئیاں
کِتے شیراں ورگے سُورمے اج بھیڈاں ہوئیاں
چنگا ای سی پُترا جے دیس چ رہندے
سانوں آن انگریجاں رولیا ساڈے بابے کہندے
اسیں جُتے وچ پنجالیاں ہل بن گئے پھائیاں
اسیں کھیتاں وچ ای بیجیاں کئی سال چھمائیاں
اسیں وِلکے روئے بُھکھ توں ساہ ٹُٹن لگ پئے
فِر لتّاں کڈھیاں چودھری اسیں گُھٹن لگ پئے
نہیں کھان پین نوں لبھدا ساڈے گھر اِچ سایا
اخے بوتل چوں نہیں پیونا ایہ دم کروایا
اسیں چِھٹی چِراون لے گئے کِنج بُوہا نکلے
جیوں بین وجائیے رُڈھ تے تاں چوہا نکلے
گئے وڈے باہر ولیت چوں شاہوکار لیائے
ساڈی کھڑی کپاہ نوں ویچیا اسیں منگ کے پائے
جد شیشے موہرے آ گئے بن افلاتونی
تد شکلاں دِسیاں کالیاں ہتھ خُونو خونی
اسیں کھڑے کھلوتے کنب گئے پرچھاویں بھلے
ساڈے آپنیاں پٹواریاں ساڈے ناویں بدلے
سانوں سُرت نہ آئی ہووندے کِنج گھاٹے وادھے
اسیں باندر کِلا کھیڈیا تے چِھتر کھادے
سانوں ٹُک دا پھاہ لے گیا سی مُلاں ولّے
دو مالک جُڑ کے بہ گئے اسِیں لکھاں کلّے
ساڈا گنا مِل نے پیڑیا رَوہ رتّی نکلی
اُس رت چوں پگاں والیاں دی پتی نکلی
اسیں مینہ توں کنکاں سانبھیاں سانوں چودھر پے گئی
ساڈا مٹی وچ مونہہ تُن کے ساڈے سِر تے بہ گئی
کیہ دساں ساہ دیئے منڈیے کِنج مندا ہوندا
میں رب نال دُکھڑے پھولدا جے بندا ہوندا۔