Balooghat Aik Shajar e Mamnua
بلوغت ایک شجر ممنوعہ
ارتقاء قدرت کا واحد گھن چکر ہے جس پر سائنس اور مذہب یکجا ہو جاتے ہیں۔ سائنس ارتقاء کی کھوج میں نئے سے نئے جہاں میں سفر کر رہی ہے۔ جب کے مذہب نے ارتقائی مراحل کو وقت کی قید سے آزاد کر کے معجزے کی چادر میں لپیٹ کر انسانی ذہنوں میں انڈیل رکھا ہے۔
قدرت کی ممتا (سائنس میں مدر نیچر) یا خالق (مذہبی عقیدے میں خدا) دونوں میں ایک قدر مشترک ہے دونوں ارتقاء کے قائل ہیں۔ الہامی روایات میں خدا نے اس کائنات کو چھ مختلف ادوار میں تخلیق کیا۔ بگ بینگ اور پھر زمین کی تخلیق سے لے کر قابل زندگی ماحول میسر آنے تک کا ارتقائی عمل بھی چھ معدوم شدہ ادوار پر محیط ہے۔
مشاہدے سے پتہ چلا مدر نیچر اور خالق دونوں ارتقاء کے عمل کی پیروی کرتے ہیں۔ کائنات بالعموم اور کرہ ارض زمین بالخصوص مختلف مخلوقات کا مسکن ہے۔ تمام مخلوقات اپنی تخلیق میں یکتا ہے مگر ان کی تخلیق سے لے کر فنا ہونے تک کے درمیانی وقفہ میں زندگی ارتقائی مراحل سے گزرتی ہے۔
انسان جو کہ خالق کی سب سے پیچیدہ اور بہترین تخلیق ہے اور سائنس کے مطابق جاندار کی بنیادی اکائیوں کی سب ارفع ارتقائی شکل ہے، انسان بھی اپنے پہلے سنہری سانس سے لے کر آخری سانس تک مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے۔ ان تمام مراحل کو مختلف نام دیے ہیں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپا۔
بچپن اور جوانی کا درمیانہ مرحلہ جس کو لڑکپن سے تشبیہ دی گئی ہے، انسانی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جس میں انسان بطور مرد و عورت میں بہت سی ظاہری و باطنی تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ لڑکپن کا مرحلہ شعوری طور پر سب سے فعال مرحلہ ہوتا ہے۔ تو ان جسمانی تبدیلیوں کا انسانی ذہن پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر انسان ان تبدیلیوں کو لے کر تجسس اور پریشانی جیسے احساسات میں فرق کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
بلوغت یا لڑکپن کا مرحلہ وہ واحد دور ہے جس میں انسان کو کسی بھی مرحلے سے زیادہ آگاہی درکار ہوتی ہے۔ تاکہ اس بلوغت کے احساس کے پس پردہ پیدا ہونے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات مل سکیں۔ بیشتر اقوام جن میں ترقی یافتہ قومیں سر فہرست ہیں، انہوں نے انسانی رویوں اور مزاج کی تبدیلیوں پر تحقیق کے بعد اپنی آنے والی نسلوں تک تعلیمی اداروں میں جنسی آگاہی اور والدین کی کونسلنگ سے بلوغت اور اس سے جڑے مسائل پر قابو پا لیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ان کی نسلیں جنسی مسائل سے چھٹکارا پا چکی ہیں۔
ترقی پذیر ممالک بالعموم اور مذہبی معاشروں میں گھرے ممالک بالخصوص جنسی آگاہی کے عمل کو اپنانے پر لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ دنیا میں تبدیلی اور جدت جس تیزی سے انسانوں کی زندگی میں سرایت کر رہی ہے۔ اسی رفتار سے جنسی کم علمی ہمارے خاندانی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلی کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ انسانی اوسط عمر میں بتدریج کمی کے ساتھ ساتھ بلوغت کے مراحل تک پہنچنے والی عمر میں کمی دیکھی گئی ہے جو کہ سرکاری اعداد و شمار میں متعین بلوغت کی حد سے بہت کم ہے۔ جس کے نیتجیے میں ذہنی ناپختگی اور جنسی تبدیلیوں کے ملاپ سے ایک غیر صحتمند اور غیر ذمہ دار افرادی قوت تیار ہو رہی ہے۔
بلوغت انسانی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کو قبول کرنا اور ذہنی طور پر تیار ہونا ہر انسان کے لیے اشد ضروری ہے۔ بلوغت کے نتجے میں انسانی جذبات و احساسات پر اثرات ناگزیر ہیں۔ جن کے مثبت و منفی پہلوؤں سے آگاہی کی بدولت ہی ایک صحتمند اور ذمہ دار زندگی کا گزربسر ممکن ہے۔
ہمارے روایتی مشرقی معاشرے میں جنسی تعلیم کو فحاشی سے تعبیر دے کر اس کی آگاہی کو رد کر دیا جاتا ہے۔ جنسی تعلیم انسانی زندگی میں اتنی ہی ضروری ہے جتنا کسی نئی سواری کو خریدتے وقت راہنمائی کتابچہ (گائیڈ مینوئل)۔ راہنمائی کتابچہ کی ہدایات و تدابیر آپ کو کسی ممکنہ حادثے کہ صورت میں بچاو سے شعوری طور پر آگاہ کرتی ہے۔ اسکا ہرگز یہ مقصد نہیں کے نئی سواری کی ایجاد حادثات میں اضافوں کا موجب بنے گی۔ بلوغت/جنسی تبدیلی زندگی کی وہ نئی حقیقت جس سے چھٹکارا ناممکن ہے، اسی بابت پیشگی آگاہی ہونا لازم و ملزوم ہے۔ مگر اس آگاہی کو فحاشی سے تشبیہ دینا معاشرے میں جنسی حادثات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اسلام بطور دین اس معاملے میں مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے، بلوغت اور اس سے جڑے تمام مسائل کے قابل عمل حل شریعت نے واضح کر رکھے ہیں۔ مگر دینی ٹھیکیدار ان مسائل کا ذکر منبر رسولﷺ کے تقدس کی پامالی سے منسوب کرتے ہیں۔ درحقیقت ان تمام مسائل کے ممکنہ حل سرکارﷺ کی اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہیں۔
ریاستی سطح پر کالج و جامعات میں جنسی تعلیم کو بطور مضمون آگاہی، اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر مکالمے کو فروغ دے گی۔ تاکہ اس سے سلسلہ میں ناگزیر قانون سازی ممکن ہو سکے۔ بلوغت کی کم سے کم عمر کا ازسر نو تعین کیا جا سکے تاکہ کم عمری کی شادی جیسے رواج کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ مستقبل قریب میں بھی ایسے موقع پر جہاں خاندانی نظام اور انفرادی جنسی خواہشات کے تصادم کا خدشہ ہو وہاں قانونی و دینی راہنمائی موجود ہو۔
اگر ہمارا مشرقی معاشرہ بچوں کی سطح پر جنسی تعلیم کو قبول کرنے پر راضی نہیں تو کم از کم والدین کی سطح پر اس آگاہی پر کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے۔ تاکہ والدین جدید دور کے خطوط پر اپنی نئی نسل کو تیار کر سکیں۔ مشرقی معاشرے خاندانی نظام کو اپنا اثاثہ گردانتے ہیں، جس کی بقا اب اسی میں مضمر ہے کہ بلوغت/جنسی تعلیم کو شجر ممنوعہ کی بجائے سایہ دار شجر سے تشبیہ دی جائے۔