Az Jinsi Junoon Ta Qabaili Jinsi Tala Bandi
از جنسی حیوان تا قبائلی جنسی تالہ بندی
گزشتہ روز کم و بیش ایک ہفتہ تعطل کے بعد سماجی میڈیائی دیوار پر واپسی ہوئی تو تواتر سے دو موضوعات زیرِ بحث تھے۔ اول معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا "ہم سب" پر شائع ہونے والا نیا مضمون، دوم کراچی میں جنسی و ذہنی مرض کا شکار مرد کی نیم برہنہ حالت میں عورت پر حملہ آور ہونے کی ویڈیو۔
چونکہ دونوں موضوعات و واقعات میں مرد بطور ظالم، مردود اور زمین پر خدائی مالک پیش کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں نسائیت کے حامی اور غیر حامی حلقوں میں ان پہلوؤں پر مباحث پوری شدت سے جاری ہیں۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نہ صرف پروفیشنل گائناکالوجسٹ ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ عورتوں کے ایسے مسائل جن کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے ان کو اجاگر کرنے میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
ایک پروفیشنل اور سماجی حیثیت کے تناظر میں ان کی طبی معاملات پر آراء، عورتوں کے مسائل پر راہنمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی پس منظر کو لے کر ڈاکٹر صاحبہ کے مضمون میں بیان کردہ مواد پر ردعمل آنا ایک فطری امر تھا۔ چونکہ اس مضمون میں عورت کی شرمگاہ کو لے کر ان کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی ظلم کو سماجی روایت، بالخصوص قبائلی رسم و رواج سے جوڑ دیا گیا۔ جس کے باعث مضمون میں بیان کردہ مبینہ حقائق کی صحت پر سوالیہ نشان اٹھائے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی سماجی میڈیائی دیوار پر اپنے مضمون کے حق میں بطور دلائل مختلف گائناکالوجسٹ کی تصدیقی آراء بھی عوام تک پہنچائی ہیں۔ مگر قبائلی پس منظر سے آگاہی رکھنے والے اور اس سماج میں پلنے، بڑھنے والے ڈاکٹر صاحب کے دعوی کو ماننے سے انکاری ہیں۔ قبائلی پس منظر رکھنے والے اکثریتی ترقی پسند، وسیع النظر اور باشعور افراد نے اس دعوی کو سراسر مسترد کیا ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کو نظرِ ثانی کا مشورہ دیا ہے۔ تاکہ وہ قبائلی سماج سے لاعلمی اور وہاں کی رسم و رواج کے متعلق از خود رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔
میں ذاتی حیثیت میں ڈاکٹر صاحبہ کے دعوی کی تصدیق یا تردید کرنے کا منشور تو نہیں رکھتا۔ اگر بطور پروفیشنل ان کا واسطہ کسی قبائلی پس منظر خاتون سے پڑا ہوگا تو یہ بات ان کے زیرِمشاہدہ رہی جس کا اظہار انہوں نے مضمون میں کر دیا۔ مگر جذباتیات کی روانی میں ڈاکٹر صاحبہ کا یہ دعوی کرنا کہ:
"جاؤ پوچھو قبائلی علاقوں کی عورت سے جو ویجائنا پہ تالہ لگوا کر زندگی گزارتی ہے۔ جس کی چابی شوہر کی جیب میں رکھی ہوتی ہے"۔
سراسر مبالغہ آمیزی اور تمام قبائلی روایات پر حملہ ہے۔
زمانہ طالبعلمی میں بہت سارے قبائلی لوگوں بشمول مرد و زن سے روابط رہے اور ابھی تک رابطے میں مگر کسی بھی مرد کی جانب سے ایسی کسی رسم/رواج یا قبائلی روایت کا ذکر نہیں سنا۔ قبائلی اور پختون جن کو اپنے رسم و رواج اور سماجی روایات پر فخر ہے۔ وہ اپنی رسوم خواہ وہ جدید دور میں کتنی ہی قدامت پرست کیوں نہ ہوں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحبہ کے دعوی کے مطابق قبائلی عورتوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک رسوم کا حصہ ہے تو کسی نہ کسی شکل میں کسی قبائلی مرد کی جانب سے اس پر فخریہ اور طنزیہ اظہار لازمی سننے کو ملتا۔
اس پہلو کا دوسرا اور قابلِ ذکر پس منظر یہ ہے، جب ڈاکٹر صاحبہ نے قبائلی عورتوں پر اس غیر انسانی سلوک کا مشاہدہ کیا تو بطور پروفیشنل اور طبی ماہر اس کے خلاف کیا عملی اقدام کیا؟ ڈاکٹر صاحبہ کا صحافی یا کسی لکھاری کی مانند ایسے غیر انسانی سلوک پر لکھ دینا ہی کافی نہیں۔ بلکہ ایسے غیر انسانی سلوک پر ملک گیر مہم چلانا لازم و ملزوم تھا۔ تاکہ شواہد کے ساتھ مظلوم کی داد رسی اور ظالم کے ہاتھ روکے جا سکتے۔
کسی بھی منفی سماجی، اخلاقی یا انسانی رویے کو ایک مخصوص قوم، مذہب، نسل یا علاقے سے منسوب کرنا نہ صرف اس ظالمانہ و منفی رویے کی بے سبب تشہیر کا سبب بنتا ہے۔ بلکہ اس منفی رویے کے خاموش حمایتوں میں اضافہ ہوتا ہے، ایسے ناپختہ جنونی اذہان جو ابھی اس رویے کو منطقی انداز سے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، وہ بطور تجربات ایسے غیر انسانی جنسی عمل کو زیرِ مشاہدہ لانے کی کوشش کریں گے۔ اکیسویں صدی میں کسی بھی سماجی، انسانی اور قبائلی رسوم میں ایسے غیر انسانی عمل کی گنجائش باقی نہیں۔ مگر کسی بھی سماج میں ذہنی و جنسی بیماروں کا ناپید ہونا ناممکن ہے۔
ایسے تمام مشاہدات، واقعات و موضوعات جن میں جنسی حیوانیت اور ذہنی بیماری کا شائبہ ہو اسکو کسی مخصوص سماج، قوم یا قبیلے سے جوڑنا ظالم کو ایک ان دیکھی پناہ گاہ کی راہ دکھانے کے مترادف ہے۔ اسلیے گزارش ہے ایسے تمام واقعات میں ظالم کو ایک ذہنی و جنسی مریض کے سابقے سے پکارا جائے۔
دوسرا سماجی موضوع سی سی ٹی وی کیمرہ کی ایک فوٹیج ہے۔ جس میں ماسک لگائے نیکر میں ملبوس نوجوان ایک عبایہ میں ملبوس لڑکی کو دیکھ کر ہواس باختہ ہو کر۔ نیم برہنہ حالت میں اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں دوبارہ واپس اپنی موٹر سائیکل پر فرار ہو جاتا ہے۔ اس وڈیو کو لے کر نسائیت کے علمبرداروں نے دنیا بھر کے مردوں کو مردود سے لے کر ذہنی و جنسی حیوانوں تک کے القابات سے نواز دیا ہے۔
تاحال وڈیو میں موجود جنسی درندہ گرفتار نہیں ہو سکا اور سماجی حلقوں میں اس موضوع کو لے کر بھی مباحث زور و شور سے جاری ہیں۔ جنسی حیوانیت، درندگی یا بیماری کسی ایک مخصوص قوم، ملک، سماج یا نسل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسائل کسی نہ کسی شکل میں ہر قوم اور سماج کا حصہ ہیں، اس سے انکار نہیں۔ مگر کیا تمام دنیا میں موجود اقوام اور سماجوں کے مرد اسی شدت سے جنسی رحجان رکھتے ہیں۔ یہ دعوی بھی سراسر مبالغہ آمیزی ہے۔
مشرقی سماج بالخصوص پاکستان میں عورتوں کے ساتھ عوامی جگہوں پر ایسے واقعات متعدد بار رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ نابالغ لڑکے بھی متعدد بار جنسی درندوں کی جانب سے ایسے رویوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ عورت کے جسم کو چھونا اور اسے لذت حاصل کرنا، مشرقی مرد کی جنسی گھٹن کا ردعمل ہے۔ مغربی سماج میں عورت یا اسکے جسم تک رسائی عام فہم عمل ہے، اسی وجہ سے اس سماج میں عورت کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں جن کا عملی اظہار ان کی پورن انڈسٹری میں کیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا اس منفی رویے پر قابو پانا ممکن ہے؟
تو اسکا جواب ہے؛ ناممکن۔ لیکن اس رویے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس کے لیے اقدامات کسی ایک صنف، ادارہ یا سماج کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ بحیثیت مجموعی ایک فکر کا آغاز ہے۔ مردوں کا بطور بھائی، باپ، دوست یا بیٹا ہر ایسے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا جو کسی بھی عورت کی جانب جنسی کشش کو جنسی درندگی میں تبدیل کرے۔ کیونکہ جنسی کشش فطری عمل ہے جبکہ جنسی درندگی ذہنی گھٹن اور حیوانی مظہر ہے۔ عورتوں کو بطور ماں، بہن یا بیٹی اپنے مردوں کو عورت کی حساسیت اور جسم کی عزت کرنے سے آگاہی دینا۔ گھر میں موجود مرد کو احساس دلانا کے گھر سے باہر عورت کا جسم بھی اتنا ہی مقدس اور پاک ہے جتنا گھر میں موجود عورت کا۔
سماج میں موجود بالغ مرد و عورت کے رویوں کو ہمہ وقت قابلِ مشاہدہ رکھنا، سماجی ٹھیکیداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ کسی بھی محفل یا نشست میں مرد کی جانب سے کسی بھی جنسی حیوانی کارنامے کو فخریہ انداز سے پیش کرنے والے محرک کی سرکوبی کرنا ہی ایسے عمل کے فروغ میں رکاوٹ کا پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ جنسی درندگی سے بچاؤ اور روک تھام کے لیے، نابالغ بچے اور بچیوں کو بچپن سے اچھے اور بُرے لمس سے آگاہی دینا سب سے بڑا عملی قدم کہلاتا ہے۔
یہ موضوعات اور واقعات انسانی تہذیب کا صدیوں سے حصہ ہیں، ان کے تدارک اور روک تھام پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے، تاحال بہت لکھنے کی گنجائش باقی ہے۔ مگر اس بحث کو پائیلو کوئیلو کی کتاب "گیارہ منٹ" سے مکالمہ بطور اقتباس پیش کرکے سمیٹنا ہوگا۔
ماریہ: ایسا کیوں ہے کہ مرد صرف جنسی اختلاط کے متعلق ہی سوچتے ہیں، بجائے اسکے ایسا رویہ اختیار کریں جو آپ نے مجھ سے کیا؟ یہ کھوج لگانا کہ میں کیسا محسوس کرتی ہوں۔
رالف ہارٹ: کس نے کہا کہ ہم صرف جنسی اختلاط کے بارے میں سوچتے ہیں؟
اس کے برعکس، ہم اپنی زندگی کے کئی سال اس کوشش میں گزارتے ہیں کے اپنے آپ کو قائل کریں کہ جنسی اختلاط ہمارے لئے اہم ہے۔ ہم محبت کے متعلق طوائفوں سے سیکھتے ہیں یا کنوارے لوگ ہمیں پنی کہانیاں سناتے ہیں۔ ادھیڑ عمری میں کم عمر دوشیزاؤں کا ذکر کرتے ہوئے ہم زور و شور سے اپنے سامعین کو کہانیاں سناتے ہیں۔ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے ہم عورتوں کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔
ہم انزال کو جنسی اختلاط کا اختتام سمجھ بیٹھے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم سیکھ نہیں سکے کیونکہ ہم (مرد) کم ہمت ہیں، ایک عورت سے اسکا جسم دیکھنے کا اظہار کر سکیں۔ ہم سیکھ نہیں سکے کیونکہ عورتیں کم ہمت ہیں کہ وہ اظہار کر سکیں مردوں سے ان کو جنسی اختلاط میں یہ عمل زیادہ پسندیدہ ہے۔
تم جانتی ہو کہ مردوں کے لیے جنسی اختلاط سے بڑھ کیا چیز زیادہ اہم ہے؟
شاید پیسہ یا طاقت۔ میں نے سوچا مگر خاموش رہی۔
(ماریہ)
"مرد کے لیے زندگی میں سب سے اہم جسمانی کسرت (کھیل) ہے۔ کیونکہ ایک مرد دوسرے مرد کے جسم کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کے جسمانی کسرت ایک دو طرفہ مشق کا نام ہے، جس کی مدد سے دو اجسام ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں"۔