Aurton Ki Mulazmat Aik Jaiza
عورتوں کی ملازمت ایک جائزہ
ایک دس سالہ لڑکی سے پوچھا گیا کہ:"مائیں ملازمت کیوں کرتی ہیں؟"
اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا:"بعض مائیں تو روپے کے لالچ میں کام کرتی ہیں اور بعض اس لیے کہ وہ کام کرنا پسند کرتی ہیں۔ بعض اسکے لیے کے وہ اپنے بچوں سے دور رہنا چاہتی ہیں۔ "
عورتوں میں ملازمت کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ بعض عورتیں ذاتی وقار بڑھانے کے لیے ملازمت کرتی ہیں، بعض روپیہ کمانے کے لیے اور بعض کہتی ہیں کہ ہم اپنی ملک و قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ اور بعض کو گھریلو دھندوں میں پڑ کر اپنی زندگی ایک مشین کی مانند گزار دینا پسند نہیں۔
بعض عورتیں ملازمت سے ترقی کے اعلی مدراج تک پہنچنا چاہتی ہیں اور کچھ شہرت، نام و نمود کی بھوکی ہوتی ہیں۔ ایسی عورتیں اخبار و رسائل میں سالوں کام کرتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے کام کرتی ہیں۔
عورتوں کے ملازمت اختیار کرنے کا سب بڑا سبب ان کو معاشرتی و ازدواجی سکون میسر نہ ہونا ہے۔ خاوند اور بیوی کو بِلا ضرورت ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع نہیں ملتا اسی باعث عورتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایک عورت کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی گھریلو زندگی خوشگوار انداز میں بسر کرے، لیکن جب وہ یہ محسوس کرتی ہے تو اسکے گھر میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہے ان کو دوسروں کے جذبات و احساسات کا بلکل بھی خیال نہیں ہے۔
یہاں تک کہ اسکا شوہر بھی اس سے کاروباری انداز میں بات چیت کرتا ہے تو بیوی کی بے چینی اور مایوسی کی انتہا نہیں رہتی اور وہ اپنے اس غم و اضطراب کو چھپانے کی خاطر دوسرے کام دھندوں میں مصروف رہنا چاہتی ہے اور گھر اسکو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔
ایک نوبیاہتا بیوی سے اس بابت دریافت کیا گیا تو اسکا کہنا تھا: "جب میری شادی ہوئی تو میں بے حد خوش تھی۔ مجھے نیا نام، نیا گھر اور نیا طرزِ زندگی ملا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ مجھے اپنے خاوند اور بچوں سے بے انتہا محبت ہے۔ لیکن یہ سہانا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔
مجھے اپنے شوہر سے کبھی ایک بیوی کی حیثیت سے بات کرنے کا موقع نہ ملا اور نہ ہی اس نے میرے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بلکہ مجھے سب کے جذبات کا خیال رکھنا پڑتا تھا اور میرے لیے یہ سب سے تکلیف دہ بات تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھریلو بیوی کو وہ مقام اب تک نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے۔ "
بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے جتنے بھی ادارے کام کر رہے ہیں وہ سب متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ ملازم پیشہ والدین کے بچے والدین کا فطری پیار نہ ملنے کے باعث ذہنی طور پر صحت یاب نہیں ہوتے۔ ان بچوں کے مقابلے میں جو والدین کی نگرانی میں پرورش پاتے ہیں۔ گھر سے دور نرسری، بورڈنگ یا ہاسٹل سکولوں میں پرورش پانے والے بچے خاصے کند ذہن ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے بے خاماں ہونے کا احساس شروع سے ہی ستانے لگتا ہے۔
جو بچے گھروں پر بوڑھی دادی یا نانی کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ان کا حال ان سے بھی ابتر ہوتا ہے۔ یہ عمر رسیدہ عورتیں دن بھر گھر کے کام دھندوں میں اتنی مصروف رہتی ہیں کہ بچوں کی خاطر خواہ نگرانی نہیں کر پاتی۔ شام کو جب والدین تھک ہار کر گھر لوٹتے ہیں تو بچوں کو فطری وقت دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ نتیجتاً لاکھوں بچے والدین کی موجودگی میں یتیموں والی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
ماہرینِ معاشرت کے لیے یہ مسائل اتنے پچیدہ ہیں کہ انہیں حل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ عورتیں کاروبارِ زندگی میں اس حد تک آگے جا چکی ہیں کہ ان کا واپس اپنے گھروں کو سنبھالا ناممکن ہے۔ ان کا ایک خاص ماحول اور ایک سانچہ بن چکا ہے، جس میں وہ خود کو ڈھال رہی ہیں۔
اس کے لیے معاشرے کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پہلے پہل اس نے ہی عورتوں کو گھر سے باہر آنے کا مشورہ دیا تھا۔ کس نے خانگی زندگی کا یہ کس قدر پُر فریب تصور دیا تھا کہ مرد و عورت دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔ وہ دونوں گھر کے مساوی مالک ہیں، اس لیے دونوں کو گھر کی ضروریات کے لیے آمدنی کے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔
مرد نے سوچا وہ اکیلا کیوں خون پسینہ ایک کرے۔
کیا عورت اس میں ہاتھ نہیں بٹا سکتی؟
ضرور وہ بھی آسانی سے کام کر سکتی ہے؟
عورت نے سوچا مرد کی کمائی پر کیوں اکتفا کروں مجھے خود کام کرنا چاہیے۔ اس کو جواز بنا کر اس نے خود کو دھوکا دیا کہ جو آمدن ملازمت سے حاصل ہو گی اسے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر خرچ کرونگی اور ہمارا گھر جنت بن جائے گا۔ لیکن جب یہ تصور عملی شکل میں ناکام ہوا۔
تو اب وہی لوگ اس کی خرابیوں پر نالاں ہیں جنہوں نے عورتوں کو مردوں کے دوش بدوش کام کرنے کی تلقین کی۔ انہیں اس حد تک خطرہ لاحق ہے کہ اگر عورتوں نے میدانِ ملازمت میں داخل ہونے کی رفتار تیز رکھی تو وہ دن دور نہیں جب معاشرتی زندگی ایک ایسا جہنم بن جائے گا جسکا فرد خود اپنی ہی لگائی ہوئی آگ سے جل اُٹھے گا۔
(مندرجہ بالا اقتباس "نارمن ایم لوبینز" کے مضمون "امریکی عورتیں ملازمت کیوں کرتی ہیں؟" سے اخذ کیا گیا۔ جو کہ "ریڈ بک" نامی ڈائجسٹ میں سنہ 1961 شائع کیا گیا تھا۔ جب اسکا اردو ترجمہ 1962 میں"اردو ڈائجسٹ" میں شائع کیا گیا۔ اس مضمون کی اردو ڈائجسٹ ڈیجیٹل نقل "محترم مبشر زیدی کے آن لائن کتب خانے" سے حاصل کی گئی ہے۔)