Plastic Cancer Kya Hai?
پلاسٹک کینسر کیا ہے؟
1950 میں پلاسٹک سے متعلق، سائنسدانوں کی ٹیم نے ایک دل دھلا دینے والا انکشاف کیا۔ انکے مطابق مستقبل میں موت کی سب سےبڑی وجہ پلاسٹک ہوگا۔ اس بات کو سمجھانے کیلئے انہوں نے اسے "پلاسٹک کینسر" کہا۔ اس وقت لوگوں کے لیئے یہ بات اتنی اہم اور خوفزدہ کرنے والی نہیں تھی کیونکہ اس وقت تک پلاسٹک گھروں میں کھانے کی میز تک نہیں پہنچا تھا۔
ایک دہائی بعد دنیا میں پلاسٹک کی بڑھتی مانگ کی وجہ سے پلاسٹک کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوا اور 70کی دہائی کے آخر تک یہ قیمت دگنی ہوگئی۔ پاکستان جیسے ممالک میں پلاسٹک کے برتن اور پلاسٹک سے بنی گھریلو استعمال کی اشیاء متعارف کرائی گیئں۔ جسے لوگوں نے بے پناہ پسند کیا۔ لوگ باہر سے آنے والے دوستوں رشتہ داروں سے پلاسٹک برتن منگوانے لگے۔ بڑھتی مانگ دیکھ کر یہاں پلاسٹک کے کارخانے لگ گئے، زیادہ سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پلاسٹک کو بار بارreuseکیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ کھانے پینے کے برتن بھی کچرا پلاسٹک سےبنانے لگے، جسکو عوام کی بھر پور پزیرائی ملی۔ یوں وقت کیساتھ پلاسٹک ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔
پلاسٹک جرمن سائنسدانوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں ایجاد کیا، اسے بنانے میں خام تیل، سیلولوس، خام گیس کا استعمال کیا گیا۔ یہ آج مزید خطرناک کیمیکل کی آمیزش سے تیار کیا جا رہا ہے۔ آج تقریبا ہر چیز پلاسٹک سے بنائی جا رہی ہے، یہ لوہے کی نسبت سستا ہوتا ہے اور زنگ نہ لگنے کی وجہ سے موسم کے اثرات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
آج صحت سے متعلق ہر بیماری کا کسی نہ کسی طرح پلاسٹک سے تعلق بنتا ہے۔ پولی تھائلین، بسفینول ایک خطرناک کیمیکل ہے جو ہوا اور دھوپ میں گھلتے ہیں، عام ملنے والے شاپنگ بیگز اور کھانے کے برتن اسی کیمیکل سے بنے ہوتے ہیں۔ حالانکہ برتن اور بوتل بنانے والے کارخانے فوڈ گریڈ کی سٹیمپ اور نمبر بھی لگاتے ہیں مگر ساینسدان پھر بھی اسے ایک بار استعمال سے زیادہ نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔
طویل عرصے کے استعمال سے انسانوں میں سانس کی بیماریاں، گردے اور پھیپڑے کا کینسر، ہارمونزکے بڑھتے مسائل، ہمارا جسم 3-4mmکے کم ذرات ھضم نہیں کر سکتا، یہ پانی میں بھی گھل نہیں سکتے جو بعد میں گردے کی پتھری بن جاتے یا pathogens بن کر جسم کا حصہ بن جاتے ہیں، جلد کی بیماریاں، دماغی اور نفسیاتی مسائل۔ اس طرح ماحول دوست نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کی تمام مصنوعات ہمیں کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ مائکروویو کے استعمال سے پلاسٹک ذرات بہت آسانی سے کھانے میں شامل ہو کر ہمارے معدے اور گردے کی کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
انہی تمام انجان بیماریاں کو اسوقت کے ساینسدانوں نے پلاسٹک کینسر کا نام دیا تھا۔ انہی مسائل سے گھبرا کر بہت سے ملکوں نے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے جن میں بنگلہ دیش سر فہرست ہے۔ بنگلہ دیش نے پلاسٹک کے مسائل کو سمجھتے ہوئے 2002میں پابندی عائد کرکے پلاسٹک بند ملکوں کی دوڑ کا آغاز کر دیا بعد میں 2008 میں رواندا، 2016میں فرانس، پھرکینیا، اٹلی، بھارت، برطانیہ، کینیڈا نے بھی اپنے ہاں سختی سے ممکنہ طور پر پلاسٹک پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔