Hamare Hathon Urdu Ki Maut
ہمارے ہاتھوں اردو کی موت
ایک وقت تھا جب اردو کو شاعروں کی زبان کہا جاتا تھا تھا، اردو بولنے والوں کیلئے ازخود ایک ادبی سی کیفیت اجاگر ہو جاتی تھی۔ اردو کی مٹھاس آپ کو لکھنو کی مٹھائی معلوم ہوتی تھی۔ مغل خاندان کے عروج کے سبب اردوکو ہندوستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل تھا۔ اردو کے عروج کے دور میں اسے "محبت کی زباں" کا خطاب بھی ملا رہا۔ یہ اردو ہی کی خوبصورتی تھی کہ فیض نے انگریزی زبان میں ماسٹرز کے باوجود اردو کو ذریعہ اظہار شاعری کی شکل میں بنایا۔
اردو کی اسی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوئے سرسید نے اردو، ہندی کو دو بہنیں کہا تھا۔ اردو لکھنو، آگرہ اور دہلی کا سفر کرتے ہوئے ہم تک پہنچی۔ تقسیم کاری کے بعد ہم نے اسے قومی زبان کا درجہ دینے کی بھرپور کوشش کی، حالانکہ اس وقت بھی اور آج بھی علاقائی زبانوں کا زور نہیں ٹوٹ سکا مگر اردو اپنی بچی کچھی ساخت کے ساتھ آج بھی خوداری بچائے زندہ کھڑی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے جس زبان کا دفاع کرتے اپنی جانیں دیں۔ جس زبان کے رسم الخط ہماری تہذیب اور ہماری روایت کا عکاس ہو آج اپنے ہی وطن میں اپنی شناخت ڈھونڈ رہی ہے۔ آج ہر والدین کی کوشش اپنے بچے کو انگریزی روانی سے بلوانا ہے، آج کی عدالتی زبان انگریزی ہے، آج معاشرے میں حسب نسب کا معیار انگریزی ہے اس سے بڑا ظلم اور کہا ہو سکتا ہے کہ ہم نے اپنا طرز رہائش اور معیار زندگی بھی انگریزی طرز کا اپنایا ہوا ہے۔
آپ کی سب دلیلیں بجا مگر یہ بھی یاد رکھیں قوموں کے زندہ اور مردہ ہونے سے زبان کا بہت گہرا تعلق ہے، آپ کی زبان نہیں مر رہی بلکہ آپ دھیرے دھیرے اپنی شناخت اور اپنی قوم کو مار رہے ہیں، فرانس، جرمنی، اٹلی، چائنہ اور سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اپنی زبان بچانے کے لیے مر مٹے اور آج ہمارے سامنے یہ ایک خودمختار قوم کے طور پرموجود ہے۔
ذرا غور کریں آپ نے اردو کو گھر سے نکالنے کی کون کونسی کوشش نہیں کی مگر اردو اپنی وفا کی آخری سانسیں لیتی آپ کے دروازے پر بیٹھی ہے۔