Hamara Taleemi Nizam Aur Titanic
ہمارا تعلیمی نظام اور ٹایٹینک
ہم اس صدی کی آخری بیوقوف قوم ہوگی، جو ڈیڑھ سو سال سے دوسروں کا تعلیمی نظام اپنے سر پر لاد کر ایک منظم قوم بننے کی ایکٹنگ کر رہی ہوگی۔ ہمارے ہر ادارے کی طرح ہمارا تعلیمی نظام بھی مکمل طور پر ڈیفالٹ ہو چکا ہے۔ اب اس میں مزید خراب ہونے کی رتی بھر بھی گنجائش باقی نہیں۔ ہمارےEducation system نے ہمیں ناامیدی اور ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔ آج قوم کا ہردوسرا شخص "پڑھا لکھا" ہے مگر ہمارا معیار دنیا کے آج بھی 151 ملک سے بھی گیا گزرا ہے۔
ہم نے کاٹھے انگریز اور کاٹھے سائنسدانوں کا لنڈا بازار لگا دیا، ہم نے ایسے سائنسدان پیدا کئےکہ اپنی خود کی گاڑی اور گھر کی وائرنگ بھی ٹھیک نہیں کر سکتے، ہم سے سولہ سولہ سال انگریزی میڈیم سکولوں کی بھاری بھرکم فیسیں دینے کے باوجود بھی انگریزی بولنے سے عاری قوم کو جنم دیا۔ ہمارے education systemکو اب دنیا سومالیہ، سری لنکا، نیروبی کے تعلیمی نظام سے compareکرنے لگی ہے۔ اسی سالوں میں ہم نے صرف پرچی پاس بیروزگار قوم پیدا کی ہے۔ ایک ایسی قوم جس کا شعوری طور پر تعلیم کو نوکری کی سیڑھی بنانا مقصد ہو اسکا موجودہ دنیا میں چند قدم بھی چلنا ناگزیر ہے۔
بیوقوف والدین آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ، ہم مہنگےسکولوں میں پڑھا کر بچوں کو سکالر بنا رہے ہیں، ہم بچوں کو سائنس رکھوا کر سائنسدان بنوا رہے ہیں، انگریزی بولنا ہی ذہانت کا علمی معار ہے۔ مگر حقیقت اسکے بلکل برعکس ہے۔ مہنگے سکول تہذیب اور اخلاق سے عاری ربوٹ بنا رہے ہیں۔ ان مشینوں میں نہ تو مستقبل شناسی ہے اور نہ ہی احساس نام کا کچھ جراثیم۔ ہمارے تعلیمی نظام سے نکلنے والے سائنسدان دنیا کے 160 ملکوں کے بڑے سائنسدانوں میں تک نہیں آتے۔
انگریزی بولنے کا یہ عالم ہے کہ ہماری لکھی گئی انگریزی کی کسی بھی کتاب کو آج بھی نہ ہی علمی اور نہ ہی عالمی شہرت کا درجہ مل سکا ہے۔ چلیں انگریزی کو ایک طرف رکھیں ہم نے عربی میں کونسا قلعہ فتع کیا ہے، فارسی میں ہمارے پاس اقبال کو دکھانے کے سوا کچھ بھی تو نہیں (یہ بھی یاد رہے کہ اقبال متحدہ ہندوستان کے متحدہ قومی شاعر تھے)ڈیفالٹ شدہ تعلیمی نظام سے مستفید شدہ کسی بھی سٹودنٹ سے پاکستان کا قومی ترانہ مکمل سن لیں، بیراج اور ڈیم کا فرق پوچھ لیں، تین "کیش کراپس" کا نام پوچھ لیں، پاکستان کا مجموعی بجٹ یا ہمارا سالانہ بجلی کا شارٹ فال کتنا ہے، کچھ بھی جواب کی توقع رکھنا عبث ہے۔
چلیں یہ تو دیسی سے سوال تھے شائد بہت سوں کے circle of interest میں نہ ہوں تو اپنے آقاوئوں کے بارے میں کچھ پوچھ لیں مثلا برطانیہ کی پہلی وزیراعظم کا نام کیا ہے، امریکہ کے قومی بنک کا نام کیا ہے، ایمازون کیا ہے؟ اٹلی کے آخریdictatorکا نام، کیا جرمنی کا پاس ایٹم بم ہے؟ کیا ڈینمارک میں سمندر ہے؟ میکسیکو کا باقی ملک سے کیا جھگڑا ہے، چائنہ کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن کیا ہے؟
تو آپ نے خود دیکھا یہ تھا ہمارا تعلیمی ڈھانچہ، ماسوائے تعلیمی گدھے پیدا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں، جیسا گدھے پر میڈیکل کی کتابیں لاد دینے سے وہ ڈاکٹر نہیں بن جاتا ویسے ہی ہمارے سکولوں میں آکسفورڈ کی کتابیں پڑھا دینے سے ہم کاٹھے انگریز سے مکمل انگریز نہیں بن سکتے۔ پہلے یہ تو سوچ لیں آکسفورڈ اور کیمبرج نے اپنے تعلیمی نظام کو بنانے اور بچانے کیلئے کتنی قربانیاں دیں۔ جس ملک کے وزیروں کو بھی درجن اور کلو کا فرق معلوم نہ ہو اس قوم سے یی امید رکھی جا سکتی ہے۔
آج کا سکول، کالج اور یونیورسٹی کا مقصد صرف والدین کے محنت کی کمائی کو جیبوں سے اپنے اکاونٹ میں منتقل کرنا ہے اسی کو تعلیمی نظام کہتے ہیں، اور بدلے میں اخلاق، تہذیب، تعلیم، علم، عقل، خردمندی، خوداری، ذہانت اور دانشمندی سے خالی عاری قوم ڈیفالٹ ملک کی جھولی میں پھینکنا، جب ہمارے نظام کا عمومی رویہ ہی یہ ہوگا تو کیسے ممکن ہے کہ یہاں، ہر سال بیروزگاروں کی تازہ کھیپ تیار نہ ہو، کیسے ممکن ہے کرپٹ سیاستدان، مجرم عدلیہ پیدا نہ ہو، کیسے ممکن ہے جہالت کے سمندر میں ایک دریا اور شامل نہ ہو۔
اسی سالوں سے اس کرپٹ اور بے مقصد تعلیمی نظام نے کچھ ایک تو سائنسدان پیدا کیا ہوتا، کچھ ایک تو ادبی شخصیت کو جنم دیا ہوتا، کوئی ڈاکٹر، کوئی مصور۔ ان سب کو بھی چولہے میں ڈالیں، ان اسی سالوں میں کوئی ایک generation تو خوداری کی دولت سے لبریز پیدا کی ہوتی، مگر نہیں ایسا نہیں ہوا، آم کے بیج لگا کر درخت پر سیبوں کی امید لگائے رکھنا بے معنی ہے، اس وقت دو باتیں شدت سے یاد آ رہی ہیں، پہلی بات تولارڈ میکالے کی جب وہ ہماری تعلیم یافتہ نسل کو/ ناریل coconutsکےنام سے یاد کرتا تھا، یعنی باہر سے کالے (ہندوستانی) اور اندر سے گورے (برطانوی)۔
اور دوسری ڈیڑھ سو سال پہلے کہے اکبرآلہ آبادی کے وہ شعر؎
ہر ایک کو نوکری نہیں ملنے کی
ہر باغ میں یہ کلی نہیں کھلنے کی
کچھ پڑھ کے تو صنعت و زراعت کودیکھ
عزت کے لیے کافی ہے اے دل یہ نیکی
جتنا بوجھ آج سکول جانے والا بچہ اپنے bag کا اٹھا رہا ہے، اس سے دوگنا بوجھ، اس بے مقصد تعلیمی نظام کی بنا پر ہماری معیشت اٹھا رہی ہے اور اس سے تگنا بوجھ دنیا پر اس قطعہ ارض کے پڑھے لکھے جوانوں کے سمندر کا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ بحرالکاہل تو جنوبی امریکہ میں جا کر گرتا ہے مگر بحرالجاہل کہاں جا کر گرے گا؟ بس عقل سے پیدل قوم کے تعلیمی نظام کی ٹایٹینک کو ڈوبتا دیکھتے جاہیں۔