Genes Modification
جینز موڈیفیکیشن
ہمیں زندگی میں کئی بار ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پڑی ہوگی۔ آپ سے کبھی ڈاکٹر نے متعلقہ بیماری کی خاندان میں موجودگی کے بارے میں بھی پوچھا ہوگا۔ اسکی بنیادی وجہ خاندان میں اس بیماری کا وراثتی مادہ یا ڈامیننٹ جینز(dominant genes) کی موجودگی کا پتہ چلاتے ہیں۔
جینزنسلِ انسانی کی شناخت کا مادہ ہوتا ہے جو ہم اپنے ماں باپ سے اخذ کرتے ہیں، جن میں عادات، شکل، رنگ، قد کاٹھ، بالوں کی رنگت اور خاندان میں لگنے والی بیماریاں یعنی بہت سی بیماریاں جو ہمارے خاندان کا وراثتی حصہ ہوتی ہیں، شادی خاندان سے باہر کرنے پر ان پر قابو توپایا جا سکتا ہے مگراسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ بیماری مکمل ختم ہوگئی، درحقیقت جینز کچھ نسلوں تک گمنامی میں چلے جاتے ہیں اور کسی بھی نسل میں دوبارہ ظاہر ہو سکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے بیماروں پر ہمیشہ کیلئے قابو پانے کی یہ تحقیق انسانوں، جانوروں اور پودوں تینوں پر کی ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اسکی مثال ہم hybrid animals میں دیکھتے ہیں جیسا کہ لائگر، سوانا کیٹ، لیو پون، ویلفن وغیرہ، پودوں میں اسکی مثال زیادہ رسیلے نیمبو، بغیر بیج والے تربوز، میٹھی چھلیاں، موٹے لہسن وغیرہ ہیں اور انسانوں میں کلوننگ اور جینز کے کامیاب تجربات ہیں۔
انسانوں کی ان بیماریوں میں albinism بالوں، چہرے اور تمام جسم کا رنگ سنہری مائل ہونا، angleman syndrome انسانوں میں ذہنی و جسمانی ناپختگی کا ہونا، congenital adrenal hyperplasia ایک گلینڈ کی خرابی جس سےبلڈ پریشر، شوگر، گردے اور دل کا مسئلہ بنتا ہے، اسی طرح ہیموفیلیا یعنی چوٹ لگنے پر خون کا نہ رکنا، مارفن سینڈروم یعنی بہت لمبا قد ہونا، یا پھر تھیلسیمیا جیسی موزی بیماری کا انسانوں میں موجود ہونا۔ اسی طرح اس قسم کے جینز جانوروں، پھلوں، پھولوں، درختوں اور فصلوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاَ کچھ پھلدار درختوں پر پھل کے لگتے ہی موسمی کیڑے کا لگنا یا کچھ فصلوں کا زیادہ پانی پر اگنا۔ موسمی شدت کا برداشت نہ کرنا، ان تمام مسائل اور بیماریوں کا علاج genes modification یا یوں کہیں کہ وراثت سی ملی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
جینز میں ترمیم یا تبدیلی کے بعد بننے والے نئے انسان، جانور یا پودے کو GMO genes modified organismکہا جاتا ہے۔ آج کے سائنسدان دو اہم مضامین میں grip اختیار کرنے کی کوشش میں ہیں پہلا بایئوٹیکنالوجی اور دوسرا جینیٹک انجینرنگ، Genetic engineering۔ اس طریقہ کار کو دوطرح سے کارآمد بنایا جاتا ہے۔ پہلا بیماری والے جینز کی جگہ صحتمند جینز کی پیوندکاری اور دوسرا ناپسندیدہ وراثتی مادے کو حذف کرکے اپنی پسند کا جینز اپنی نسل کا حصہ بنانا۔
یہ کام اتنا بھی آسان نہیں ہے جتناکہ سننے میں لگتا ہے، اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو Recombinant DNA technologyکہا جاتا ہے اس میں مختلف ذرائع سے من پسند حاصل شدہ DNA کے ٹکڑوں کو ملا کرایک نیا ڈی این اے بنانا شامل ہے۔ دوسرا اہم کام genes editing اس کام کوکرنے میں امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے 2012میں CRISPR-Cas9 نام کی ٹیکنالوجی کو کامیابی سے حاصل کیا۔ علاوہ اسکے ہم نے آج مصنوعی جینز کے سرکٹ بنانے کی تکنیک کو بھی ایجاد کر لیا ہے۔ اسطرح ہم بیماری یا ناپسندیدہ جینز کا نکال باہر کریں گے اور اسکی جگہ پسندیدہ جینز insertکریں گے۔
یہ کام جینیٹک انجینئر کرتا ہے اس کام کے تمام عمل کو کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے بیمار ٹارگٹ جینز کی شناخت کی جاتی ہے، پھر اس خوبیوں والے جینز کو جو ہم اپنی نسل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں کسی ویکٹر میں داخل کیا جاتا ہے، جن میں پلاسمڈ یا وائرل ویکٹر، اب جینز کی تبدیلی کیلئے پسندیدہ جینز کو متعارف کراتے ہیں جو بیکٹیریم پودا، جانور یا انسان ہو سکتا ہے۔ بیمار جینز اپنے genome میں مطلوبہ/پسندیدہ جینز کو شامل کرتا ہے اور مطلوبہ پروٹین تیار کرنا یا مطلوبہ خصوصیت کی افزائش کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں مستقبل قریب/بعید میں جینز کی ترقی سے کیا کیا فوائد یا نقصان ہو سکیں گے، پہلے توانسان بہت سی خاندانی بیماریوں سے بچ سکیں گے، پودے زیادہ خوراک پیدا کر سکیں گے بہت سے endangered جانوروں کی نسلوں کو بچا سکیں گے، انسانوں میں عقل اور صلاحیت میں اضافہ بھی ہو سکے گا۔ مگر ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ خصوصاَ انسان باآسانی اسے ڈی این اے کی مد میں دھوکہ دہی کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ڈی این اے موڈیفائی مجرم اپنی شناخت چھپانے اور کسی شخص پر اپنی ولدیت کا دعوی دار بھی بن سکتا ہے۔
جہاں تک خوراک میں GMO ہمیں مزید ذائقہ دار، مزید طاقت بخش پھل اور سبزیاں زیادہ تعداد میں پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہیں، وہاں پر یہ کیڑے اور مکھیوں کی ناپسندیدہ خوراک بھی بن جاتی ہے جس سےself pollinationکو حد درجہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ GMO بیج زمین میں جاتے ہی وہاں کسی بھی دوسرے قسم کے زرعی بیج کا اثر ختم کرکے، زمین کوہمیشہ کیلئے GMO بیجوں کا ہی محتاج بنا کے رکھ دیتے ہیں۔ اسکی مثال پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس کی بی ٹی کاٹن اور کینولہ کی فصل ہے اور جی ایمGM seeds میں پاکستان اب چائینہ کے تعاون سے ہابرڈ بیج بھی تیار کر چکا ہے۔ ہی بات بھی یاد رہے کہ جی ایم سیڈ بھی ایک طرح سے GMO ہی کی ایک قسم ہے۔
اسی طرح انسانوں کو بھی ہابرڈ hybrid بنایا جا سکتا ہے، انسان کوکسی درندے جانور جیسی طاقت مل سکتی ہے جو عام معاشرے میں ناقابلِ قبول ہے۔ اسکے مثبت استعمال کیلئے ایک جینز ریگولیشنز بنانے ہوں گے اور اسکے منفی اثرات سے معاشرے کو آگاہ کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ جانوروں اور پودوں میں بھی اسکے مثبت استعمال کا ایک دائرہ کار متعین کرنا ہوگا۔