Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ali
  4. Bank Hame Kaise Loot-Te Hain

Bank Hame Kaise Loot-Te Hain

بنک ہمیں کیسے لوٹتے ہیں

یہ سولھویں صدی کی بات ہے جب پہلی بار انگلینڈ کے کچھ امیر ترین خاندانی سرمایہ دار سوناروں نے حکومت سے اجازت مانگ کر سونے کے بدلے کاغذی کرنسی یعنی پرومائزری نوٹ (promissory Note) کی بنیاد پر مالیاتی لین دین کا آغاز کیا۔ اس کاروبار کو بڑھانے کے لیے انہیں مزید سرمائے کی ضرورت پیش آئی جسکے لیے انہوں نے مزید، امیر لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور یہ کمپنی ترقی کرتے کرتے بنک کی شکل اختیار کر گئی۔ اسے حکومتی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ خود برطانیہ کی حکومت بھی ضرورت پڑنے پر انسے قرض لیتی رہی۔

ان پرومایزری نوٹوں پر یہ عبارت واضع طور پر لکھی گئی تھی کہ

I promise to pay the bearer on demand the sum of.

یعنی وہی عبارت جو پاکستانی کرنسی نوٹوں پر حکومتِ وقت کی طرف سے لکھی ہوتی ہے، بنک دولتِ پاکستان، حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔ اب سوچنے کی بات ہی یہ ہے کہ آخر بنک ہمیں کس چیز کی ادئیگی کا ذکر کر رہا ہے؟ تو اس بات کا تعلق اسی سوناروں کے خاندان سے ہے جس نے بنکنگ سسٹم کا دھوکہ دنیا میں متعارف کروایا۔ یعنی کہ سرمایہ دار لوگ یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ آپ اس کاغذی نوٹ کو کبھی بھی واپس کرکے اپنا سونا، جو "اس نوٹ کا نعم البدل ہے" لے جا سکتے ہیں، اور اس بات کی ضمانت حکومت وقت دے رہی ہے۔

یہ ایسا مذاق ہے، جسے سمجھنے کے لیے ہمیں بنکنگ سسٹم کے اس دھوکے کے کھیل کو سمجھنا پڑے گا۔ بنک نوٹ جاری / پرنٹ کرتا ہے حکومت کے کہنۓ پر اور حکومت کو نوٹ جاری کرنے کیلئے آمادہ بھی بنک کرتا ہے۔ کیونکہ حکومت کے پاس سونے کے ذخائر کم پڑنے کی وجہ سے حکومت کے پاس ںوٹ چھاپنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ اس کام میں ساتھ دیتا ہے ملک کا سینٹرل بنک، جیسے پاکستان میں state bankہے۔ اس کا نقصان براہ راست عوام کو ہوتا ہے۔ مہنگائی اور بڑھتی سود کی شرح اسکا عام سا نتیجہ ہے۔

بنکنگ سسٹم نے حکومت اور عوام کو ایسا جکڑ لیا ہے کہ اب اس نظام سے نکلنے کی کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ اسکو عام سی مثال سے سمجھیں۔ یو این کے مطابق اس وقت دنیا 192 ٹریلین ڈالر کی مقروض ہے۔ 2011 میں مقروض ملکوں کی تعداد 30 تھی آج بڑھ کر 65 ہو چکی ہے ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے اثاثے بھی گروی رکھے ہیں۔ اسکی وجہ صرف کاغذی کرنسی کی مصنوعی پیداوار ہےcreation of money ایسا کھیل ہے جس میں حکومت reserves رکھے بغیرہی کرنسی کی چھپائی میں مگن رہتی ہے۔ اور اس fractional reserve banking میں بنک پورا پورا ساتھ دیتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کبھی بھی بنک اور حکومت کی ملی بھگت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خود رابرٹ بروس بنکنگ نظام جو سرمایہ داروں کی کٹھ پتلی ہے، کہتا ہے کہ معیشت کا یہ نظام (جو حکومت اور بنکوں کی ملی بھگت سے) چل رہا ہے اسکا صرف مقصد غریبوں سے پیسہ چھین کر امیروں کی جیبوں میں ڈالنا ہے۔

بنکوں کا قرض واپس نہ کرنے پر سینٹرل، جسے آپ تمام بنکوں کا ہیڈ سمجھیں، خود حکومت کو ٹیکس بڑھانے کا بھی مشورہ بھی دیتا ہے اور خود حکومت سے شرح سود بڑھانے کا پروانہ بھی دستخط کروا لیتا ہے۔ اس سے بڑا مذاق اور دھوکہ کیا ہوگا کہ، یعنی جو کام سرکار کو کرنا تھا سرمائے کی تخلیق کا، وہ عام سے سرمائے دار، یا بنک نے کرنا شروع کر دیا۔

جو کام بنکنگ سسٹم کو ختم کر سکتا ہے، اور اسکی جڑیں غربت کی سرزمین سے تاحیات نکال سکتا ہے وہ ہے گولڈ سٹینڈرڈ نظام کی واپسی۔ یہ بات بھی یاد رکھنا کسی بھی ملک کا بنک کبھی بھی گولڈ سٹینڈرڈ کو واپس نہیں آنے دے گا۔ اس نظام سے کاغذی کرنسی کو ایک مقررہ شرح پرحقیقی سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کے بہت سے فوائد ہیں، سب سے پہلا ملک میں سود کا خاتمہ یا پھر بہت کم شرح سود، معیشت کو استحکام، افراط زر پر لگام، یعنی کسی بھی حکومت کا کبھی بھی دل کیا بنک سے کرنسی چھاپنے کا کہہ دیا۔ جس سے hyper inflation پھیلتی ہے جبکہ گولڈ سٹینڈرڈ میں حکومت ملک میں موجود سونے ہے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ سکتی۔

اسکا سب سے بڑا فائدہ جو عام شہری کو ہوگا یہ کہ تنخواہیں سونے کے اتار، چڑھاو سے ترتیب پائے گی اور حکومت کی مکمل یہ کوشش ہوگی کہ سونے کے ریٹ کو برقرار یا کم رکھے۔

اس وقت پاکستان کے پاس 64 ٹن سونے کے ذخائر ہیں جبکہ ملک کا مجموعی قرضہ 170 بلین ڈالر ہے۔ جو کہ پاکستان کی کل دولت کا 93٪ ہے۔ اور ظلم پر مبنی بنکنگ نظام اس 93٪ کی کمی کو مصنوعی نوٹ چھاپ کر پورا کر رہا ہے، اشرافیہ، بنک اورحکومت مل کر عام غریب عوام پر روز بروز ٹیکس اور مہنگا ترین سود لگا لگا کر وہی پیسہ بنکوں کو واپس کر رہے ہیں۔

ایڈون کیمرر جسے "the money doctor بھی کہا جاتا ہے کی لکھی کتاب the story of gold money کا مطالعہ ضرور کریں۔ اس کتاب میں آپ نے خود ڈالر کی پیدائش اورموت کا خلاصہ کیا ہے۔

Check Also

Khushaal Zindagi Jeene Ke Asaan Formulae

By Sadiq Anwar Mian