Jahez Aik Lanat (2)
جہیز ایک لعنت (2)
فقہا کے یہاں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ مرد بھی عورت سے روپے کا مطالبہ کرسکتا ہے، اس لیے اس مسئلے کا عام طور پر کتبِ فقہ میں تذکرہ نہیں ملتا، البتہ اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ لڑکی کا ولی اگر مہر کے علاوہ داماد سے مزید رقم کا طلب گار ہو تو یہ رشوت ہے اور یہ مطالبہ جائز نہیں۔ تاہم بعض فقہا کے یہاں لڑکے اور اس کے اولیا کی طرف سے مطالبے کی صورت کا ذکر بھی ملتا ہے، اس لیے تلک اور جہیز کا مطالبہ رشوت ہے اس کا لینا تو حرام ہے ہی، شدید ضرورت کے بغیر دینا بھی جائز نہیں، اور لے چکا ہو تو واپس کرنا واجب ہے۔ اورجہیز میں اہمیت مقدار کی نہیں بلکہ مطالبے کی ہے، مطالبہ کسی چھوٹی سی چیز کا ہو تو بھی لینا گناہ ہے، اور اگر کہہ دیا جائے کہ مجھے کچھ جہیز نہیں چاہیے صرف لڑکی مطلوب ہے، اور دل میں بھی سامان لینے کا چور نہ چھپا ہوا ہو، اس انکار کے باوجود اگر لوگ کچھ دے دیں، تو اسے قبول کیا جاسکتا ہے، گو زیادہ سامان ہو کہ اب یہ رشوت نہیں، بلکہ ہدیہ ہے۔ جہیز ایک لعنت اس نے لاکھوں بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزوَں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں نا امیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اْجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رس میں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔
درحقیقت جہیز خالص ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔ آج اس رسم نے جو قبیح صورت اختیار کر لی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کل انسان ایک سائنسی دور سے گزر رہا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ غریب کے گھر اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو جائے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز جیسی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بناء پر فطری عمل ہے لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جہیز بن گیا ہے۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔
حکومت کو چاہئے کہ جیسے رات گئے شادی بیاہ اور شوروغل پر پابندی عائد کی ہے ویسے ہی ایک قانون بنایا جائے جس پر سختی سے عمل کرکے جس سے جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کریں گا ُاسے جیل اور بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ ایسا کوئی آئندہ گھناوَنا مطالبہ نہ کریں اور بچیوں کی زندگی عذاب نہ بنے اس کو ختم کرنے کیلئے سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیراسلامی رس میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے۔ امراء کیلئے کوئی بات نہیں لیکن غریبوں کیلئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ جہیز کا لین دین غیراسلامی ہے اس گھناوَنی غیراسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔
ہمارے معاشرے میں بیٹی کی شادی کا سوچتے ہی جو خیال سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ ہے جہیز آگر ہم یوں کہیں کہ جہیز کے بغیر بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا نہ ممکن ہے تو یقیناً غلط نہ ہوگا جہیز کی اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے انکی معصوم آنکھوں سے رنگین خواب تک چھین لیے ہیں اس لعنت نے انکو ایسے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے جہاں ہر طرف صرف نہ امیدی مایوسی کے اندھیرے ہی ہیں اجالے کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ درحقیقت جہیز ایک ہندوستانی رسم و رواج ہے اس کا ہمارے مسلم معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر افسوس اس سب کے باوجود ہم نے اس کو اتنا اہم بنا دیا ہے کہ جب تک والدین اپنی بیٹی کو سامان سے بھرے ہوئے ٹرک نہ دیں تب تک لڑکے والے شادی کو راضی نہیں ہوتے اور بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی کہ شادی سے پہلے جو دیا سو دیا اب اور نہیں چاہیئے بلکہ شادی کے بعد بھی لڑکے والوں کی جانب سے کئی مطالبات کیے جاتے ہیں اور اگر لڑکی والے انکے مطالبات پورے نہ کرسکیں تو اس کی قیمت بیچاری لڑکی کو اپنی جان گھاوا کر ادا کرنی پڑتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں غریب کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ مخص زمین پر ایک رینگتا ہوا کیڑا مکوڑا ہے جیسے ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکلنا چاہتا ہے اور جب غریب کے گھر بیٹی پیدا ہوجائے تو ایک طرف وہ خدا کی رحمت ہے تو دوسری طرف وہی رحمت جب شادی کی عمر کو آتی ہے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز کی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ اگر والدین جو کے اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں آگر گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت پیار اور محبت میں کچھ تحفے دیں تو وہ جہیز نہیں بلکہ والدین کے پیار اور محبت کی بنا پر ایک فطری عمل ہے جیسے اس معاشرے کے لوگوں نے جہیز کا نام دے کر فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے جو کہ لڑکی والوں پر سراسر ظلم و زیادتی ہے۔۔ آگر ہم قرآن و حدیث پر روشنی ڈالیں تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ جس جہیز کو ہم نے اتنی اہمیت دی ہوئی ہے دین اسلام میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی اسی کوئی پابندی عائد کی گی کہ آگر بیٹی کو سامان سے بھرے ٹرک نہیں دو گئے تو شادی مکمل نہیں ہوگی بلکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت سادگی کی ایک بہترین مثال قائم کر کے دکھائی ہے۔ آپ ﷺنے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت روزمرہ کی چند معمولی چیزیں دیں اور شادی میں کسی قسم کی کوئی نمود و نمائش اور دکھاوا نہیں تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان اپنے رسول ﷺ کی سیرت کو بھول بیٹھے ہیں نمود و نمائش اور دکھاوے کے نت نئے انداز اپناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب تک ہماری تقریب میں دس دس ڈشوں کا اہتمام نہ ہو تب تک ہماری تقریب مکمل نہیں ہوتی۔
ہمیں چاہیئے کہ جہیز پر فضول خرچ نہ کریں اور غریب اور متوسط طبقے کا خیال رکھیں تاکہ ان کا شادی بیاہ کا خواب پورا ہو سکے اور وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں ویسے بھی فضول خرچی کرنے والے کو قرآن نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ہمارے معاشرے میں جہیز کی اس لعنت اور ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہوگا اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ نا جہیز دیں گے اور نا جہیز لیں گے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جہیز کے نام پر جائیداد وغیرہ فروخت کروا کر فضول مطالبات پورے کروانا ایک اخلاقی جرم ہے۔ حکومتوں کو بھی ایسا قانون نافذ کرنا ہوگا جس سے جہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے صاحب ثروت لوگوں کو چاہیئے کہ دولت کو جہیز پر خرچ کرنے کے بجائے کسی مسجد کی تعمیر، بیوہ اور یتیم کسی تنظیم کی مدد کرنے یا کسی غریب کی بیٹی کی شادی پر خرچ کریں تاکہ غریب کی دعائیں مل ملیں جس سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوکر آخرت سنور جائے گی اور دوسری طرف روحانی لذت حاصل ہوگی۔ آج ہمارا معاشرہ طرح طرح کی برائیوں کی آماجگاہ بنتا جارہاہے اور اگر یہ کہا جائے کہ بن چْکا ہے تو بات کچھ غلط نہ ہوگی ان برائیوں کی وجہ سے امن وسکون، انسانیت، رواداری، انسان دوستی، آپسی الفت و محبت اور بھائی چارگی کی لازوال دولت رخصت ہوچْکی ہے۔ آج ہمارے سماج کو جن داخلی برائیوں کا سب سے بڑا چیلنج ہے، ان میں سب سے بڑی "جہیز کی لعنت" بھی ہے۔
جہیزکی لعنت کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا اور خصوصاً نوجوانوں کو اس راہ میں قربانی دینی پڑے گی کیوں کہ کل وہ بھی ایک بیٹی کے باپ ہوں گےاور ان حالات سے جہیز کی لعنت کا شکار ہوں گے تو مل کر جہیز خوروں کومانگ سے روکنا پڑے گاتاکہ بہت ساری دوشیزائیں بن بیاہی اپنے والدین کے کمزور کاندھوں پر بوجھ بن کر بیٹھی نہ رہ جائیں، آ ئیے ہم سب اس لعنت سے توبہ کریں اور اپنے گھر کو نمونہ عمل بنائیں اس بیماری سے اپنے آپ کو دور کریں اور دوسروں کو دور رہنے کی تلقین کریں۔