Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Khalid
  4. Jahez Aik Lanat (1)

Jahez Aik Lanat (1)

جہیز ایک لعنت (1)

پاکستان کے تمام بڑے اخبارات جس میں جہیزجیسی خبریں رپورٹ شایع ہوتی رہتی ہیں جس کے مطابق پاکستان میں جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہر سال جن کی تعداد کا انداز نہیں خواتین تذ لیل برداشت کرتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق طلاق کے چالیس فیصد مقدمات میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جب کہ سسرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی نوے فیصد خواتین اس لیے ظلم سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ تذلیل اور تشدد سہنے کے علاوہ ہر سال ہزاروں کے لگ بھگ خواتین جہیز کی وجہ سے شادی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ والدین اپنی بیٹی کو اپنی مرضی سے گھر سے رخصت کرتے وقت تحفے تحائف اور ضروریات کی کچھ چیزیں ہدیہ کرسکتے ہیں لیکن داماد اور اس کے گھر والوں کے لیے جہیز کی ایک لمبی فہرست کو لڑکی کے گھروالوں کے حوالے کرنے کی قرآن وسنت میں اور اخلاقی لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس میں رضامندی سے تجارت ہو "۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ مسلمانوں کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ تجارت کے علاوہ دیگرذرائع سے کسی کا مال بٹورنا درست نہیں ہے۔ بیٹے اور بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونا جاہلیت کی نشانی ہے لیکن جب ہم معاشرے کے رسم و رواج پر غور کرتے ہیں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ سفید پوش اور غریب لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر کیوں غم زدہ ہوتے ہیں۔ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے باوجود بھی جب معاشر ہ شادی کے وقت ان کے گھر والوں سے تاوان کا مطالبہ کرتا ہے تو متوسط اور غریب گھرانے کے لوگ قرضہ اْٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لڑکے والے لڑکے کی تعلیم اور آمدن کو بھرپور طریقے سے فروخت کرتے ہیں۔ لڑکا جتنازیادہ تعلیم یافتہ ہو جہیزبھی اتنا ہی زیادہ مانگا جاتا ہے۔ گو کہ اچھی ملازمت اور مناسب کاروبار کے حامل لڑکے کو اپنے گھر بار کے انتظام اورانصرام کے لیے لڑکی والوں کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی گھریلو سازوسامان کے علاوہ لڑکی والوں سے سامانِ تعیشات کا بھی بھر پور طریقے سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔

یہ مطالبہ شادی کے دن کے بعد ختم نہیں ہوجاتابلکہ خوشی کے ہر موقع پر مختلف قسم کے حیلے بہانوں کے ذریعے سے یہ مطالبات جاری رہتے ہیں۔ دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اس قسم کے مطالبات کوکسی بھی طریقے سے غلط نہیں سمجھا جاتا اور کوئی اصلاح کرنے والا اچھی نصیحت کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگر دیانت داری سے جہیزکی رسم کا تجزیہ کیا جائے تو یہ گدا گری کی ایک جدید شکل ہے جس میں لڑکی والوں سے موقع بموقع بلاضرورت کچھ نہ کچھ مانگا جاتا ہے۔ خیرات حاصل ہونے کی صورت میں وقتی طورپر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے اور نہ ملنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے لڑکی کو ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ لڑکی کی کفالت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو"۔ جو شخص معروف طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکتا اسے نکاح کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بلاجواز مانگنے کی شدید مذمت کی ہے۔ آپ ﷺ کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عمل درحقیقت شرف انسانیت کے خلاف ہے اور ہر غیرت مند مسلمان کو اس قسم کے رویے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کی چند احادیث درج ذیل ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا آدمی سوال کرتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکرا نہ ہوگا، رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:سوال ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی سوال کرتے ہوئے اپنے منہ کو نوچتا ہے جو چاہے اپنے منہ پر خراش کو باقی رکھے جو چاہے چھوڑ دے "۔

ہاں آدمی اگر صاحب سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو رسول اللہﷺ فرماتے ہیں جس پر فاقہ نہ گزرے اورنہ اتنے بال بچے ہوں جن کی طاقت نہیں اور وہ سوال کا دروازہ کھولے تو اللہ تعالیٰ اس پر فاقے کا دروازہ کھولے گا ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ اور سوال سے بچنے کا ذکر فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے "۔ ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت کی بہت بڑی وجہ داماد اور بہو کاغلط انتخاب بھی ہے۔ عام طور پر رشتے حسن، مال اور حسب ونسب کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جبکہ شرافت اور دین داری کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر کردار اور تقویٰ کو دیگر اوصاف پر ترجیح دی جائے تو معاشرے سے اس قسم کی غلط رسومات کا با آسانی خاتمہ ہوسکتا ہے اس لیے کہ ایک دین دارداماد اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ رزق اور مال کی تقسیم اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے اور کسی بھی انسان کے شان شایان نہیں کہ اپنے خالق و مالک کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے اپنی ضرویات اور آسائشات کے حصول کے لیے ہاتھ پھیلائے۔

اگر رشتوں کے انتخاب کے دوران لالچ کی بجائے قناعت، دنیا کی بجائے دین اور ہنر کی بجائے کردار کو ترجیح دی جائے تو جہیز جیسے معاشرتی ناسور پر با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ بیٹی کی شادی میں والدین اور رشتے داروں کی طرف سے دیا جانے والا سامان جہیز کہلاتا ہے، خواہ نقد ہو یا سامان۔ یہ طریقہ رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے اور تقریباً ہر ملک اور ہر علاقے میں اس کی مختلف صورتیں رائج رہی ہیں اور چلتی آرہی ہیں عام طور سے زیورات، کپڑے، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں وغیرہ پر اس کا عام اطلاق کیا جاتا ہے اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کے سبب داخل ہوئی اور اب ایک لعنت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کے نقصانات سے کوئی دانا و بینا انکار نہیں کر سکتا، اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ بے شمار شادی شدہ خواتین اسی کے سبب نذرِ آتش کر دی گئیں اور لا تعداد بچیاں ڈھلتی عمر کے باوجود ازدواجی خوشیوں اور مسرتوں سے محروم ہیں۔ جہیز نہ جْٹا پانے کے سبب ان کا ہاتھ تھامنے والا کوئی با غیرت مرد میسر نہیں۔

ویسے یہ حال صرف لڑکیوں کا ہی نہیں بلکہ بہت سے لڑکوں کا بھی ہے، یعنی یا تو بلا جہیز بیاہ کرنے کو عیب بتا کر خود ان کے دماغ میں شروع سے یہ بٹھا دیا گیا ہے جس کے سبب وہ خواہی نہ خواہی ازدواجی زندگی کی مسرتوں سے محروم ہیں، یا ان کے ماں باپ اس موقع پر بیٹانام کا چیک کیش کرانے کے متمنی ہیں۔ لوگوں نے اس کے مختلف طریقے بھی نکال لیے ہیں کہ کوئی تو ذرا شرماتے ہوئے خود ہی یہ اندازہ لگاتا ہے کہ لڑکی والا کیا دے سکتا ہے؟ کچھ شرم بیچ کر کھا جانے والے ایسے بھی افراد معاشرے میں موجود ہیں جو صاف لفظوں میں لڑکی والوں سے معلوم کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ بتاوں دوگے کیا؟ معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ جہیز کی رسم کے سبب نہ جانے کتنی ہی عورتیں گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہیں اور نہ جانے کتنی جگہ جہیز کی کمی کی وجہ سے عورتوں کی زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے کے بے شمار حادثات اخباروں اور چینل پر ہونے والے پروگرام کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہماری بہن بیٹیوں کو مار پیٹ کے علاوہ کتنے ہی مقامات پر جہیز کا مطالبہ پورا نہ ہونے کے سبب مال کی ہوس میں زندہ جلا کر بھسم کر دیا گیا۔ اور کہیں رات دن اْنھیں جسمانی و ذہنی درد ناک عذاب دیے جاتے ہیں۔ دراصل ہمارا سماج انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دینے لگا ہے، جس کی وجہ سے یہ لعنت جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کو چوں کہ ہر صورت میں ایک سخت ترین گالی و گناہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے خود عورت بھی ایسے ظالم اور شوہر کے طمانچے تو برداشت کر لیتی ہے لیکن مطلقہ ہونا برداشت نہیں کر پاتی۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی جہیز کی لعنت مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے، اور جواز اس کا یہ نکالا ہے کہوہ تو سب ہی دیتے ہیں۔ جب کہ علما نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ لڑکی والے اپنی بیٹی کو شادی کے وقت ضروریاتِ زندگی کا جو سامان دیتے ہیں وہ شرعاً مباح ہے، اور جو سامان لڑکی کو جہیز میں دیاجاتا ہے وہ اس کی ملکیت ہے، شوہر کا اْس میں کوئی حق نہیں ہے، البتہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کرنا اور اْس پر اِصرار کرنا قطعاً جائز نہیں۔

اسلام میں نکاح کی حیثیت ایک معاہدے کی ہے جس میں مرد و عورت قریب قریب مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں یعنی نکاح کی وجہ سے شوہر بیوی کا یا بیوی شوہر کی مالک نہیں ہوتی اور عورت اپنے خاندان سے مربوط رہتی ہے، والدین کے متروکے میں تو اس کو لازمًا حصہ میراث ملتا ہے، بعض اوقات وہ بھائی بہنوں سے بھی حصہ پاتی ہے۔ ہندو مذہب میں نکاح کے بعد عورت کا رابطہ اپنے خاندان سے ختم ہوجاتا ہے، شاستر قانون کی رو سے وہ اپنے خاندان سے میراث کی حق دار نہیں رہتی، اسی لیے جب لڑکی کو گھر سے رخصت کیا جاتا تھا، تو اسے کچھ دان دے کر رخصت کیا جاتا تھا۔ بد قسمتی سے مسلمانوں نے بھی بہ تدریج اس ہندووانہ رسم کو اپنا لیا، اب مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین اور پھر لین دین سے بڑھ کر جہیز کا مطالبہ اور اس سے بھی آگے گزر کر جہیز کے علاوہ تلک سرانی اور جوڑے کے نام سے لڑکوں کی طرف سے رقم کے مزید مطالبات کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات اور شریعت کے مزاج کے بالکل ہی برعکس ہے۔ اسلام نے تو اس کے برخلاف مہر اور دعوتِ ولیمہ کی ذمّے داری شوہر پر رکھی تھی اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمّے داری سے دور رکھا تھا۔ (جاری۔۔۔)

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood