Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arslan Khalid/
  4. 23 March

23 March

23 مارچ

ایک طویل عرصے کے بعد 23مارچ کا دن آزادی کے تازہ احساس کے ساتھ طلوع ہو رہاہے۔ اس بہار میں کلیاں ہی نہیں چہرے بھی کھل اٹھتے ہیں کیا یہ نئے عہد کے ظہور کا اعلان عام ہے؟ جہان نو اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ سنگ و خشت جہان سے جنم نہیں لیتا۔ طاؤس و رباب کی ا وّلیت بھی زندگی کو نئے لہجوں سے آشنا نہیں کرتی۔ جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود ہے۔ 22مارچ 1940ءاور جمعتہ المبار ک کا دن ہے۔ لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدرات آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں تین روزہ (22تا 24مارچ)سالانہ اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ باد شاہی مسجد کے پہلو میں یہ وہی پارک ہے جسے آج کل اقبا ل پارک کے نام سے جانا جاتا ہے اور جہاں اسی تاریخی اجلاس کی یادگار کے طور پر مینارِ پاکستان ایستادہ ہے۔ منٹو پارک کا قرب و جوار ایک سفید خیمہ بستی کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں اس اجلاس میں ملک بھر سے آنے والے مندوبین کے رہنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔

پارک کے وسط میں واقع پنڈال میں ایک لاکھ سے زائد مسلم لیگی کارکنا ن، جن میں عورتیں بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، اپنے محبوب قائد محمد علی جناح کا خطاب سننے کے لئے بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے طول و عرض سے آئے ہوئے تمام بڑے بڑے مسلم رہنما سٹیج پر بیٹھ چکے ہیں۔ عصر کی نماز کے بعد قائد اعظم ؒ جلسہ گاہ میں تشریف لاتے ہیں۔ سب سے پہلے مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم لہر ا کر پرچم کشائی کی رسم ادا کرتے ہیں۔ تلاوت سے اجلاس کی کاروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ میاں بشیر احمد بارایٹ لاءکی مقبول عام نظم" ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح"سنائی جاتی ہے۔ نواب سر شاہنوا ز خان ممدوٹ، صدر مجلس استقبالیہ، قائد اعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرتے ہیں اور پھر قائداعظم کو دعوت خطاب دیتے ہیں۔ پنڈال" قائداعظم زندہ باد " کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ قائد اعظم مائیک سنبھالتے ہیں۔ ہر مردو زن ہمہ تن گوش ہو جاتا ہے کہ ا ن کا محبوب قائد ا ن سے مخاطب ہونے والا ہے۔ قائداعظم پہلے کچھ دیر ا ردو میں اور پھر انگریزی میں خطبہ صدارت ارشاد فرما تے ہیں۔ تقریباً سو منٹ کا یہ تمام خطاب فی البدیہہ ہے۔

قائد اعظم فرماتے ہیں "اسلام اور ہندو مت حقیقتاً ایک دوسرے سے مختلف اور جداگانہ سماجی نظام ہیں۔ یہ تصور کہ تمام ہندوستانی ایک قوم ہیں اپنی حدوں سے تجاوز کر چکا ہے اور ہماری بیشتر مشکلات کا یہی اصل سبب ہے۔ ہندواور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی رسوم و روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حقیقتاً دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیاد بیشتر متصادم تصورات اور نظریات پر ہے "۔ آپ مزید فرماتے ہیں "قوم کی کسی بھی تعریف کے مطابق مسلمان ایک قوم ہیں اور ا ن کے اپنے اوطان ہونے چاہئیں۔ اپنے علاقے اور اپنی ریاست۔ ہم آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔"۔ اور پھر تالیوں کی گونج میں قائد اعلان فرماتے ہیں "ہم ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب کے ا ن صوبوں کو ایک نئی اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ ہم ان صوبوں میں اسلامی حکومت قائم کریں۔ قائد اعظم کو یہ سب کچھ کیوں کہنا پڑا؟ انہیں کیوں الگ اسلامی مملکت قائم کرنے کا مطالبہ کرنا پڑا؟ انہیں کیوں کہنا پڑا کہ ہندومسلم د و بالکل الگ الگ قومیں ہیں اور یہ کہ وہ اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں؟ آب اس کے پس منظر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کے ہندودل سے تو پہلے بھی تسلیم نہیں کرتے تھے" ا ن تما م مسلمانوں کو جو ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں، دوبارہ ہندو بنائیں گے۔ اور وہ جن کے آباو اجداد باہر سے آئے تھے، انہیں دوبارہ وہیں بھیج دیں گے۔ مسلمان ناپاک ہیں اورہمیں ہندوستان کو ان سے پاک کرنا ہے۔" وہ کہتے تھے "دھر م کے لحاظ سے یہ عین ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم اقوام عالم سے نابود کردی جائے اور ا س کی جگہ راشٹر دھرم کی تعلیم مسلمانوں کو دی جائے۔" اور پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنا شروع کر دیا کہ"ہندو اور مسلمان ہندوستان میں صرف اس صورت میں مل جل کر رہ سکتے ہیں کہ حکومت ہندو کی ہو اور مسلمان ا س کی رعایا۔۔۔

ہندو و ں کو صرف دو کام کرنے ہیں، ایک ہندو سوراجیہ (ہندو کا راج) اور دوسرا شدھی (مسلمانوں کو ہندو بنانا)۔ جب تک ساراہندوستان مسلمانوں کے وجود سے پاک نہیں ہوگا ہم کبھی چین سے نہیں سو سکیں گے۔ ہر سچے ہندو کا دھر م ہونا چاہیے کہ بھارت ماتا کو اسلام کے وجود سے پاک کر دے۔۔ یا تو سب مسلمانوں کو شدھی کے ذریعے ہندوبنا لیا جائے یا مسلمانوں کو اس حد تک مجبور کر دیا جائے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔" او ر اس مقصد کے لئے انہوں نے شدھی، سنگھٹن اور مہاسبھا جیسی متشددتحریکیں اور تنظیمیں بنالیں۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی نے، جو بظاہر مسلمانوں کے بڑے ہمدر د بنے پھرتے تھے، اپنے اخبار "ینگ انڈیا" میں ان الفاظ میں ایک اعلان شائع کیا "مسلمان یا عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں یا وہ لوگ ہیں جو ہم میں سے تھے اور اب ہم سے الگ ہوچکے ہیں۔ انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے ہمیں تین طریقے اختیار کرنے پڑیں گے۔

1۔ مسلمانوں کو اسلام سے الگ کر کے پرانے (ہندو)دھرم پر لایا جائے۔

2۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کو ا ن کے اپنے قدیم علاقے (عرب)میں واپس بھیج دیا جائے۔

3۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ان لوگوں کو ہندوستان میں رعایا یعنی کمین یا غلام بناکر رکھا جائے۔

علامہ محمد اقبال ؒ نے 1930ءمیں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ میں صدارتی خطاب فرماتے ہیں اورمسلمانان ہند کو وہ نئی راہ اور نئی سوچ سجھا دیتے ہیں جو ا ن کے خدشات و مسائل کا حل تھا۔ آپ نے اس خطا ب میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے نظریہ پر روشنی ڈالی۔ اسلام کے سیاسی تصورات کا مغرب اور عیسائیت کے فلسفہ سے موازنہ کرکے یہ بات باور کرائی کہ اسلام صرف چند عقائد کا نام نہیں ہے بلکہ ا س نے ایک سیاسی سماج بھی دیا ہے جس کی وجہ سے مسلمانان ہند دوسری قوموں سے مختلف ہیں اور وہ مستقل اور مثبت طریق پر ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اس پس منظر اور وجوہات کی نشاندہی کے بعد علامہ اقبال ؒاپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں "پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت بر طانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اورا نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

شروع شروع میں توعلامہ اقبالؒ کی اس خواہش اورتجویز کو کوئی زیادہ توجہ اور اہمیت حاصل نہ ہوئی۔ لیکن جوں جوں ہندوو ں کی ریشہ دوانیاں اور ظلم و بربریت کے واقعات زور پکڑتے گئے، خصوصاً1935ءکے انتخابات کے نتیجے میں ہندوستان کے چند صوبوں میں قائم ہونے والی کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں اور ہندوو ں کے درمیان جو امتیاز بر تا اور جس جس طریقے سے مسلمانوں کا ناطقہ بندکرنے کی کوشش کی، انہوں نے مسلمانوں کو اپنی اس سوچ میں مزید پختہ کر دیا کہ آزادی کے بعد ہندو انہیں ہندوستان میں کسی طرح بھی امن و چین سے نہ رہنے دیں گے اور ا ن کی اس برصغیر میں بقاءکا واحد راستہ ایک الگ وطن کا حصول ہے جہاں وہ اپنے مذہب، اپنی روایات اور اپنے کلچر کے مطابق سکون سے زندگی گزار سکیں۔ اور پھر مسلمانان ہند نے الگ وطن کے حصول ہی کو اپنا نصیب العین قرار دے لیا۔ مسلمانان ہند کی خوش قسمتی تھی کہ اُنہیں محمد علی جناح ؒ کی شکل میں ایک ایساقائد مل گیاجس نے اس ناممکن کو ممکن بنانے کا عزم باندھ لیا اور تن من دھن سے اس کی تکمیل میں تھان لی۔

ہندوستان بھر کے مسلمان اور بڑے بڑے رہنما محمد علی جناح کے گرد اکٹھے ہوتے چلے گئے۔ عزم پختہ اور حوصلے جوان ہونے لگے۔ منزل کی طرف پہلا ٹھوس قدم بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے 1938ء میں سندھ صوبائی مسلم لیگ نے قائد اعظم کی صدارت میں ایک قرارداد منظور کی کہ ایک ایسی دستوری تجویز مرتب کی جائے جس کے تحت مسلم اکثریتی صوبے، مسلم ریاستیں اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ایک وفاق کی صورت میں مکمل آزادی حاصل کر سکیں۔ اگلے سال اس تجویز کو مزید آگے بڑھایا گیا اور مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے مارچ1939ء میں مسلم لیگ کونسل نے اگست 1939ء میں اور مجلس عاملہ نے ہی ایک بار پھرستمبر 1939ءمیں اس تجویز کو دہرا یا اور اسے بطور مطالبہ آگے بڑھانے پر زورد یا۔ فروری 1940ءمیں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ اور کونسل کے اجلاس دہلی میں منعقد ہوئے جن میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے سوال پر سنجیدگی سے غور کیا گیا اور اس کو مارچ 1940ءمیں لاہور میں منعقد ہونے والے عام اجلاس میں باقاعدہ مطالبے کی صورت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مارچ 1940ءآن پہنچا۔ مسلم لیگ کا سالانہ عام اجلاس 22تا24مارچ 1940ءلاہور میں منعقد ہونا طے پایا۔ الگ وطن کی تجویز کو باقاعدہ مطالبے کی شکل دینے کے لئے قرارداد کا مسودہ تیارکرنے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ 21مارچ 1940ءکی رات نواب سرشاہنواز خاں ممدوٹ کے "ممدوٹ وِلا" میں قائداعظم محمد علی جنا ح، سر سکند ر حیات، نواب محمد اسماعیل اور ملک برکت علی اکٹھے ہوئے اور قرار داد کا مسودہ تیار کیا گیا جو کہ انگریزی میں تھا۔

اگلے دن22مارچ کی رات کوکہ جس روز بعد نماز عصر قائد اعظم پورے سیاق و سباق کے ساتھ اس قسم کے مطالبے کا اظہار منٹو پارک میں اپنے خطاب عام کے دوران کر چکے تھےسبجیکٹ کمیٹی میں مسودقراردادپر بحث شروع ہوئی۔ ا ن لوگوں کی سہولت کے لئے جو انگریزی نہیں جانتے تھے نوابزادہ لیاقت علی خان کے کہنے پر مولانا ظفر علی خان نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس کا خوبصورت اور سلیس ا ردو ترجمہ کر دیا۔ قرار داد کے مسودہ پر بحث و مباحثہ اور اس کی نوک پلک سنوارنے کا عمل 23مارچ کی صبح تک جاری رہا اور قرار داد کا حتمی متن اجلاس عام میں پیش کر نے کے لئے منظور ہوا۔ اور پھر وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا جو ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والاتھا۔ یہ مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس عام کا دوسرا دن تھا۔ قائد اعظم کی صدارت میں یہ اجلاس ا سی منٹو پارک میں اسی روز شام چار بجے منعقد ہوا۔ مسلمانان ہند کے لئے الگ وطن کے مطالبے پر مشتمل تاریخی قرارداد اس تاریخی اجلاس عام میں بنگال کے وزیر اعظم مولوی عبد القاسم فضل الحق نے پیش کی۔

اس قرارداد کو شروع شروع میں "قرار داد لاہور"کا نام دیا گیا۔ لیکن مجوزہ نئے وطن کا نام "پاکستان" کچھ اس طرح زبان زد عام ہو گیا کہ سال کے آخر تک اسے باقاعدہ " قرار داد پاکستان "کا نام دے دیا گیا۔ قرار داد کی منظوری کے بعد قائد اعظم نے فرمایا "آج اقبال ؒ ہمارے درمیان موجود نہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ ہم نے ا ن کی آرزو پوری کرد ی ہے۔" 15اپریل 1940ءکو قائد اعظم نے بمبئی سے ایک بیان جاری کیا جس میں ا نہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ 19اپریل بروز جمعتہ المبارک کو "یوم قرار داد لاہور"منایا جائے۔ چنانچہ ہندوستان بھر میں مسلمانوں نے اس روز جو ش و خروش سے یوم قرارداد لاہور منایا۔ قرار دادِلاہور نے کانگریسی لیڈروں اور حکومت کے ایوانوں میں کھ لبلی مچادی۔ مخالفتوں، طعن وطنز اور تمسخر کا طوفان ا ٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن اب مسلمانانِ ہند کو ایک واضح نصب العین اور منزل کا نشان مل چکاتھا۔ وہ جوق درجوق مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہوتے چلے گئے اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کے حصول کی کوششیں تیز سے تیز تر کردیں۔ مطالبہ پاکستان ا ن کی حرزِجاں بن گیا۔ مسلم رہنماو ں کی ہندو اور انگریز دونوں کے ساتھ سیاسی، قانونی اور آئینی جنگ کے ساتھ ساتھ عام مسلمانانِ ہند کی قربانیوں اور ایثار کا بھی ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک طرف تحریکِ پاکستان قدبہ قدم منزل کی طرف بڑھتی چلی گئی تو دوسری طرف ہندو وں کی ریشہ دوانیاں، انگریز وں کی چالاکیاں اور سکھوں کی سفاکیاں بھی زور پکڑتی گئیں۔ کئی قانونی وآئینی بحران، کئی گول میز کانفرنسیں اور کئی افہام وتفہیم اور ٹکراو کی فضائیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔

بالآخر سات سال کے قلیل عرصے میں قائداعظم کی ذہانت، قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں اورعوام کی بے پناہ استقامت، جوش و جذبے اور ایثاروقربانیوں نے سب مخالفین کو چِت کردیا اور 3جون 1947ءکو انگریز حکومت کو 15اگست 1947ءسے ہندوستان کو دو آزاد مملکتوں، انڈیا اور پاکستان، کے نام سے آزاد کرنے کا اعلان کرناپڑا۔ اور پھر چودہ اورپندرہ اگست کی درمیانی رات کو بارہ بجے، جو 27رمضان المبارک تھی، مسلمانانِ ہند کی ا منگوں اور خوابوں کی تعبیر اور ک رہِ ارض پر اسلام اور مسلم قومیت کی بنیاد پر وجود میں آنے والا پہلاملک "پاکستان" دنیا کے نقشے پر ا بھر آیا۔

Check Also

Aalmi Youm e Azadi e Sahafat

By Gul Bakhshalvi