Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Waqia e Lums, Aik Jaiza

Waqia e Lums, Aik Jaiza

واقعہ لمز، ایک جائزہ

کافی دنوں سے سوشل میڈیا اور دیگر بہت سی جگہوں پر ایک موضوع بہت ہی زیادہ زیر گردش اور زیر بحث رہا ہے، ہر طبقہ فکر اور ہر پارٹی اور عمر کے لوگ اس موضوع پر بہت سی آراء دے کر اپنی آزادی اظہار رائے کا ثبوت دیتے رہے۔ مملکت پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے لاہور کی معروف یونیورسٹی لمز کا دورہ کیا جس میں انہوں نے طلبہ سے ایک میٹنگ رکھی جس میں طلبہ کے سوالات کے جواب دئے گئے۔ اس دوران میں طلبہ و طالبات نے چند سوالات کئے جو نا جانے کیوں عوام کو تلخ لگے اور پھر ایک پروپیگنڈہ کا طوفان برپا ہوگیا۔

کسی نے بولا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کی بولتی بند کر دی گئی، کسی نے کہا کہ نوجوان نے بدتمیزی کی انتہا کر دی، کسی کی رائے کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان نے ان نوجوانوں کو بہادر بنایا تو کوئی اس بات پر بضد تھا کہ سوال کرنے والے نوجوان کسی مخصوص پارٹی کے تربیت یافتہ اور بدتمیز تھے اور انہوں نے جان بوجھ کر ایسے سوال کئے، کسی کے مطابق سب کچھ سكرپٹڈ تھا۔

خیر میں ان دنوں سفر اور مصروفیات کی وجہ سے اس موضوع کی ڈیٹیل نہیں جان سکا۔ لیکن جب تنقید و تشہیر حد سے بڑھی تو اپنی فطرت کے مطابق تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے اس موضوع پر سرچ کی تو ایک شارٹ ویڈیو سامنے آئی جس میں پتہ چلا کہ ایک سٹوڈنٹ وزیر اعظم سے کہہ رہا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میرے وزیر اعظم کو علم کی قدر نہیں اور پچپن 55 منٹ لیٹ آنے پر سوال کیا، اسی ویڈیو کے دوسرے حصے میں ایک نوجوان انہیں الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ وزیر اعظم کہہ رہا تھا۔ اس سے تجسس مزید بڑھا اور میں نے پوری ویڈیو دیکھی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سب کچھ تو ہوا ہی نہیں جس بات کا پراپیگنڈہ کیا جا رہا تھا۔

یہ ایک انتہائی دوستانہ ماحول میں ایک دو طرفہ مباحثہ تھا۔ جس میں وزیر اعظم نے بہت ہی مدلل اور مفصل انداز میں طلبہ کے سوالات کے جوابات دئے اور طلبہ بہت حد تک ان جوابات سے مطمئن بھی نظر آئے، لمز یونیورسٹی کے طلبہ نے ہر شعبہ زندگی کے متعلق اور حالات حاضرہ کے مطابق وزیر اعظم سے سوالات کئے۔ جن میں سے بیشتر سوالات ایسے تھے جو کسی بھی صاحب شعور انسان کے ذہن میں آ سکتے ہیں۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہماری قوم کے نوجوان سوال کرنا جانتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ ہمارا وزیر اعظم ان سوالات کے مدلل جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

وزیر اعظم سے اس دوران میں جو سوالات ہوئے ان کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ سب بنیادی سوال تھے، عمران خان کی گرفتاری اور قید کے سوال پر وزیر اعظم نے پاکستان میں ترقی پذیر جمہوریت کو بیان کیا، ایک سٹوڈنٹ کے سوال پر سیاست میں مذہبی ٹچ پر بات کی۔ اسی دوران ایک سوال میں ایک سٹوڈنٹ کے الیکٹڈ وزیراعظم کہنے پر دوسرے نے سلیکٹڈ کا لقمہ دیا جس پر وزیر اعظم نے بہترین دوستانہ انداز میں اپنے لیے نومینیٹڈ وزیر اعظم کا لفظ منتخب کیا۔۔

اسی طرح آزادی اظہار رائے، امتیازی سلوک جیسے سوالات ہوئے لیکن جن تین سوالات نے اس میٹنگ کو زیادہ نمایاں کیا ان میں پہلا سوال افغان باشندوں کی واپسی کا تھا جس پر وزیر اعظم نے تاریخی اور مغربی ممالک کی مثالوں سے بھر پور مدلل جوابات دئے، جس میں لیگلائیزیشن، مائیگریشن اور مغربی ممالک میں غیر قانونی مقیم افراد کی مثال دی گئی۔

اسی طرح ایک سوال ہوا کہ ایسے حالات میں آپ یہاں کیوں آئے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ حالات حاضرہ کے بارے میں ڈسکس کرتے ہوئے طلبہ کی رائے لینا چاہتے تھے۔

آخری سوال جس نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ تھا کہ آپ لیٹ کیوں آئے جس پر انہوں نے کہا کہ میں كیبنٹ میٹنگ میں تھا۔ اور ساتھ میں دعا دیتے ہوئے انتہائی مشفق انداز میں کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہاں تک لے جائے تو آپ کو کیبنٹ میٹنگ کی اہمیت کا اندازہ ہو۔

جن لوگوں کو یہ باتیں عجیب لگیں انہیں شاید توقع یہی تھی کہ جب وزیر اعظم میٹنگ میں آتے تو سٹوڈنٹ صمُ بكمُ عمُ بنے بس بیٹھے رہتے یا وزیر اعظم روایتی طریقے سے بس یک طرفہ تقریر کرتے اس دوران چند نعرے لگ جاتے اور سٹوڈنٹ آخر میں وزیر اعظم کے ساتھ تصاویر بنوا لیتے جس کے بعد اگلے دن وہی گھسے پٹے سٹیٹس لگے ہوتے "With Prime Minister Pakistan"۔

کیونکہ ہماری سوچ تو یہیں تک ہے، لیکن طلبہ نے سوالات کئے جس کام کے لیے انہیں وہاں مدعو کیا گیا تھا، اس دوران میں وزیر اعظم بھی نہایت خوشگوار انداز میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے اور بار بار "بی اوپن be open" کہہ کر ان کو سوالات کے لیے اکساتے رہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر اس بات کو ایسے ہائی لائٹ کیا گیا جیسے خدا نخواستہ وزیر اعظم اور طلبہ میں کوئی جنگ ہوگئی ہو۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو معاشرہ حضرت عمرؓ سے دوسری چادر کا سوال کرنے کا واقعہ نہایت عقیدت اور فخر سے سناتا ہے وہ ان سوالات پر ایسا واویلا کیوں مچا رہا ہے؟

خلاصہ یہ کہ سوال کرنا اور اپنی رائے کا اظہار ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن اس چیز کو بنیاد بنا کسی پروپیگنڈہ کی کوئی بھی گنجائش معاشرے میں نہیں کیونکہ جو قوم سوال نہیں کرتی اس کا نہ تو حال ہوتا ہے اور نہ مستقبل۔۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal