Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Ustad Sarkon Par Lekin Kyun?

Ustad Sarkon Par Lekin Kyun?

استاد سڑکوں پر لیکن کیوں؟

استاد آج سڑکوں پر ہیں۔ وہ جن کی جگہ سر ماتھے پر تھی آج سڑکوں پر ہیں۔ وہ جن کا مقام اعلیٰ اور اونچا ہے آج انہیں ہاتھ میں پلے کارڈ تھامے سڑکوں پر بیٹھے دیکھا تو دل کٹ سا گیا۔ آخر کیوں ہے استاد سڑکوں پر؟ کونسی ایسی وجوہات ہیں جو ہمارے معلم اور ہمارے محسن سڑکوں پر آ گئے اور سکولوں کو بند کر دیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سابقہ اور نگران حکومت کی پالیسیز، نت نئی اصلاحات اور قوانین میں تبدیلی ہے۔

اگر جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلا اور اہم مسئلہ سرکاری سکولوں کی نجكاری ہے جس میں پہلے مرحلے میں چند روز پہلے بہت سے سکولوں کو پرائیویٹائز کر دیا گیا۔ بظاہر یہ بہانہ بنایا گیا ہے کہ سرکاری سکولوں کی کاركردگی چونکہ بہتر نہیں ہے اس لیے انہیں نجی تنظیموں جن میں دانش سکول سسٹم اور دیگر شامل ہیں ان کے حوالے کیا جا رہا ہے لیکن اپنے علاقے کے پرائیویٹ ہونے والے سکولوں کی لسٹ جب میں نے دیکھی تو اس بات پر حیران ہوا کہ پرائیویٹ ہونے والے سکول تو بہترین کاركردگی دکھا رہے ہیں اور جو سکول کمزور کاركردگی کے حامل تھے انہیں پرائیویٹ نہیں کیا گیا۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر نجكاری ایک تجربہ ہے تو کمزور سکولوں پر پہلے ہونا چاہئے کیونکہ جو سکول پرائیویٹ ہوئے ہیں وہ تو پہلے سے ہی اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

اور پھر جب سکولز کی نجكاری ہوگی تو سکولز بھی پاور سیکٹر کی طرح کسی پرائیویٹ کمپنی کے زیر نگرانی آ جائیں گے اور وہ بچے جو اپنی یونیفارم اور جوتے لینے سے بھی قاصر ہیں کل کو کیسے بھاری فیس ادا کرکے تعلیم حاصل کریں گے؟

دوسرا اہم مسئلہ اساتذہ کی خالی آسامیاں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے سات سال سے سرکاری سکولز میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد آسامیاں خالی ہیں جس کی وجہ سے ہر استاد پر دو سو طلبہ کو پڑھانے کی ذمہ داری ہے جبکہ ایک ٹیچر محض 40 سٹوڈنٹ کو آسانی سے پڑھا سکتا ہے مگر اس کے باوجود ٹیچرز نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بہترین رزلٹ دئے۔

2017 میں بھرتی ہونے والے ایس ایس ٹی ٹیچرز اور (اے ای اوز اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز) کو بھی پرمننٹ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور کے ایک سرکاری سکول کا دورہ کیا تو انکشاف ہوا کہ 1600 بچوں کو فقط دس ٹیچر پڑھا رہے تھے۔ لیکن بجائے اس کے کہ اس مسئلے کا کوئی تدارک کیا جاتا وزیر اعلی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ایسے سکول نہیں چلیں گے اور ہم ان کی نجكاری کرتے ہیں۔

ان کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ایجوکیشن سیکٹر میں ہیں جن میں درجہ چہارم کے ملازمین کی کمی، پریکٹیکل ورک کے لیے اپریٹس کی عدم دستیابی اور دیگر مسائل ہیں۔ اب آتے ہیں ٹیچرز کے اس معاشی استحصال کی جانب جو مختلف قوانین میں تبدیلیوں کے بعد ہوا۔

مشہور مقولہ ہے کہ استاد کو فکر معاش سے آزاد کر دو اور ایک بہترین قوم حاصل کر لو۔ لیکن ملک خداداد میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایک ٹیچر کو معاشی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ تدریس کے علاوہ دیگر کاموں جیسے کہ ڈینگی مہم، مردم شماری، الیکشن ڈیوٹی اور دیگر ایسے مسائل میں الجھا رکھا ہے اور اس پر معاشی قوانین میں تبدیلیاں استاد کی پریشانی میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

ان میں سب سے پہلا ایشو تو پینشن اصلاحات کا ہے جس میں پینشن کو کم کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ پہلے جو پینشن رننگ پے پر بنتی تھی اسے اب ابتدائی بنیادی تنخواہ کی بنیاد پر کر دیا جائے گا۔ سادہ زبان میں اگر ایک ٹیچر کی بھرتی ہوتے وقت تنخواہ بیس(20) ہزار تھی اور ابھی موجودہ اسی (80) ہزار ہے تو اس کی پینشن جو پہلے 80 ہزار کے حساب سے بننی تھی اب قوانین میں تبدیلی کے بعد 20 ہزار کے حساب سے بنے گی۔ جس کی وجہ سے پنشن میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ ایک استاد جو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ حصول تعلیم اور عمر کے ساٹھ سال تک شعبہ تدریس کو دیتا ہے اور اس کا کوئی سائیڈ بزنس نہیں اس کے لیے عمر کے آخری حصے کا حق چھین لینا کیا زيادتی نہیں؟

اسی طرح لیو ان کیشمنٹ کا ایشو ہے جس کو پینشن کی طرح انیشئیل بیسک پے (ابتدائی بنیادی تنخواہ) کی بنیاد پر کر دیا گیا ہے۔ لیو ان کیشمنٹ دراصل وہ پیسے ہوتے ہیں جو سالانہ سرکاری چھٹیوں کے معاوضے کے طور پر ایک استاد کو دئے جاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد یا دوران سروس چھٹیوں یا معاوضے کی صورت میں ایک استاد حاصل کر سکتا ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ انشورینس کا بھی ہے۔ اساتذہ کی تنخواہ سے انشورنس کی کٹوتی باقاعدگی سے ہوتی ہے لیکن وہ کسی انفارچونیٹ (بدقسمت حادثے) کے بنا اسے حاصل نہیں کر سکتے جبکہ باقی انشورنس کمپنیاں ایک معینہ مدت کے بعد ریٹرن پالیسی جاری کر دیتی ہیں اور سائل اپنی انشورنس کی رقم حاصل کر سکتا ہے۔

ان تبدیلیوں کا آخری حساب کتاب جسے گریجویٹی کہتے ہیں اس پر خاطر خواہ اثر پڑ رہا ہے اور وہ حساب ایک تہائی رہ جائے گا۔ ایک تازہ ریٹائر ہونے والے استاد سے اس کے حساب (گریجویٹی) کے بارے پتہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ان کا حساب معمول کے حساب کا بمشکل تیسرا حصہ بنے گا جس کی وجہ سے وہ خاصے پریشان نظر آئے۔

اس سب صورت حال میں اساتذہ کا ری ایکشن لازمی تھا اس لیے 10 اکتوبر 2023 کو پیکٹ، اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائینس) اور ٹیچرز نے سول سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاج کیا جس پر پنجاب حکومت نے سخت ایکشن لیا اور بہت سی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جس کے بعد ٹیچرز نے سکول مکمل بند کرنے اور پورے احتجاج کی کال دے دی۔

ایک ٹیچر قوم کا محسن ہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ٹیچرز کو ان کے جائز حقوق فراہم کرے اور ان کے معاشی استحصال کو روکے۔ کیونکہ ایک اچھا ٹیچر ہی کسی گروہ کو قوم کا ایک مفید حصہ بنا سکتا ہے۔

Check Also

Pasand Ki Shadi

By Jawairia Sajid