Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Ushaaq Qabila Aur Iske Urdu Par Tareekhi Hamle

Ushaaq Qabila Aur Iske Urdu Par Tareekhi Hamle

عشاق قبیلہ اور اس کے اردو پر تاریخی حملے

عشق و محبت کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے راہی پاگل، دیوانے اور احمقانہ حد تک جنونی ہوتے ہیں۔ ایسا لوگ کہتے ہیں ہم نہیں۔ پوری دنیا سمجھا سمجھا کر تھک جائے گی ناصح کی جوتیاں گھس جائیں گیں۔ لوگوں ان کو طعنوں، پتھروں اور اذیتوں سے ماریں گے یہاں تک کہ ان کی روح کو جلا دیں گے لیکن ان کے جنون کی شدت بڑھتی رہے گی۔

محبوب کی جھلک ان کے لیے آب حیات، محبوب کی بات حرف آخر اور محبوب کی خواہش ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے (چاہے محبوب کو یاد بھی نہ ہو کہ یہ میری خواہش ہے)۔

یہ دیوانے درد میں دوا، عشق میں شفا اور صنم میں خدا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ واپسی یا تو ممکن نہیں ہوتی اور یا پھر پیٹرول کی بڑھتی قیمت اور اس کی وجہ سے کرایوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی وجہ سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔

یہ دیوانے دشت میں بیٹھ کر نخلستان ڈھونڈتے ہیں اور باغ و بہار میں دشت کی ویرانی کو یاد کرکے آہ و زاری کرتے ہیں۔

چاند کو ان بشر زادوں نے اپنا ڈاکیا سمجھا ہوا ہے کہ وہ ان کے خاموش پیغام جنہیں کہنے کی ہمت ان میں نہیں اسے یہ چاند ان کے محبوب تک پہنچا دیتا ہے اور اوپر سے پختہ عقیدہ لیے پھرتے ہیں کہ اسی وقت پر وہ محبوبِ دلنواز بھی چاند کی جانب دیکھ رہا ہوگا لیکن محبوب صاحب اکثر و بیشتر گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہا ہوتا۔

عاشقی میں یہ قبائل جن اہم شخصیات کے مرید ہیں ان میں سے اکثر اپنے وقت کے ویلے ترین لوگ تھے۔ ایسا بھی لوگ کہتے ہیں ہم نہیں۔ رانجھا عرف تیدو جو پنجاب کے عاشقین کا مشہور مرشد ہے کافی حد تک ویلے اور لاڈلے انسان تھے۔

گاؤں کے ایک بابا جی کہتے ہیں کہ اگر رانجھے کو آٹھ گھنٹے مل لائن کی ڈیوٹی یا بارہ گھنٹے دکان میں گاہکوں کے ساتھ سر کھپانا پڑتا تو یقیناً اسے خواب میں ہیر کی بجائے زنجیر نظر آتی۔ اور ہیر بھی اگر اس دور میں ہوتی تو نایاب دیسی گھی کی چوری کی بجائے رانجھے کو میکڈونلڈ یا کے ایف سی کا راستہ دکھا دیتی۔

ان عشاق کی پیروکار جماعت نے سب سے زیادہ حملے ادب پر کئے، ویسے تو ہر زبان پر ان کا حملہ شدید اور زبردست رہا لیکن سب سے شدت والا حملہ اردو پر ہوا۔

اردو ادب پر ان عشاق کے حلیف قبیلے شعراء نے اول اول حملے شروع کئے۔ شعراء قبیلے کے حملے کافی منظم اور باقاعدہ تھے کیونکہ قبیلہ شعراء میں بہترین اور آزمودہ کار سپاہی تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد قبیلہ عشاق کے ہر اول دستے کے بہادروں نے اردو ادب پر گوریلا اور بے قاعدہ حملے شروع کر دئے۔

ہجر و وصال کی تلخی، محبوب کا مسلسل اگنور کرنا یعنی بے وفائی، مے خانے میں ان کی طبع آزمائی اور محبوب کی رقیب سے شناسائی نے ان میں اتنا غصہ بھر دیا کہ اس غصے کی وجہ سے یہ حملے نہایت شدید ثابت ہوئے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اردو ادب کو پسپائی اختیار کرنی پڑی اور اردو ادب پر عشاق اور شعراء قبیلے کا قبضہ ہوگیا۔

عشاق قبیلے کے جذباتی نوجوانوں نے شعراء قبیلے سے مطالبہ کیا کہ نئے مروجہ قانون میں محبوب کو سنگدل، ظالم، بے حس اور بے وفا قرار دیا جائے، اپنے دلائل میں انہوں نے صاحبہ کا تیر توڑنا، لیلیٰ کا مجنوں کو اگنور کرنا اور بھینسیں چرانے کے باوجود رانجھے کے کنوارے مرنے کا ذکر کیا۔

اس کے علاوہ اپنی مرضی سے اہم عہدوں جیسے ناصح، رقیب، نامہ بر، غم گسار اور چارہ ساز پر تقرریاں کروائیں۔

شعراء قبیلے نے ان کے تمام مطالبات طوعاً کرہاً مان لیے۔ عشاق قبیلے نے اپنے نئے قوانین کا پرچار ہر جگہ کیا۔

موبائل فون پر جب محبوب سے اظہار محبت میں ناکامی ہوئی تو اپنے نئے قوانین اور کاموں کی ترویج کے لیے اس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔

ان نئے قوانین اور اہم عہدوں تک رسائی کی آسانی نے یہ گل کھلایا کہ جلد ہی عشاق قبیلے کے نااہل لوگوں اور ان کی تبع آزمائی نے اردو ادب کے خوشحال علاقے میں تباہی مچا دی اور دیکھتے دیکھتے یہ سر سبز و شاداب علاقہ جہاں گلستان و بلبل کی صدائیں گونجتی تھیں خود رو جھاڑیوں اور خار دار بوٹوں سے بھر گیا۔

لیکن آج بھی اس علاقے میں بنسری لیے شعراء قبیلے کے چند نوجوان یہ کہتے نظر آتے ہیں۔۔

خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan