Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. The King

The King

دی کنگ

آج کل ملک پاکستان میں ایک ہی جنون چھایا ہوا ہے، دنیا کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ سجا ہوا ہے اور ہر شخص کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے۔ پاکستانی ٹیم اپنے پانچ میچ کپتان بابر اعظم کی قیادت میں کھیل چکی ہے۔ بد قسمتی سے نتائج کچھ خاص نہیں رہے اور پہلے دو میچ جیتنے کے بعد مسلسل تین میچ پاکستان ٹیم ہار چکی ہے اور سپر فور مرحلے میں پہنچنا بھی تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے لیکن اس سے بھی افسوس ناک یا تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان شکستوں کے بعد کپتان بابر اعظم جو کہ اس وقت ایک بار پھر سٹرگلنگ فیز میں ہیں ان پر بلاجواز تنقید کی بارش شروع ہو چکی ہے۔ تو اس سے پہلے کہ موجودہ حالات پر بات کی جائے ذرا ایک مختصر سا تعارف بابر اعظم کا ہو جائے کہ آج وہ جس مقام پر ہے اس کے لیے کتنی جدوجہد کی اور اس وقت وہ کس مقام پر ہے۔

بابر اعظم پاکستانی ٹیم کے دائیں ہاتھ کے بیٹس مین ہیں اور ساتھ میں دائیں ہاتھ کی آف بریک بالنگ کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کی عمر 29 سال ہے۔ ایک بال پکر سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے بابر اعظم نے 2015 میں زمبابوے کے خلاف ون ڈے ڈیبیو کیا۔ اس کے بعد مئی 2016 میں ٹیسٹ اور ستمبر 2016 میں ٹی ٹوئنٹی کا ڈیبیو کیا۔ ان کی جرسی کا نمبر 56 ہے۔

بابر اعظم ایسے موقعہ پر ٹیم میں آئے جب محمد یوسف، انضمام الحق، شاہد آفریدی، یونس خان، مصباح الحق، محمد حفیظ، شعیب ملک اور اظہر علی جیسے ماہر پلیئرز میں سے کچھ تو ریٹائر ہو چکے تھے اور کچھ اپنے کیریئر کے آخری میچ کھیل رہے تھے لیکن اس نوجوان بلے باز نے ناصرف ان کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی بلکہ ایسے ایسے ریکارڈ بنائے کہ دنیا میں پاکستانی ٹیم کی پہچان بن گیا۔

ان کے ریکارڈز پر نگاہ دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بابر اعظم نے صرف 21 ون ڈے میچز میں 1000 رنز بنا کر پاکستان کے تیسرے تیز ترین ہزار رنز کرنے والے بلے باز بنے۔ 45 میچز میں 2000 تیز ترین رنز۔ اور 68 میچز میں 3000 کرکے ناصرف پاکستان بلکہ ایشاء کے دوسرے تیز ترین رنز بنائے۔ اسی طرح 97 میچز میں 5000 رنز کرکے تیز ترین پانچ ہزار رنز کرنے والے بلے باز بھی بنے۔ وہ واحد بلے باز ہیں جو یو اے ای میں پانچ لگاتار سینکڑے بنا چکے ہیں۔ ون ڈے میں تیز ترین 15 اور 18 سینکڑے بنانے کا ریکارڈ بھی ان کے پاس ہے۔ صرف 13 اننگز میں بطور کپتان 1000رنز بنانے والے وہ تیز ترین کپتان ہیں۔ آئی سی سی کی رینكنگ کے مطابق بابر اعظم 56.61 کی اوسط سے 112 میچز میں 5,492 رنز بنا کر پہلی پوزیشن پر ہیں۔

اگر ٹی ٹوئنٹی کی بات کی جائے تو 2021 کے ورلڈ کپ میں وہ سب سے زیادہ انفرادی سکور (303) کرنے والے پلیئر تھے۔ اسی طرح تیز ترین ہزار رنز بھی ان کے ہیں۔ ابھی تک ٹی ٹوئنٹی میں وہ 41.48 کی ایوریج سے 104 میچز میں 3485 رنز بنا کر آئی سی سی کی رینكنگ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ جبکہ 2018 میں پہلے نمبر پر تھے۔

اسی طرح ٹیسٹ میچز کی بات کی جائے تو بابر اعظم 2018,2019 اور 2022 میں پاکستان کی جانب سے سب سے سالانہ زیادہ رنز کرنے والے کھلاڑی تھے۔ اور ابھی تک 49 ٹیسٹ میچز میں 47.74 کی اوسط سے 3,772 رنز بنا کر آئی سی سی کی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر براجمان ہیں اور ماضی قریب میں دوسرے نمبر پر بھی رہ چکے ہیں۔

اب آ جاتے ہیں ان ناقدین پر جو بابر اعظم کو بطور طنز زمبابر کہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں بابر کے زیادہ رنز زمباوے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہیں لیکن اگر سٹیٹس کی بات کی جائے تو بابر کی صرف ون ڈے میں 2 سنچریاں زمباوے کے خلاف ہیں، ٹی ٹوئنٹی میں بابر کی تین سنچریاں انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا، ون ڈے میں 19 میں سے 3 آسٹریلیا، 2 انگلینڈ، 1 نیپال، 2 نیوزی لینڈ، 1 جنوبی افریقا، 3 سری لنکا، 5 ویسٹ انڈیز اور صرف 2 زمباوے کے خلاف ہیں۔ اسی طرح 9 ٹیسٹ سنچریز میں سے 2 آسٹریلیا، 1 بنگلہ دیش، 1 انگلینڈ، 2 نیوزی لینڈ اور تین سری لنكا کے خلاف ہیں تو اس بات کا جواز ہی نہیں بنتا کہ کمزور ٹیم کے خلاف رنز بنائے۔

اگلا اعتراض یہ ہے کہ بابر اعظم ایک اچھے کھلاڑی تو ہیں لیکن اچھے کپتان نہیں تو گرامی قدر بابر اعظم ہی وہ پہلے کپتان ہیں جن کی قیادت میں ورلڈ کپ میں انڈیا کو پاکستان سے شکست ہوئی جو کام گریٹ عمران خان اور جاوید میانداد جیسے پلیئرز بھی نہیں کر سکے۔ بطور کپتان وہ پہلے پاکستانی اور پانچویں عالمی پلیئر ہیں جنہوں نے ہر فارمیٹ میں 1000 رنز بنائے ہیں۔ 2022 میں انہوں نے ریكی پونٹنگ کا کسی بھی سال میں سب سے زیادہ 50 سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ توڑا۔

ابھی تک بابر اعظم کی کپتانی میں ون ڈے کے 39 میچز ہوئے ہیں جن میں سے 24 جیتے اور 13 ہارے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں 71 میچز میں سے فقط 23 میچ ہارے جبکہ 42 میچ جیتے ہیں۔ اسی طرح ٹیسٹ میچ میں کل 20 میچز میں سے 10 جیتے، 6 ہارے جبکہ 4 ڈرا ہوئے یعنی ہر فارمیٹ میں جیت کا تناسب 76 فی صد سے زیادہ ہے تو یہ اعتراض بھی ختم؟

اب آ جاتے ہیں حالیہ ورلڈ کپ کے سکواڈ کی جانب تو آپ کی ٹیم میں موجودہ پلیئرز میں سے بہترین پلیئرز موجود ہیں۔ آپ امام الحق کی بات کریں، عبدالله شفیق کی، بابر کی رضوان کی یا افتخار کی۔ اسی طرح حسن علی، شاہین اور حارث بہترین پیس اٹیک ہے۔ ہاں سپینرز میں کچھ مسائل ہیں لیکن نواز اور شاداب آپ کے بہترین سپنرز کی لسٹ میں آتے ہیں۔ لیکن تنقید کرنے والے میمز بنانے والے اپنی انا کی تسکین کے لیے جانے کن کن القابات اور خطابات سے ٹیم کو نواز رہے ہیں۔

میں ذاتی طور پر کرکٹ کا فین ہوں لیکن جنونی فین نہیں کہہ سکتے لیکن اس بات پر مجھے بھی افسوس ہوتا کہ جب ٹیم جیت رہی ہوتی تو ان کو کاندھوں پر اٹھانے والے فینز مشکل وقت میں اتنا کیوں گرا دیتے ہیں۔ پڑوسی ملک کی مثالیں دینے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ویرات کوہلی اور دیگر پلیئرز کے برے وقت میں ان کی قوم نے ان کا حوصلہ بڑھایا نہ کہ اپنی انا اور سستی شہرت کے لیے ان کو اتنا گرا دیا کہ دوبارہ اٹھ ہو نہ سکیں۔

ہمارے پلیئرز کی بھی فیملی ہے، سوچیں یہ بیہودہ میمز اور تبصرے جب وہ سنتے ہوں گے تو ان پر کیا گزرتی ہوگی؟ آج بابر اعظم سے بھی پریس کانفرنس میں ان میمز اور تنقید کے متعلق سوال ہوا تو وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ میں نہیں دیکھتا یا مجھے نہیں پتہ، لیکن ان کے چہرے کا کرب ان کے جھوٹ کو عیاں کر گیا۔

الغرض یہ ہماری ٹیم ہے اور ہمارے پلیئرز ہیں۔ ہمیں ان کا حوصلہ بڑھانا ہے نہ کہ ان توڑنا ہے۔

بابر اعظم ایک كنگ ہے اور ہمیشہ رہے گا ان شاء اللہ۔۔

Check Also

Amina Ki Muhabbat

By Mansoor Nadeem