Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Paanch Kaaf

Paanch Kaaf

پانچ کاف

تجسس اور سوال کرنا انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ ہے، انسان بنیادی طور پر بالکل خالی ذہن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، لیکن جیسے جیسے وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور چیزوں کو دیکھتا ہو اس کے ذہن میں ان چیزوں کے بارے میں جاننے کا تجسس اور سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ انہی سوالات سے وہ اپنے نظریات، معاشرت، مذہب اور زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے اور یہی تجسس نت نئی ایجادات، دریافتوں اور نظریات کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انسانی سرشت میں ہے کہ وہ ہر چیز کے ہونے اور اس کے محرکات پر غور کرتا ہے۔ حضرت انسان نے اسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر شجر ممنوع کا ذائقہ چکھا اور پھر اسے حیات دنیا کا تلخ مزہ چکھنا پڑا۔ کوئی بھی سوال ہمیشہ پانچ کاف یا انگلش میں فائیو ڈبلیوز (5w) میں سے ہوتا ہے۔

پہلا اور بنیادی کاف ہے کیا (what)؟

کیا؟ جب بھی انسان کسی چیز یا کسی مسئلہ کو دیکھتا ہے تو پہلا خیال جو اس کے ذہن میں آتا ہے وہ بنیادی طور پر اس چیز کی شناخت کا ہوتا ہے کہ یہ چیز کیا ہے؟ اس کا نام، اس کی ساخت، اس کی خصوصیات کے بارے میں متجسس ہوتا ہے تو وہ ان پر معلومات لیتا اور جانتا ہے۔ اس کی طبعی خصوصیات اور کیمائی خصوصیات کے بارے میں جانتا ہے اس کے رازوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی واقعہ ہوتا ہے، کوئی تبدیلی آتی ہے تو بھی پہلا سوال یہی ہے کہ یہ واقعہ کیا ہے، یہ تخلیق کیا ہے یعنی سادہ زبان میں ہوا کیا ہے؟

دوسرا کاف ہے کون (who)؟

انسان دیکھتا ہے کہ ایک تخلیق ہوئی، ایک تجربہ ہوا، ایک ایجاد ہوئی یا ایک دریافت ہوئی۔ اسی طرح کوئی واقعہ پیش آیا تو اگلا سوال انسان کے ذہن میں فوراً سے آتا ہے کہ اس تخلیق کا خالق کون ہے؟ اس ایجاد کا موجد اور اس واقعہ کا محرک کون ہے؟

اگلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ ہے کہ کب (when)؟

یعنی جب ایک چیز کے بارے میں پتہ چل جائے اور یہ بھی کہ کون محرک ہے تو پھر دیکھا جاتا ہے کہ یہ کب ہوا، کب میں اس چیز کی تاریخ و ارتقا کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ یہ چیز کب معرض وجود میں آئی اور اب تک کس حد تک اس میں ارتقائی تبدیلی آ چکی ہے۔

اس کے بعد کا سوال ہے کیوں (why)؟

سوال کا یہ مرحلہ نہایت اہم ہے، اس میں ہم ہمارے مسائل یا ایجاد و تخلیق کے بارے میں سوچتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا، فرض کریں ایک ایجاد ہوئی تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ کیا وجہ تھی جو یہ ایجاد ہوئی، کیوں خلق کیا گیا، اس میں سوال کا اصل حصہ آ جاتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرتی اور سماجی مسائل پیدا کیوں ہو رہے ہیں اور ان کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اور جب ہم سوال کرنے لگتے ہیں تو ہمیں اس کا حل مل ہی جاتا ہے۔

اگلے مرحلہ میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے (how)؟

یہ مرحلہ مسائل کے حل کا مرحلہ ہے۔ اس میں دو حصے آ جاتے ہیں پہلا حصہ تو یہ کہ کوئی مسئلہ یا ایجاد ہوئی کیسے، اس کے محرکات کیا تھے اس کی وجہ کیا بنی اور دوسرا مرحلہ یہ ہے جب ہم کسی مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں فرض کیا کوئی معاشرتی یا سماجی مسئلہ پیدا ہوا تو انسان سوچے گا کہ اسے کیسے حل کیا جائے اور اور پھر اس سوال کے جواب میں مسائل پر قابو پا لے گا یا کوئی ایجاد و دریافت اس کے حصے میں آئے گی۔

ہمیشہ یاد رکھیں تجسس اور سوال کرنا ہر انسان کا ہر شعبہ زندگی میں حق ہے اور اس میں کسی قسم کی عار یا ممانعت نہیں۔ اسلام میں سوال اور چیزوں پر غور و فکر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کے تجسس اور سوال کے متعلق دو اہم واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ایک طرف جب انہوں نے سورج، چاند اور ستاروں پر غور کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا یہ معبود ہیں؟ لیکن جب سب ڈوب گئے تو انہیں جواب ملا کہ نہیں اسی طرح دوسری جگہ وہ اللہ تعالیٰ سے (کیسےکی صنف میں) سوال کر رہے ہیں کہ کیسے وہ مارنے کے بعد زندہ کرے گا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ انہیں پہاڑ پر پھینکے گئے مردہ قیمہ ہوئے ہوئے پرندے زندہ کرکے جواب دکھاتے ہیں۔

دور حاضر میں سوال کرنے، غور و فکر کرنے اور چیزوں کے بارے میں کھوجنے کا سلسلہ ناپید ہوتا جا رہا جس کی بنیادی وجہ طالب علم کا ڈر ہے، کبھی کسی سوال پر توہین عدالت، توہین رياست یا توہین مذہب کا خدشہ یا کہیں سوال پر جھڑکے جانے، ڈانٹے جانے یا تمسخر بننے کے ڈر نے انسان سے سوال کی طاقت چھین لی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر انسان کے سوالوں کے مدلل جواب دئے جائیں اور سوال کرنے پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ مسائل کا حل اور کائنات کے رازوں کی جانب قدم بڑھا کر انسانی زندگی کو پر سکون کیا جا سکے کیونکہ

ایک اچھا سوال ایک اچھے جواب، ایک اچھی تخلیق اور ایک خوش آئند حل کی جانب پہلا قدم ہے۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad