Khuda Ke Ladle
خدا کے لاڈلے
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ کوئی بھی قوم، قبیلہ یا مذہب خدا کا لاڈلہ نہیں رہا۔ دنیا میں عزت اور قیادت ہمیشہ ایک قوم کو میسر نہیں رہی۔ اللہ پاک اسے قوموں میں بدلتا رہا ہے اور اسی تغیر کی وجہ سے آج تک کائنات کا نظام چل رہا ہے ورنہ ابھی تک یہ دنیا حاکم اور محکوم دو واضح گروہوں میں بٹ چکی ہوتی یا ختم ہو چکی ہوتی۔
اسی تغیر نے قوموں کو اپنی حالت بدلنے کی طرف راغب کیا۔ اور جن قوموں نے محنت اور کوشش سے ان صفات کو اپنے اندر پیدا کیا۔ بلا تفریق انھیں دنیا کی امامت اور قیادت کا فریضہ سونپ دیا گیا اور جب تک یہ صفات اس قوم میں موجود رہیں وہ قوم قیادت کرتی رہی لیکن جیسے ہی کسی قوم نے ان اقدار کو چھوڑا۔ ان سے قیادت چھین لی گئی۔
صفات حکومت
انسانی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ چند صفات ایسی ہیں کہ جس قوم میں یہ صفات پیدا ہوئیں۔ دنیا کی قیادت و حکومت اس قوم کے حصے آئی
1: ایمانداری
2: سچائی
3: عدل و انصاف
4: مساوات
5: افراد کا احساس ذمہ داری
6: جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ
7: تجارت
تاریخ
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ سب سے پہلے جو باقاعدہ حکومت ملی وہ عراق میں دولت بابل و نینوا تھی، پھر مصر میں فراعین مصر کو ملی۔ پھر بنی اسرائیل کو حکومت عطاء ہوئی حضرت موسیٰ کے دور میں ان میں مندجہ بالا صفات موجود تھیں۔ وفاداری، عدل و انصاف، ایمانداری اور شرافت۔ لیکن پھر جب انہوں نے ان صفات سے روگردانی کی تو ان سے حکومت چھن گئی۔
اسی طرح ایران میں دولت ساسانیہ میں نوشیروان عادل جیسے حکمران جب تک عدل و انصاف سے حکومت کرتے رہے وہ قائم رہی لیکن جیسے ہی خسرو پرویز، شیرویہ، اور يزد گرد جیسے ظالم اور نا اہل حکمران تخت پر بیٹھے حکومت ان سے چھن گئی۔ ایسا ہی حال رومی سلطنت بازنطین کا ہوا کہ جب تک تو اس پر شاہ قسطنطین اور ہركولیس جیسے بہادر حکمران رہے وہ قائم رہی لیکن ان کے بعد ختم ہوگئی، اسی طرح الگزینڈر کی یونانی حکومت بھی ختم ہوئی۔
اسلامی حکومت
پھر ملک عرب سے ایک قوم اٹھی، جسے بدو، جاہل اور گنوار سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اس قوم نے اسلام کے سنہرے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف، ایمانداری، رحمدلی، سچ، توکل، ناپ تول میں پورا کرنا اور تجارت جیسی اہم صفات کو اپنایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ عربوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی خلفائے راشدین، بنو امیہ اور بنو عباس اس کے بعد ایوبی، خوارزمی، سلجوق اور دولت عثمانیہ ان تمام لوگوں میں سے جس نے صفات کو اپنایا قدرت کی طرف سے انہیں حکمرانی ملی اور تمام دنیا پر اسلام کا بول بالا ہوا۔
اسلامی حکومت کا زوال اور وجہ
پھر ایک وقت آیا کہ جب بہت سی صفات کو چھوڑ دیا گیا اسلامی دنیا میں اتحاد کم ہوا اور فرقہ واریت عروج پر پہنچی یہاں تک کہ اس بات پر بحث ہونے لگی کہ براق جس پر حضور ﷺ وہ نر تھا یا مادہ۔ سادگی کا درس دینے والے اسلام کے حکمران لاؤ لشکرکے ساتھ محل سے نکلنے لگے اور عدل و انصاف کی بجائے خوارزمی حکومت میں لٹنے والے منگول کو قتل کیا گیا اور پھر منگول اٹھے اور اسلامی سلطنت کو تاخت و تاراج کیا۔
اسی طرح الپ ارسلان کے جانشیں جب غافل ہوئے تو سلجوق ریاست بھی ختم ہوگئی۔ اندلس جو کہ اسلامی تہذیب کا گڑھ تھا سے اسلام کو ایسے مٹایا گیا کہ نشان ڈھونڈنے مشکل ہو گئے۔
بابر اور اکبر و جہانگیر کے جانشینوں نے جب گھوڑے کی پیٹھ چھوڑی اور لہو لعب میں ڈوبے، دن رات شراب اور بیہودہ شاعری کی محفلیں برپا کیں تو اقتدار چھین کر ان انگریزوں کو دے دیا گیا جو غیر مسلم ہونے کے باوجود ایماندار تھے، غیرت مند شجاع اور انصاف مہیا کرنے والے تھے۔
مسلمانوں کی موجودہ صورت حال
بے شک مسلمان ہونا ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم حضور ﷺ کے امتی ہیں لیکن جب تک ہم اسلام کے رہنما اصولوں کو اپنا نہیں لیتے تو بہت مشکل ہے کہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر لیں۔ آج کیا وجہ ہے کہ مسلمان ممالک میں قدم قدم پر جھوٹ، بے ایمانی، ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی، ظلم اور نا انصافی کا دور دورہ ہے جبکہ غیر مسلم ممالک میں فوری انصاف، تجارت میں سچ اور ناپ تول پورا ملتا ہے۔
ایسا دین جس میں اپنی حفاظت کو مقدم قرار دیا گیا اور جس کی مقدس کتاب میں تلوار اور گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ملا وہاں کوئی جسمانی یا جنگی تیاری کا انتظام نہیں؟
بنی اسرائیل کا بھی یہی عقیدہ انھیں لے ڈوبا تھا کہ ہم تو خدا کے لاڈلے ہیں اسلیے سب ہمارے لیے ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی قدرت کے اصولوں کے خلاف کیا تو قدرت نے دنوں کو ان میں پھیر دیا اور حاکم کو محکوم بنا دیا۔ ایک کہاوت ہے کہ اگر مسلمان اور غیر مسلم سمندر میں ڈوب رہے ہوں تو صرف وہ بچے گا جو تیرنا جانتا ہوگا۔ کیوں کہ اسلام ایک عملی مذہب ہے نہ کہ زبانی۔ اگر ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عملی طور پر اسلام اپنانا ہوگا اور کوشش کرتے ہوئے اللہ پاک سے مدد طلب کرنی ہوگی۔ بقول اقبال
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا