Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Ghaza Israel Tanaza

Ghaza Israel Tanaza

غزہ اسرائیل تنازعہ

تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہمیشہ سے انسان ایک ہی اصول پر كاربند رہا ہے اور وہ ہے طاقت کو سلام۔ اس جہاں میں مظلوم کی آہ ایک مذاق، مغلوب کی کوشش غداری اور مفتوح کی حریت دہشت گردی ہے۔

7 اکتوبر 2023 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جس دن ایک کمزور، مظلوم لیکن حریت سے بھرپور قوم نے اٹھنے کی کوشش کی اور اپنی آزادی اور حریت کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ غزہ پٹی جہاں 2 ملین سے زائد انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قید کر رکھا تھا انہوں نے اپنی آزادی اور حریت کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا اور پھر اقوام عالم نے دیکھا کہ سب سے بہترین انٹیلیجنس ایجنسی (موساد) کی دعوے دار، آئرن ڈومب نامی مضبوط ایئر ڈیفنس سسٹم رکھنے والی جدید اور مسلح فوج مجاہدین کے سامنے بھاگنے پر مجبور ہوئی اور روایتی ہتھیار رکھنے والی حماس نے اسرائیل کے بہت سے حصے پر قبضہ کر لیا اور شجاعت و بہادری کی داستانیں رقم کیں اور بہت سے کافروں کو جہنم واصل کرنے کے ساتھ ساتھ صیہونی فوج کے بہت سے فوجی قید کر لیے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اشکلون پر حماس کا قبضہ ہو چکا ہے۔

ایسے میں اچانک عالمی طاقتوں کو ہوش آیا کہ مظلوم کی اپنے حق کے لیے حریت تو دہشت گردی ہے اور امریکا بہادر، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور یوکرین جیسے ممالک نے حماس کے اس عمل کو ایک عظیم ترین دہشت گردی قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں اس کی مذمت کی۔ اسی طرح سعودی عرب، تركی اور دیگر بہت سے ممالک نے حماس کی حمایت تو کی لیکن ساتھ میں انہیں پر امن رہنے اور تحمل سے کام لینے کا مشورہ بھی دیا۔ واضح تھا کہ عالمی طاقتوں کو شدید دکھ ہوا اور وہ اس انتہا پسندی (حریت پسندی)کے خلاف ہیں لیکن جان کی امان پاؤں تو ان عالمی طاقتوں کو کچھ یاد دلا دوں؟

جس طرح سے غیر قانونی طور پر اہل یہود کو فلسطین میں آباد کیا گیا وہ سب تو ایک الگ معاملہ ہے اور اس تاریخ کو الگ سے بیان کیا جائے گا لیکن اگر ہم ماضی میں جائیں تو دیکھتے ہیں کہ 1990ء میں صیہونیوں نے اپنے ٹیمپل کی بنیاد رکھنے کے لیے 17 نمازیوں کو سرِ مسجد نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا اور بہت سوں کو زخمی کیا تو امن عامہ کی باتیں کہاں تھیں؟

1994ء الخلیل مسجد ہیبرون میں جب نماز پڑھتے ہوئے 29 نمازیوں اور پھر بھگدڑ میں 19 مزید فلسطینیوں کو سر بازار قتل کیا گیا تو کیا اسرائیل ایک پر امن ریاست تھی؟

2000 سے 2005ء تک دوسرے انتقاضہ میں جب اسرائیلی فوج نے پانچ ہزار (5000) بے گناہ فلسطینی شہید کئے اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی کئے تو کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی؟

جب حماس 2006ء کے قانون ساز الیکشن میں 132 میں 45% یعنی 74 سیٹیں جیت کر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بناتے ہیں اور فتاح جیسی پارٹی کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں تو وہ دہشت گرد کیسے ہوئے؟ پھر جب اسرائیل نے ایک بار غزہ پٹی کو چھوڑ دیا تھا تو کیوں بار بار ان کے معاملات میں مداخلت کرتے رہے۔

دسمبر 2008ء میں جب حماس کی حکومت بنے محض دو سال ہوئے تھے تو اسرائیل غزہ پٹی پر حملہ کرتا ہے اور تین ہفتے تک مسلسل بمباری کرتا ہے، بہانہ حماس تنظیم کے کمانڈر لیکن نشانہ نصیرات، الجنین اور جبیلیہ جیسے پناہ گزین کیمپوں کو بناتا ہے جس کے نتیجے میں تین ہفتے میں 1500 افراد شہید ہوتے ہیں جن میں سے 1200 افراد سویلین ہیں اور 6 ہزار کے قریب زخمی اور معذور ہو جاتے ہیں لیکن اقوام عالم اور یو این خواب خرگوش میں سوئی رہتی ہے کیونکہ مرنے والے مغلوب اور کمزور ہیں۔

پھر مارچ اور نومبر 2012ء میں اسرائیل ایک بار پھر پناہ گزین کیمپوں پر بے تحاشہ بمباری کرتا ہے۔ اس میں بھی بہانہ وہی بنایا جاتا ہے کہ میلیٹینٹس پر حملہ ہے لیکن یو این ہی کی رپورٹ کے مطابق 1 ہفتے کی بمباری میں پھر 300 افراد شہید ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر پناہ گزین کیمپ کے رفیوجیز ہوتے ہیں۔

اسی پر بس نہیں ہوتی بلکہ 8 جولائی 2014 سے 26 اگست 2014 تک دوبارہ پھر مسلسل بمباری ہوتی ہے جس کا نشانہ بننے والے 2310 افراد میں سے 70% مقتولین ایک بار پھر پناہ گزین ہوتے ہیں اور اس حملے میں یو این کی رپورٹ کے مطابق دس ہزار سے زائد افراد افراد زخمی جن میں سے بیشتر لوگ مستقل معذور ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ خار دار تار لگا کر اور دیوار بنا کر غزہ کے لوگوں کو قید کرنا آئے روز بجلی کی بندش، اور ایریز کراسنگ پر ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی روز کا معمول ہے۔

حالیہ سال 2023ء میں 15 اپریل کو مسجد اقصیٰ میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں کون نہیں جانتا جب بوقت فجر نمازیوں پر اسرائیل کے فوجیوں نے دهاوا بولا اور مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں 158 نمازی شدید زخمی ہوئے۔ عورتوں کے سروں سے حجاب کھینچے گئے، بچوں پر بیلٹ گنوں سے نشانے لگائے گئے۔ یہ سب کچھ یو این کی رپورٹس کہہ رہی ہیں۔

تو جناب والا آپ ہی کے پروفیسرز کی لکھی سائنس کی کتابیں کہتی ہیں کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے اور کسی بھی چیز پر ایک حد سے زیادہ پریشر ڈالنے سے وہ ایکسپولائٹ ہو جاتی ہے تو جناب یہ وہ رد عمل ہی ہے جسے آپ بڑی ہی آسانی سے دہشت گردی ڈیکلیئر کر رہے ہیں۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ چند روز پہلے تک ہونے والی روس یوکرائن جنگ میں تو یوکرائن حریت پسند تھا لیکن اسی نوعیت کی جنگ میں فلسطین دہشت گرد کیوں؟

جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بالآخر سب کو ٹیبل ٹاک پر آنا پڑے گا لیکن دھیان رکھئے گا کہ آپ کا تجاہل عارفانہ دنیا کو تباہی کی اس وادی میں نہ پھینک دے جہاں سے واپسی نا ممکن ہو۔ مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہی کہ فلسطینی عوام کو ان کا حق یو این کی قرار داد کے مطابق دیا جائے اور عالمی عدالت میں اس مسئلے کو حل کیا جائے۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad