Azadi
آزادی
تمام آبادی ملبے کا ایک ڈھیر بن چکی تھی ہر طرف تباہی و بربادی، منہدم عمارتیں، ٹوٹے ہوئے گھر زخمیوں کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ایک شکستہ دیوار کی اوٹ میں وہ چار لوگ بیٹھے تھے۔ وسیم بھی ان میں ایک تھا۔
وسیم نے اپنے تینوں ساتھیوں کو باری باری دیکھا اس کے ساتھ بیٹھا شخص اس کی مخالف سیاسی جماعت سے تھا وہ جماعت جس سے اسے شدت کی مخالفت تھی، دوسرا شخص اس کا مسلكی مخالف تھا۔ وہ فرقہ جس کا خدا، دین، نبی اور کتاب وہی تھی جسے وسیم مانتا تھا لیکن اپنے کچھ عقائد میں اس کے مخالف تھے۔
چوتھا اور آخری شخص دیوار کی اوٹ میں بندوق لیے بیٹھا ایک سپاہی تھا جس کے بارے میں اسے بتایا گیا تھا کہ یہ اس کے حصے کی روٹی کھاتا ہے اور ظالم و جابر ہے۔۔
ایک غم و غصے کی لہر اس کے خون میں دوڑ گئی۔ ایسے وقت میں جب چاروں طرف سے ان کی طرف دشمن بڑھ رہے تھے اس نے اپنے خنجر سے سپاہی کی پشت پر وار کیا اور اسے ختم کر دیا۔ فوجی کے خاتمے کے بعد اسے اپنے مسلکی مخالف کا خیال آیا۔ ایک پتھر اٹھا کر اس کے سر میں مارتے ہوئے وسیم نے اس کا بھی خاتمہ کر دیا۔۔
اس سے پہلے کہ اپنے سیاسی مخالف کی جانب وسیم متوجہ ہوتا پہلے سے تیار شخص نے اس پر حملہ کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوئے کافی دیر کی کوشش کے بعد بلآخر وسیم اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا اور اپنی مکمل طاقت کے ساتھ اس کا گلا دبا کر اسے ختم کر دیا۔۔
وہ فتح و ظفر کا نعرہ بلند کرتا ہوا اٹھا لیکن سر پر لگنے والی ایک ضرب سے بے ہوش ہو کر گر پڑا۔۔
جب وسیم کو ہوش آیا تو وہ تختہ دار پر موجود تھا اور اس کے گلے میں پھانسی کا پهندا تھا۔
سامنے نظر دوڑانے پر اسے دشمن بادشاہ نظر آیا جو ایک طنزیہ نظر سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
وسیم باآواز بلند بولا۔
بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔
اے شاہ جہاں بادشاہ میں ان افراد کے ظلم کا شکار تھا۔۔ آپ تو میرے نجات دہندہ ہو۔۔ میں نے اپنے مسلكی اور سیاسی مخالف کے ساتھ ساتھ سپاہی کو بھی مارا ہے۔۔
دشمن بادشاہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔۔
اے بے وقوف انسان جس سپاہی کو تم نے مارا وہ میرے اور تمہارے درمیان ایک آہنی دیوار تھا، جس مسلکی مخالف کو تم نے مارا وہ تمہارا ہم مذہب ساتھی تھا اور جس سیاسی مخالف کا خاتمہ تم نے کیا وہ تمہارا ہم وطن بھائی تھا۔۔
تم ایک بے وقوف ہو جو ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے اتنے خون کے پیاسے ہو گئے کہ ہمیں ان پر ترجیح دی۔
تمہاری سب سے چھوٹی سزا یہ ہے کہ تمہیں ختم کر دیا جائے۔ تمہارا مال ضبط کر لیا جائے اور تمہارے اہل و عیال کو غلام بنا لیا جائے۔
وسیم کو تختہ دار پر لایا گیا تو اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک بوسیدہ جھنڈا نکالا اور اسے بوسہ دینے کی کوشش کی لیکن جھنڈا اس سے چھین لیا گیا۔
موت کے جھٹکے سے پہلے جو آخری الفاظ اس کے کان میں پڑے وہ یہ تھے۔
ان لوگوں کو اپنے پرچم کو بوسہ دینے کا کوئی حق نہیں جو مشکل آزادی پر آسان غلامی کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک جھٹکے سے تختے کو کھنچا گیا۔ اچانک سے وسیم کی آنکھ کھل گئی۔
وہ پسینے میں شرابور تھا اور اس کا سانس کسی دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔۔ یہ سب ایک خواب تھا۔ اس نے سب سے سجدہ شکر ادا کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
وہ ساری رات سو نہیں سکا تھا اس کے گھر پر ابھی بھی وہ پارٹی پرچم لہرا رہا تھا جو اس نے پڑوس کے حاجی صاحب کی دکان سے لیا تھا اسے یاد آیا کہ حاجی صاحب نے کتنا اصرار کیا تھا کہ وہ پارٹی پرچم کی بجائے قومی پرچم لے۔
آج 14 اگست کی صبح تھی۔ علی الصبح وہ حاجی صاحب کے سامنے تھا۔ حاجی صاحب نے دکان کے سامنے اسے دیکھا تو حیران ہوئے۔
کیوں میاں وسیم آج صبح صبح خیریت تو ہے؟
وسیم جلدی سے بولا حاجی صاحب مجھے سبز ہلالی پرچم دے دیں۔
حاجی صاحب حیرت سے ایک پرچم اٹھا کر لائے تو فرط جذبات سے وسیم پرچم کے بوسے لینے لگا۔۔
حاجی صاحب خوشگوار حیرت سے گویا ہوئے
خیریت تو وسیم بھائی اتنے بوسے پاکستانی پرچم کے؟
وسیم مسکراتے ہوئے بولا۔۔ جی جی حاجی صاحب جو مشکل آزادی کو آسان غلامی پر ترجیح دے اس کو ہی اپنے پرچم کا بوسہ لینے کا حق ہے۔ حاجی صاحب مجھے معاف کر دیجئے گا مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ یہ وطن ہے تو ہم سب ہیں۔۔
حاجی صاحب وسیم کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔
وسیم میاں یہ وطن بہت قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ بہت سی دنیا آج آزادی کے لیے ترس رہی ہے جبکہ ہمیں آزادی کی قدر نہیں۔۔ مانتا ہوں سسٹم میں کمیاں ہیں، غربت، بے روزگاری اور بدامنی جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن یہ وطن ہمارا ہے۔
پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں یہ وطن بہت پیارا ہے بس اس کی دیکھ بھال صحیح سے نہیں ہو سکی۔ کوئی بھی ریاست تب آزاد ہوتی ہے جب اس کے باسی آزاد ہوتے ہیں، جھوٹ، فریب، وحشت اور سب سے بڑھ کر غلط ذہن سازی سے آزاد۔
آج آپ حقیقی معنوں میں آزاد ہوئے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر پلنے والے ایک آسیب کا خاتمہ کیا ہے۔ کاش سب اپنے اندر پلنے والے سیاسی، مسلکی اور نفرتوں کے بتوں کو ضرب ابراھیم سے اسی طرح پاش پاش کر دیں تو ہم سے ہماری آزادی کوئی نہیں چھین سکتا
تھوڑی دیر کے بعد وسیم کے گھر پر پارٹی پرچم کی بجائے سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا جس کے سائے میں ایک سکون تھا، ایک قرار تھا اور سب سے بڑھ کر وہ آزاد تھا۔ آج وہ مثل ابراھیم تھا جو اپنے اندر موجود نسلی تعصب، فرقہ وارانہ تقسیم اور سیاسی نفرت کے بتوں کو پاش پاش کر چکا تھا۔