Taleem Yafta, Anparh Aur Zaat Paat Ka Nizam
تعلیم یافتہ، ان پڑھ اور ذات پات کا نظام
1۔ مکان بنانے والے مستری مزدور اَن پڑھ اور کمی کمین وڈی ٹکی ذات اور مزدور کہلاتا ہے۔
2۔ کار، بائک ٹھیک کرواتے ہیں اَن پڑھ اور کمی کمین مستری کہلاتا ہے۔
3۔ گھر میں بجلی کی وائرنگ کرنے، ٹی وی، واشنگ مشین، استری وغیرہ ٹھیک کرنے اَن پڑھ اور کمی کمین الیکٹریشن کہلانا ہے۔
4۔ مکان رنگ روغن کرنےوالا اَن پڑھ اور کمی کمین پینٹر کہلاتا ہے۔
5۔ کپڑے رنگنے والا ان پڑھ اور کمی کمین للاری کہلاتا ہے۔
6۔ تنور پر سخت گرمی میں روٹیاں لگانے والا ان پڑھ اور کمی کمین ماچھی/ ماچھن کہلاتی ہے۔
7۔ سامان کی بار برداری کرنے والا مزور ان پڑھ اور کمی کمین پانڈی پلے دار، چنگڑ کہلاتا ہے۔
8۔ شیو کرنے اور بال کاٹنے، شادی بیاہ، غمی خوشی میں کھانا پکانے، نیوتا دینے والا اَن پڑھ اور کمی کمین نائی کہلاتا ہے۔
9۔ باتھ روم اور پانی گیس کی سپلائی کو ٹھیک کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمین پلمبر کہلاتا ہے۔
10۔ لکڑی/ فرنیچر کا کام کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمین ترکھان کہلاتا ہے۔
11۔ شادی بیاہ پے کھانے پکوانے ہوں تو اَن پڑھ اور کمی کمین کہلاتا ہے۔
12۔ کار، کوچ، ٹرک، وغیرہ کا ڈرائیور اَن پڑھ اور گندے پیشے والا کہلاتا ہے۔
13۔ گھر میں ہر کام کرنے والے ملازم اَن پڑھ اور کمی کمین کاما / ماسی کہلاتی ہے۔
14۔ فیکٹری ملز کام کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمین مزدور کہلاتا ہے۔
15۔ گوشت بیجنے والا ان پڑھ اور اور کمی کمین قصائی کہلاتا ہے۔
16۔ سبزی بیجنے والا ان پڑھ اور کمی کمین کنجڑا کہلاتا ہے۔
17۔ کپڑے بیجنے والا ان پڑھ اور اور کمی کمین بزاز کہلاتا ہے۔
18۔ دوکاندار اَن پڑھ اور کمی کمین بنیا کہلاتا ہے۔
19۔ گائے، بھینس، بکرا وغیرہ پالنے و بیچنے والا اَن پڑھ اور کمی کمین اجڑی کہلاتا ہے۔
20۔ ہوٹل میں چائے پینے پیش اَن پڑھ اور کمی کمین ویٹر /چھوٹا کہلاتا ہے۔
21۔ زمین دار کو مالا مال کرنے والا اس کی زمین کاشت کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمین مزارع کہلاتا ہے۔
22۔ جوتے مرمت کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمین موچی کہلاتا ہے۔
23۔ مساج کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمین مالشیہ کہلاتا ہے۔
24۔ گلی محلوں کی صفائی گٹر کھولنے والا ان پڑھ اور کمی کمین چوڑا مسلی کہلاتا ہے۔
25۔ خالص تیل کوہلو سے نکانے والا ان پڑھ اور کمی کمین تیلی کہلاتا ہے۔
26۔ کپڑے بننے والا ان پڑھ اور کمی کمین جولاہا کہلاتا ہے۔
27۔ کپڑے دھونے والا ان پڑھ اور کمی کمیں دھوبی کہلاتا ہے۔
28۔ کپڑے سینے والا ان پڑھ اور کمی کمیں درزی کہلاتا ہے۔
29۔ موسیقی روح کی غذا ہوتی ہے موسیقی کے آلات بنانے والا، محبت بھرے گیے گانے والا، جگت بازی سے دوسروں کا دل بہلانے والا اکثر ان پڑھ ہوتا ہے اسے خاص طور پر کمی کمین مراثی کہا جاتا ہے۔
30۔ برتن بنانے والا ان پڑھ اور کمی کمین کمہار کہلاتا ہے۔
31۔ لوہے کو پگھلا کر طرح طرح کے اوزار اور استعمال کا سامان پیدا کرنے والا ان پڑھ اور کمی کمیں لوہار کہلاتا ہے۔
دی گئی فہرست میں تمام طبقات ہنر ور ہیں ہم ان کے ہنر کا اعتراف کرنے کی بجائے ان کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں انہیں گھٹیا، بازای اور اشرافیہ سے الگ رکھتے ہیں خواہ یہ طبقہ اپنی محنت سے آسودہ حال بھی ہو جائے تب بھی انہیں یاد دلا جاتا رہتا ہے کہ تم فلاں ہو۔ اکثریت ان کی ہے جنہوں نے مختلف نوعیت کی مجبوریوں کے سبب سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا یا چارپانچ جماعتوں کے بعد تعیلم سے کنارہ کشی کر لی اور محنت مزدوری اپنالی۔
ملک کا بیڑہ غرق اَن پڑھ کرنے میں ان پڑھ افراد کا عمل دخل کم ہے گو کہ وہ بھی اسی مشین کا ایک پرزہ ہیں انہیں معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ جانتے نہیں اسی لیے کہتے ہیں"کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے" اس سے قطعآ یہ مراد نہیں کہ یہ لوگ دودھ کے دھلے ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق ہیرا بھیری، دھوکا دہی، معمولی کام کی زیادہ اجرت لینا، کام مکمل نہ کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا، ملاوٹ کرنا، کم تولنا، دام اچھی والی چیز کے لینا اور لفافے میں گندی چیز ڈال دینا۔ جھوٹے وعدے کرنا ان کا شعار ہے جو کرپشن کی ایک اعلی مثال ہے لیکن تعلیم یافتہ طبقہ پر زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب جانتے ہیں اور اقتدار اعلی اور فانون ساز اداروں میں بیٹھے ہیں ان کی کرپشن ان پڑھ افراد کی کرپشن سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔
تعلیم یافتہ افراد اور بالا دست طبقات، افسر شاہی، اشرافیہ اور مافیہ، سیاست دان اور حکمران کرپشن کے حوالے سے ایسی انجینرنگ اپناتے ہیں کہ ذرہ برابر نشان نہیں ملتا، سانپ جس راستے سے گزرتا ہے اپنی لکیر چھوڑ جاتا ہے یہ طبقہ لکیر تک مٹا دیتا ہے، یہ عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی ممالک سے لئے ہوئے قرض سے اپنا پیٹ اتنا بھرتے ہیں وہ پھٹ جاتا ہے لیکن ان کی ہوس زر ختم نہیں ہوتی۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے آج گھر گھر محلے محلے سکول و کالج کھلے ہیں مگر آج معاشرے و نظام کی حالت چالیس برس قبل سے بدتر ہے۔ کیوں؟
کیا ہمارے اداروں میں بیٹھے تعلیم یافتہ افراد اس کا سبب ہیں یا پورا معاشرہ ہی کرپشن پر اتر آیا ہے۔ اکثر دانشور بھی یہ ہی کہتے ہیں" کرپشن سیاست کاحصہ ہے دنیا کے تمام ممالک میں سیاست دان، بالائی طبقات، اعلی افسران، بھی کرپٹ ہیں"اس سلسلہ میں جاپان کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں افسران کا کمیشن پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ ہم ایک انتہائی آفتہ زدہ ملک کے پاسندے ہیں جو بد دیانتی میں ٹاپ 10 میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارا ملک جہاں 80 کی دہائی سے پہلے مغرب کے اکثر سیاح ںظر آتے تھے اب اسے "ریڈ زون" میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ہم ایسے بد کردار ہیں کہ دیگر ممالک ہم سے کوئی شے خریدنے کو تیار نہیں ہمارا کینو اور آم دنیا بھر میں مشہور تھا لیکن ان پیٹیوں میں اوپر آم اورکینو نیچے شلجم رکھ کر پیک کرکے بھیجے جانے لگے تو ان کی ایکسپورٹ ہی بند ہوگئی۔
ابھی تک ہم ذات پات اور پیشوں کے ذریعے اعلی اور ادنی ذات کی پہچان کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہندو مت سے برصغیر باک و ہند میں آئیں جو آریاؤں نے بنائی ہیں۔ ہم کس قدر بھی پڑھے لکھے ہوں ہم وسیع المشرب نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس کالک سے جان نہ چھڑا لیں۔
کیا ہمارا تعلیمی نصاب درست نہیں ہے؟ کیا ہمیں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس کے پڑھنے کے بعد قول و فعل میں تضاد پیدا ہوتا ہے؟ کیا ہم جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس کے بعد افراد میں عالمانہ تباحر پیدا ہو جاتا؟ کیا تعلیم یافتہ فرد اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھنے لگتا ہے؟ کیا ایک تعلیم یافتہ فرد عام انسانوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے؟
کیا ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی کشمکش کو تیز کرتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام قوت برداشت پیدا کرتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام اخلاقیات بھلا دیتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام مدنیت کے اصولوں پر عمل کرنا سکھاتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام دفتری عملہ اور اعلی افسران کو ان کے فرائص منصبی سکھاتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام نچلے طبقات کی عزت کرتا سکھاتا ہے؟
کیا ہمارا تعلیمی نظام فرد میں رعونت پیدا کرتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام آزادئی اظہار کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام یہ سکھاتا ہے کہ اپنے ماتحت پر ظلم ڈھائیں؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام سکھاتا ہے کہ کمزوروں پر اپنی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام عورت کی عزت اور فرد کی عزت نفس کا خیال رکھنا سکھاتا ہے؟
آج کرپشن کون کر رہا ہے آخر ہمارا نظام تعلیم پڑھے لکھے اور اَن پڑھ میں فرق پیدا کیوں نہیں کر سکا؟ یہ امر واقع ہے کہ کرپشن ہرطبقہ اپنی حیثت کے مطابق کر رہا ہے لیکن ادارے جو کرپشن کی روک تھام کے لیے عمل میں لائے گئے ہیں وہ اپنا کام دیانت داری سے کر رہے؟
اَن پڑھ جن کا ذکر پہلے کیا چکا ہوں آپ کو ذلیل نہیں کرے گا مگر آپ جب کسی بنک، دفتر، تھانہ، سکول، کالج، یونیورسٹی، پٹواری، سی ایس پی نوکر شاہی، فوج کے دفاتر، کچہری، واپڈا، ہسپتال کا عملہ جن میں نرسز ڈاکٹر وارڈ بوائے شامل ہیں، گیس کے محکمہ، سکول، کالج، یونیورسٹیوں کا عملہ اور اساتذہ آپ کی بات سننے کو تیار ہوتے ہیں؟ یہ سب افراد اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جو اپنا فرض تو نبھا نہیں سکتے الٹا لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں، آج کا کام کل اور پھر پرسوں پر ڈالتے ہیں بنا کسی سفارش کے جائز کام بھی نہیں ہوتا۔
فیصلہ آپ خود کریں کہ ان پڑھ اور تعلیم یافتہ میں کیا فرق ہے اور ذات پات کا نظام کیا ہے نیز ہمارا تعلیمی نظام کس سمت میں افراد کو لئے جا رہا ہے؟ سوچیے اور کوئی حل تلاش کیجئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اکثر دوست مذہب کے حوالے سے رائے دیں گے لیکن یہ سماجیات کا علم ہے اس میں افراد کی نفسیات، سیاست، سرمایہ دارانہ نظام، اشیاء کی بڑھتی ہوئی ہوس، میڈیا کا کردار، تعلیمی نصاب کا غیر طبقاتی ہونا یعنی سکول، کالج، یوں یورسٹی خواہ کتنی ہی آرام دے ہوں لیکن نصاب یکساں ہو جو ٹاٹ سکول اور اعلی طبقات کے سکول/ کالج/یونیورسٹی میں رائج ہو۔