Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Meraj/
  4. Jamaat Naham Ka Urdu Nisab Aur Bachon Ka Bidakna

Jamaat Naham Ka Urdu Nisab Aur Bachon Ka Bidakna

جماعت نہم کا اردو نصاب اور بچوں کا بدکنا

میں اپنے بیٹے معز کو آج کل اردو پڑھا رہا ہوں وہ آٹھویں جماعت میں ہے لیکن اسے نویں جماعت کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ پہلی تو یہی عجیب بات ہے کہ درجہ با درجہ پڑھایا جانا چاہیے۔ چلیں اب وفاقی ٹیکسٹ بورڈ اسلام آباد، جماعت نہم کے اردو کے نصاب پر بات کرتے ہیں جس کے مرتبین وزارت تعلیم کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب ترتیب دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ پالیسیاں اسلام، نظریہ پاکستان اور قومی اداروں سے متصادم نہیں ہونا چاہیئں بلکہ ان کے فروغ میں مددگار ہونا چاہیں۔ بچوں کو زبان کا علم دینا اور ان کی ذہنی سطح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بچوں کی تعلیمی نفسیات کے ماہر ان کمیٹیوں میں شامل نہیں ہوتے۔ پسندیدہ لوگ ماہرین نصاب کے طور پر منتخب کیے جاتے ہیں جو نصاب مرتب کرتے ہیں۔ اب چلتے ہیں نویں جماعت کے اردو کے نصاب کی جانب۔

1۔ پہلا سبق " سیرت سرور عالم ﷺ " از شبلی نعمانی(سیرت النبی سے لیا گیا ہے)۔ مولانا شبلی نعمانی نے یہ سیرت بالغوں کے لیے لکھی تھی۔ مولانا جید عالم بہت سی زبانوں کے ماہر اور مرصع نثر لکھنے والے تھے۔ یہ حصہ احادیث اور قرانی آیات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں عربی فارسی ہندی کے ایسے الفاظ شامل ہیں جن کی وضاحت کرتے ہوئے اور مفہوم سمجھانے کے میں ایک زمانہ درکار ہے دور از کار تراکیب صاحب مطالعہ کے لیے مولانا شبلی نے استعمال کیں یہاں بچوں کو پڑھنا پڑ رہی ہیں۔ بچے بھاری بھر کم اصطلاحات سے بدک جاتے ہیں ان کی ذہنی و قلبی وابستگی پیدا نہیں ہوتی اور اردو زبان کا سیکھنا اور اسے استعمال کرنا ان کے لیے کار اذیت بن جاتا ہے۔

2۔ دوسرا سبق " قومی اتفاق" سر سید احمد خان کے مقالات سے لیا گیا ہے۔ یہ مضمون بھی ادق زبان اور موضوع سے بھرا ہوا ہے بچوں کی اس زبان اور موضوع سے کسی طرح کی وابستگی پیدا نہیں ہوتی۔

3۔ تیسرا سبق " غالب کا اچھوتا پن" یادگار غالب از مولانا الطاف حسین حالی کا حصہ ہے۔ یہ کتاب بی ایس اردو کرنے والوں کو پانچویں چھٹے سمسٹر میں پڑھائی جاتی ہے یاد گار غالب تو ادیب و شعرا بھی کم پڑھتے ہیں پھر حالی کی نثر بھی نوآبادیاتی عہد کی نثر ہے جو متروک ہو چکی ہے۔ اس حصے میں غالب کی زندگی اور شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے اس میں غالب کی مشکل پسندی، سہل پسندی، میر و سودا سے تقابل کیا گیا ہے۔

4۔ چوتھا سبق " شاعروں کی باتیں" از محمد حسین آزاد "آب حیات" سے لیا گیا ہے۔ آپ حیات تاریخ اور تنقید کی پہلی کتاب ہے یہ کتاب بھی بی ایس اردو کے طلبا کو تنقید اور تاریخ کی ذیل میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس حصے میں خواجہ میر درد، سید انشا، حیدر علی آتش، بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب کے مختلف واقعات پر مبنی ہے۔ آزاد انشاء پردازی اور رومانوی نثر کے ماہر تھے۔ ان کے تخیل کی بلند پروازی کو پختہ ذوق والے ہی پہنچ سکتے ہیں۔ یہ نویں کے بچوں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔

5۔ پانچواں سبق: " توبتہ النصوح " ڈپٹی نذیر احمد کے ناول کا حصہ ہے۔ نذیر احمد کی زبان خالص دہلوی ہے روزمرہ سے بھر پور اس زبان کے ساتھ 2024 کے طلبا کی ذہنی موافقت کیسے بن سکتی ہے۔ محاورے، ضرب المثل اور ایسے لفظ جو فی زمانہ متروک ہو چکے ہیں بچوں کی یادداشت کا حصہ ہی نہیں بنتے۔ جب کہ ہمارے ہاں یادداشت کا امتحان لیا جاتا ہے۔

6۔ چھٹا سبق " زیور کا ڈبا " پریم چند کا افسانہ ہے۔ یہ قدرے آسان زبان میں ہے۔ لیکن اس میں ہندی الفاظ ہیں اور پوبارہ، سیندھ، منڈیر، پونجی، طشتری، بساطی، متوحش جیسے نامانوس الفاظ ہیں۔ جو بچوں کی بساط سے باہر ہیں۔

7۔ ساتواں سبق " آرام و سکون " امتیاز علی تاج کا ڈراما ہے۔ اس کی زبان بھی اہل زبان کے محاورات سے بھرپور ہے۔ مکالمات میں" ہے ہے " وغیرہ آج کی زبان سے بالکل مختلف ہے۔

8۔ آٹھواں سبق " نئی ہمسائی " میرزا ادیب کا ڈراما ہے۔ یہ قدرے آسان زبان میں ہے۔ گو اس میں بھی محاورات اور فارسی ضرب المثل ہیں لیکن کم ہیں۔

9۔ نواں سبق " نئی اور پرانی تہذیب کی ٹکر " مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین سے لیا گیا ہے۔ اس حصے کی زبان بھی نو آبادیاتی عہد کی ہے اور واقعات بھی اسی عہد کے بیان ہوئے ہیں۔ جن سے آج کے طالب علم جسے زبان اردو سکھانا مقصود ہے سے دور کا واسطہ نہیں۔

10۔ دسواں سبق " سماج " شفیق الرحمان کا ہے جو مزاح پر مبنی ہے۔ شکر ہے اس کی زبان بچوں کو سمجھ آتی ہے

11۔ گیارہواں سبق " کار بکاو ہے: کرنل محمد خان کے مزاح پر مشتمل ہے۔ اس کی زبان بھی بہتر ہے۔ اور بچوں کو سمجھ آتی ہے۔

12۔ بارھواں سبق " خطوط بنام مدیر " صحافتی مضمون ہے جسے ڈاکٹر مسکین حجازی نے لکھا ہے۔ اس مضمون کا موضوع بچوں کی دلچسپی سے خالی ہے۔ یہ صحافتی اقدار کے فروغ پر مبنی ہے۔

13۔ تیرھواں سبق " ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطے کی دنیا " پروفیسر امجد اقبال کا ہے جو اس نصاب کی کمیٹی کے ممبر ہیں۔ اس مضمون کی زبان عصری ہے موضوع بھی اسی عہد کا ہے۔

احباب! یہ حصہ نثر ہے جو وفاقی سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس مواد کا نسل نو سے کس طرح واسطہ پیدا ہو سکتا ہے۔ بچے اردو سے دور بھاگتے ہیں اور ہمیں شکوہ ہے کہ اس نسل کو اردو جو قومی زبان ہے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس طرح کے نصاب کا لازمی نتیجہ دوری ہے۔

اگر اردو کے ثقافتی ورثہ کو شامل کرنا ہے تو انگریزی طرز پر جیسے شیکسپیئر کے پڑھانے کے چھ درجے ہیں جو سکول میں مختلف مدارج میں پڑھائے جاتے اسی طرز پر مشاہیر اردو کو بچوں کے لیے درجات کے اعتبار سے آسان کرکے پڑھایا جائے۔ یہ بچوں کی تعلیمی نفسیات کے ماہر ہی طے کر سکتے ہیں۔ نصاب کمیٹیوں میں تعلیمی نفسیات کے ماہرین کا شامل ہونا لازمی ہے ورنہ یہ نسل اور آئندہ کی نسل اس زبان سے بھاگ جائے گی۔

کسی زبان کو سکھانے کا علم آسان سے مشکل کی طرف ہوتا ہے نہ کہ مشکل سے آسان کی طرف دوسری بات یہ کہ اگر ابتدا ہی سے اردو پڑھانے کے لیے اہداف طے کر لیے جائیں اور بچوں کی تربیت کی جائے تو پھر بھی کوئی بات بنتی ہے۔ کسی ادارے اور افراد کو احساس ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ قوم کے بچوں کے مستقبل سے کیسے کھیل رہیں ہیں۔ اس خوفناک صورتحال کی احساس دلانے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔ یہ حصہ نثر پر بات ہوئی حصہ نظم و غزل پر پھر کبھی سہی۔

اس نصاب کے مرتبین میں: پروفیسر ڈاکٹر خالد اقبال یاسر (تمغہ امتیاز)، پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم خالد، پروفیسر امجد اقبال شامل ہیں۔

Check Also

Samjhota Deed Aur Qanooni Muzmerat Ka Jaiza

By Rehmat Aziz Khan