Insan Ka Janwaron Se Salook
انسان کا جانوروں سے سلوک
انسان عجیب ہے ہر جاندار و بے جان کو اپنے استعمال میں لے آتا ہے۔ انسان کے قریب کتا آیا اسے رکھوالی پر رکھ لیا، طاقتور نسل کے کتوں کی لڑائی کرائی اور مزا لیا۔ ریچھ اور کتے کی لڑائی کرائی اور ٹکٹ لگا کر پیسے کمائے۔ گھوڑا کو انسان نے تانگے بگھی اور ذاتی سواری بنا لیا اس سے باربرداری کا کام لیا اس پر بیٹھ کر جنگیں لڑیں۔ بھینس اور گائے سے دودھ نکالا پھر اسے کاٹ کر گا گیا۔ بیل کو بیل گاڑی اور ہل چلانے کا کام لیا۔
ریچھ کو نچاوا۔ بندر سے اداکاری کروائی۔ ہاتھی پر سواری کی اور جنگوں میں استعمال کیا۔ شیر چیتے کو سرکس میں نچوایا۔ پرندوں کو پنجرے میں قید کر لیا۔ بکری کا دودھ نکالا پھر اسے کھا لیا۔ ہرن، بارہ سنگے اور اسی قبیل کے دوسرے جانوروں کا شکار کیا۔ سور کا شکار کیا۔ بلی کو شو پیس بنا لیا۔ گدھا بے چارہ باربرداری کے کام آیا۔ گدھا ریڑھی بنا کر مزید بوجھ لاد دیا۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو چڑیا گھروں میں قید کر دیا اور ٹکٹ لگا کر پیسے کمائے۔
سوچنے کی بات ہے اگر یہی جانوروں انسان کے ساتھ کرتے تو کیا صورت بنتی۔
اب animal rights کا شہرہ ہے لیکن بڑے ممالک سمیت بد حال ممالک جیسا کہ پاکستان ہے یہاں انسان ہی گھوڑا گدھا ریچھ بندر پنجروں میں بند پرندہ چڑیا گھر میں قید تمام جانوروں کی طرح ہی ہے آپ غور کریں گو نوعیت ذرا مختلف ہے۔ لیکن جانوروں کی سی زندگی کتنے فی صد انسان گزار رہے ہیں۔
گھوڑے کی طرح انسانوں کے کاندھوں پر چڑھ کر کچھ انسان اوپر جاتے ہیں، جنگوں میں گھوڑے تھے اب انسان صرف ہوتے ہیں جب گھوڑا بوڑھا ہو جائے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے یا اسے آوارہ چھوڑ دیا جاتا ہے اسی طرح جب انسانی جسم کی طاقت ختم ہو جاتی ہے تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔ کچھ انسان ایسے ہیں جو کتوں کی طرح انسانوں کے رکھوالے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مالک کے حکم پر بھونکتے کاٹتے ہیں۔
بھینس اور گائے کی طرح انسان کے جسم سے بھی نظام اور مالکان خون نچوڑ لیتے ہیں جب وہ پھنڈر ہو جاتے ہیں تو کاٹتے نہیں بلکہ معاشرے میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ ریچھ کی طرح بالا دست طبقات کے اشاروں پر انسان ہی ناچتے ہیں۔ بندر کی طرح انسان سے تماشا کروایا جاتا ہے ڈگڈگی پر انسان اکٹھے ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ انسان کو بھی شیر کی طرح دنیا کی بڑی سرکس میں زمانے کے قوانین، رسم و رواج اور روایات پر سرکس میں کام کرنے کے لیے سدھایا جاتا ہے۔ برن بارہ سنگھے کی طرح کمزور انسان کا ذہنی معاشی معاشرتی اخلاقی شکار کیا جاتا ہے۔
پرندوں کی طرح انسان بھی مختلف قسم کے پنجروں میں قید ہے مذہب سماج روایات ثقافت لسان نسل کے پنجرے جو نظر نہیں آتے۔ کچھ انسان سور کی طرح ہی ہوتے ہیں اب سور کی خوبیاں کیا لکھوں آپ سمجھتے ہوں گے۔ بلی کی طرح کچھ انسان اس دنیا کی نمائش میں شو پیس ہیں جن کی آسائش کم تر انسانوں کو ایسے بننے کی طرف راغب کرتی ہے۔ گدھا تو بوجھ اٹھاتا ہے انسان بھی خاندان معاشرے اور پھر اشرافیہ کا بوجھ اٹھاتا ہے جوں بھی نہیں کرتا کہ گدھا بھی احتجاج نہیں کرتا۔ باقی رہ کیا چڑیا گھر تو جناب یہ چڑیا گھر ہی تو ہے۔
ہاں، animal rights کی طرح human rights بھی ہیں لیکن جس قدر جانوروں کے حقوق پر اثر ہیں کیا اسی طرح انسانی حقوق بھی پر اثر ہیں؟ کیا جانور بے زبان ہیں تو کیا انسان بھی اپنی بات کہنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں؟
کیوں کیا کہتے ہیں آپ؟